لانگ مارچ، مخدوش معیشت اور لرزاں حکومت


منیرؔ نیازی مرحوم کا یہ شعر کہ
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

ملک کی سیاسی تاریخ کے ہر گزرتے دن پر صادق آتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاست، معیشت اور سماج پر مسلط طبقات نے اس گلشن کے کا تحفظ نہ کرنے اور اسے کی قسم کھا رکھی ہے۔ سیاست جو رخ اختیار کرتی جا رہی ہے وہ اس بات ثبوت ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار برائے خدمت کی بجائے طاقت اور اختیار ات کے حصول کے لیے متحرک ہیں۔

ایک طرف عمران خان ہیں جو اپنے دور اقتدار میں ایک ناکام حکمران ثابت ہوئے اور اب ”حق اور باطل“ کی جنگ کا نعرہ لگا کر پورے ملک میں جلسے کرنے کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان اپنے کارکنوں کو کہتے ہیں کہ جیلوں سے گھبرانا نہیں ہے مگر خود گرفتاری کے ڈر سے اپنی مرکزی قیادت سمیت پشاور میں پناہ گزین ہیں کہ وہاں صوبائی حکومت ان کی اپنی جماعت کی ہے۔ عمران خان کا کہنا یہ ہے کہ وہ لانگ مارچ ملک کی حقیقی آزادی کے لیے ایک جہاد کے طور پر کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ فوری انتخابات کا ہے۔ مگر جب ان کے دور اقتدار میں اپوزیشن نے جب بھی ان سے انتخابات کا مطالبہ کیا تو انہوں نے توجہ نہیں دی۔ پہلے کہا گیا کہ 20 مئی کے جلسے میں لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان ہو گا، اس کے بعد کہا گیا کہ اب لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان 25 سے 29 مئی کے درمیان کیا جائے گا۔ یہ اچھا جہاد ہے جس کے آغاز کے لیے مقتدر اداروں کے اشارہ ابرو کا منتظر رہنا پڑے۔

پشاور پریس کانفرنس میں ایک ناٹک یہ ہوا کہ شاہ محمود قریشی کے موبائل پر ایک کال آتی ہے، تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ کال ایک منظم ادارے کی جانب سے ہے، پھر خان صاحب کا ادائے بے نیازی کا تاثر۔ ظاہر کرتا ہے کہ جناب اب بھی نگاہ لطف و کرم کے طلب گار ہیں۔

جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، عرف عام میں جسے عرصے کو ہنی مون کہا جاتا ہے حکومت کا ہنی مون دن بہ دن پژمردگی میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں رواں ہفتے کے اختتام پر صنعت کاروں اور تاجروں کی جانب سے پیداواری لاگت میں اضافے اور قوت خرید میں کمی کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتوں میں انتہائی درجے کا اضافہ متوقع ہے۔ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے گریزاں ہے کہ ملک میں مہنگائی بڑھے گی۔

مگر دوسری جانب ڈالر کی اونچی پرواز ملک میں مہنگائی کا طوفان لا رہی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے وزراء ٹی وی چینلز پر جو گفتگو کر رہے ہیں اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اقتدار میں آ کر ان کے لیے ”پائے رفتن نہ جائے ماندن“ کا معاملہ ہوا ہے۔ اقتدار کی بڑی حصے دار جماعت مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز شریف عوامی اجتماعات میں عوام سے پوچھتی پھر رہی ہیں کہ کیا حکومت کو عمران خان کے دور حکومت کا گند اٹھانا چاہیے یا نہیں؟

، سوال یہ ہے کہ آپ کو کس نے دعوت دے کر بلایا تھا کہ آپ آئیں اور اقتدار سنبھالیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں تو پھر یہ سارا گورکھ دھندا کس کے لیے؟ اگر اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بعد ہی آپ نے انتخابات کروانے تھے تو اسی وقت کروا لیتے جب عمران خان نے عدم اعتماد پر اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں۔ مگر عمران خان اور صدر عارف علوی کے اس اقدام کے خلاف مسلم لیگ نواز اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور فیصلہ حق میں آنے اور اقتدار ملنے پر خوب خوشیاں منائی گئیں۔ مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے ہر نئے آنے والے پر یہ ہی لگتا ہے کہ حکومت اب ختم ہوئی کہ اب ختم ہوئی۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل تحریک انصاف کے دور حکومت میں ان کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے حل اس طرح بتایا کرتے تھے جیسے ایک ماہر ریاضی داں پہلی جماعت کے بچے کو گنتی لکھنا سکھا رہا ہو، اور لگتا یہ تھا کہ مفتاح اسماعیل کے لیے معیشت کو درست کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مگر جناب جب خود وزیر خزانہ کے عہدے پر براجمان ہوئے ہیں تو اب سارا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال کر دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ویسے عجب حکومت ہے کہ اقتدار میں آ کر مہینے بعد ہی عوام سے پوچھ رہی ہے کہ کیا ہمیں پچھلی حکومت کا گند اٹھانا چاہیے ؟ ، وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ ہمیں آزادی سے کام کرنے دیا گیا تو لانگ مارچ کے لیے آنے والے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ عمران خان اب بھی اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا ہے۔ ایک دن حکومت ملک کو آگے لے کر چلنے سے معذوری ظاہر کرتی ہے اور دوسرے روز ڈٹ جاتی ہے کہ نہیں مدت پوری کریں گے۔ وزیر داخلہ اختیارات کے استعمال کے لیے بے بس ہے اور آزادی کا طلب گار ہے تو پھر کون ہے جو ملک چلا سکتا ہے؟ حکومت کے اس رویے سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ان کے پاس بھی ملک کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس پلان نہیں ہے۔ معیشت کا سارا دارو مدار آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے معاشی تعاون پر منحصر ہے۔

اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اسلام آباد کے داخلی راستے بند کیے جا رہے ہیں، معیشت کا پہیہ جو عید کی چھٹیوں کے بعد سے سست رفتاری سے چل رہا تھا دو تین روز قبل ہی اس کی حرکت میں کچھ تیزی آئی تھی۔ اب تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور اس کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات سے معیشت پر جو منفی اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ ہماری سیاسی قیادت کو نہیں ہے۔ انہوں نے ملک کو ملک نہیں اپنی خواہشات کے لیے تجربہ گاہ اور بازیچۂ اطفال سمجھ رکھا ہے۔ سیاسی اور معاشی مسائل اپنی جگہ مگر سیاسی نظریات کی بنیاد پر معاشرے میں بڑھتی ہوئی نفرت اور عدم برداشت کا جو رجحان ہماری روایات اور اخلاقیات کو کھوکھلا کر رہا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا حل کس کے پاس ہے؟

کون ایسا ہے جسے دست ہو دل سازی میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments