چورن اور جدید فلسفی


میں اور میرے ہمنوا دوست بچپن میں چورن نہایت شوق سے کھایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میرا جیب خرچ نرسری سے دوسری جماعت تک ایک روپے فی یوم ہوا کرتا تھا۔ جس میں ہم املی، پاپڑ اور چورن نہایت شوق سے کھایا کرتے تھے۔ پھر زمانہ آگے بڑھا تو کھٹے چورن کے ساتھ ساتھ نمکین اور میٹھے چورن بھی مارکیٹ میں آ گئے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ مزید Flavor آتے رہے اور چورن کی ماہیت بدلتی رہی۔

آج جب میں اپنے گھر میں موجود بچوں کو دیکھتا ہوں تو وہ چورن کے اتنے شوقین نہیں۔ اس دور میں ان کے لیے مزید اشیاء موجود ہیں جن کو وہ ترجیح دیتے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ جب بچے چورن کا دامن چھوڑ چکے ہیں تو ہمارے اردگرد ایسے فلسفی پیدا ہو چکے ہیں جو ایسا چورن بیچ رہے ہیں جو کسی بھی نظریے سے اخذ شدہ نہیں ہے اور یہ چورن ہمارے جوان خرید رہے ہیں۔ یہ چورن اس قدر مزیدار ہے کہ جھٹ پٹ سے پہلے بک جاتا ہے۔ واللہ اس کا نشہ بھی ایسا ہے کہ جس کو لت لگ جائے تو وہ درویش بن جاتا ہے۔

ان چورن فروشوں کے مختلف القابات ہیں مثال کے طور پر موٹیویشنل سپیکر، قاری صاحب، ٹرینر، مینٹور، لیڈر شپ سکلز ڈویلپر وغیرہ وغیرہ۔

ان کی خصوصیات کے بارے میں بھی بات کی جائے گی مگر پہلے میں ایک مثال دوں گا۔ ایک دفعہ نیب نے تمام یونیورسٹیز سے مخصوص طلبہ کو دعوت دی۔ ہماری یونیورسٹی سے کل دس طلبہ گئے جن میں میں بھی شامل تھا اور ایک غیر ملکی طالب علم کہ جو اردو مکمل طور پر سمجھتا تھا۔ اس پروگرام میں ایک مشہور زمانہ موٹیویشنل سپیکر نے خطاب کیا۔ دوران خطاب اس نے ایک بات کہی کہ ہم میں بطور قوم اس قدر نفرت ہے کہ ہمارے ملک میں شیعہ سنی کی، سنی شیعہ کی، وہابی دیوبندی کی اور دیوبندی وہابی کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔

یہ بات مجھے انتہائی گھٹیا محسوس ہوئی کیونکہ میں شمالی پنجاب، جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان، کے پی کے گھوم چکا ہوں اور میں نے ہر جگہ نماز ادا کی مجھے کہیں پر بھی خدشہ محسوس نہ ہوا۔ ہاں کوئی ایک فیصد مقامات ہوں گے جہاں پر یہ مسائل ہوں تو کیا ایک فیصد کو نناوے پر فوقیت دے دینا حب الوطنی ہے یا جہالت؟ مگر چونکہ اپنا چورن بیچنا ہے تو اس طرح کی بے تکی باتیں بھی کرنا ہوں گی تاکہ ایک کش مکش کا ماحول بنا رہے اور واہ واہ ہوتی رہے۔

اب آتے ہیں مختلف خصوصیات کی جانب کہ یہ کس انداز میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کو یہ چورن فروش گروہ کبھی اسلامی دانشور کے طور پر، تو کبھی ملک کے ساتھ وفاداری کے نام پر یا پھر لوگوں کے ساتھ نام نہاد جذبات و احساسات کے رکھوالے کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ ان میں سے جو اسلامی لبادے میں چھپے ہوتے ہیں ان کا یہ طریقہ واردات ہے کہ خود کے واجبات اور فرائض کا علم ہو یا نہ ہو لیکن وہ اسلام کی نت نئی روایات اور تشریحات متعارف کرواتے نظر آتے ہیں کہ جی اسلام میں یہ ہے وہ ہے اور حد یہ کہ تشریحات اپنی مرضی کی کر رہے ہوتے ہیں اور ان تشریحات کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اس کی مثال میں دیتا چلوں کہ کچھ دن پہلے میرا ایک دوست ایک ویڈیو بڑے انہماک سے سن رہا تھا جس میں ایک شخص اسلامی نکتہ نظر کی عجیب و غریب تشریح کر رہا تھا تو مجھے سن کر بڑا عجیب لگا تو میں نے پوچھا کہ یہ مولوی کس مسلک کا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کا کوئی مسلک نہیں۔ پھر میں نے اس کا نام گوگل پر سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ جناب پہلے سوشل سائنسز کے طالب علم تھے پھر موٹیویشنل سپیکر بن گئے او ر آج کل مرضی کے اسلام کی تبلیغ اپنی مرضی کے مطابق کر رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم نے دوا لینی ہو تو ہم اس کے پاس جاتے ہیں جس کے پاس میڈیکل کی ڈگری ہو مگر کتنے بھولے ہیں ہم کہ ہر خاص و عام کو اپنے عقائد کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں۔

دوسری خصوصیت یہ کہ یہ خود کو پاکستان کا محب ظاہر کرتے ہیں اور ایسے حب الوطن کہ حب الوطنی پر لیکچر دینے کے بھی پیسے وصول کرتے ہیں۔ یہ آپ کو لیکچر دیں گے کہ بیرون ملک جانے سے بہتر ہے اپنے ملک کی خدمت کرو، اور 4000 CC گاڑی سے اتر کر آتے ہیں اور خطاب میں سمجھاتے ہیں کہ میں تو درویش ہوں بیرون ملک جا کر امیر ہو سکتا تھا مگر پاکستان میں رہ کر اپنی دھرتی کی خدمت کی۔ کیونکہ دھرتی تو ماں ہوتی ہے۔ نیچے وہ بیٹھ کر ان باتوں سے متاثر ہو رہا ہے جس کے پاس 70 CC موٹر سائیکل ہے۔ اگر ان صاحب سے پوچھ لیا جائے آپ نے وطن کے لیے کیا کیا تو بس تقریریں ہی نکلیں گی عملی کام کوئی نہیں۔

ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہر وقت ہنر سیکھنے کے طریقے بتاتے ہیں اور پاکستان کے جوانوں کو ہنر سکھانے کے لیے ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ میں گواہ ہوں کہ ایک جگہ میں نے کہا کہ میں فلاں ہنر سکھاؤں گا اور اس کے پیسے لوں گا تا کہ وہ آئندہ اپنا وہی کام خود کرے بار بار ہم سے رجوع نہ کرنا پڑے تو اسی مخلوق کے ایک باشندے نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ یہ سکھا دیں گے تو متعلقہ شعبہ پیسے کہاں سے کمائے گا۔ بس اسی دن سے میرے اندر یہ اگ بھڑک رہی ہے۔

اس سب کا ذمہ دار وہ اہل اور متحرک لوگ ہیں جو عاجزی کی وجہ سے میدان میں اتر کر ان کو ننگا نہیں کر دیتے۔ اگر ان چورن فروشوں کا بندوبست نہ کیا گیا تو یہ ہماری قوم کو درویشی ڈھولا بنا دیں گے۔ میرے جائزے کے مطابق ان چورن فروشوں کے مریدین صرف ان کو سنتے ہیں اور بعد میں یا تو ان کے جیسے چورن فروش بن جاتے ہیں یا پھر ستو پی کر سونے والا پنجابی ڈھولا۔ عزت چورن خریدنے میں نہیں بلکہ کوشش کرنے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments