25 مئی


ایک طرف تحریک آزادیٔ کشمیر کے عظیم رہنما یٰسین ملک کو بھارت میں سزا سنائی جانے والی ہے، جس نے اپنی پوری زندگی حریت پسندی میں گزاری۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی آزادی کے لئے جدوجہد کرتا رہا۔ کئی سال جیل میں قید رہے، کئی دفعہ نظربند رہے۔ بیوی اور بیٹی راہ تکتے رہ گئے مگر ان کی کوئی خبر نہیں۔ اور آج کے دن انہیں بھارت اپنے جبری استبدادی کے پیش نظر سزا سنانے جا رہا ہے جو یقیناً سزائے موت ہوگی۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ویسے بھی تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے، اور اگر ایسے میں یٰسین ملک کو سزا سنا دی گئی تو یہ لاوا پھٹ بھی سکتا ہے۔

دوسری طرف سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے حقیقی آزادی مارچ کے عنوان سے لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسلام آباد کو سیل کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سندھ اور پنجاب کے کئی شہروں میں دھرنے اور احتجاج کی کال بھی دی گئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے لانگ مارچ کو روکنے کے لئے تمام حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ جس میں کسی ناخوشگوار واقعے کا رونما ہونا یقینی ہو گا۔

ملک میں افراتفری کا عالم ہے، سیاسی ہلچل عروج پر ہے۔ معیشت پہلے ہی صاحب فراش ہو چکی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے۔ مہنگائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ دودھ مافیا نے پھر قیمتیں بڑھانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں جس سے مہنگائی مزید بڑھ رہی ہے۔ پیٹرول کی قیمت مستحکم رہنے کے باوجود بے چینی کی کیفیت پورے ملک میں موجود ہے۔ حکومت مشکل فیصلے کرنے میں تذبذب کا شکار ہے۔ کئی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت کی ویسے بھی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں، مفادات کا ٹکراؤ مشکل فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

کوئی مانے یا نہ مانے شہباز شریف صاحب نے وزارت عظمیٰ لے کر وقتی فائدہ تو حاصل کر لیا۔ ان کے اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے کیسز ختم تو ہوجائیں گے، مگر نون لیگ کی کارکردگی پر جو ڈینٹ لگے گا وہ کئی سالوں تک نہیں بھر سکتا۔ پیپلز پارٹی نے بڑی ہی ہوشیاری اور چالاکی سے تمام گند (ن) لیگ کی جھولی میں پھینک دیا ہے جسے انہوں نے بخوشی اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ میاں صاحب کی سیاسی سمجھ بوجھ اپنی جگہ، مگر ان کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان بہت خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنے دور حکومت میں تگڑی اپوزیشن نہیں ملی۔ گو کہ متحدہ حزب اختلاف نے انہیں عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے باہر کر دیا، لیکن وہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں جیسا کہ لانگ مارچ کا اعلان۔ اس لانگ مارچ کے نتائج کیا نکلیں گے اس پر تو کچھ کہنا قبل از بعید ہو گا۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ اگلے سال عام انتخابات تک پاکستان تحریک انصاف اپنی پوزیشن کو مکمل طور پر بحال کروا لے گی۔ اپوزیشن کو ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

ماہ نومبر میں آرمی چیف کی تبدیلی تمام منظرنامے کو بدلنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اب تمام نظریں نومبر کے مہینے پر ہی لگی ہیں کہ آرمی چیف کا قرعہ کس کے نام نکلتا ہے۔ پی ٹی آئی کے منحرف رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر بن گئے ہیں، اب وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے اور دوسری طرف ان کے حمایت یافتہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض۔ بظاہر تو کسی قسم کی کوئی مشکل یا پریشانی نظر نہیں آ رہی، چیئرمین نیب کی تقرری بھی دونوں کی مشاورت سے ہو جائے گی۔

سیاسی جلسوں میں خواتین میں بہتان طرازی، ذومعنی لفظوں سے مخاطب کرنا یہ کوئی نیا عمل نہیں ہے، فاطمہ جناح ہوں یا بی بی شہید، اور اب بشری بی بی، مریم نواز ہوں، مراد سعید کی بہنیں ہوں یا دیگر کوئی خواتین۔ مردوں کے اس معاشرے میں عورت کو ہی تذلیل کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ مگر اس دفعہ کچھ مختلف ہے۔ مریم نواز کی شکل میں ایک ایسی خاتون بھی موجود ہے جس نے نہ ہی مرد کو چھوڑا اور نہ ہی کسی عورت کو۔ اس کی کوئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر اس میں جائے بغیر ایسے اقدامات کی سختی سے مذمت کی جانے چاہیے۔ نہ ہی شریعت اس کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی اخلاقیات۔ کسی کی بہن، بیوی، بیٹی، ماں کو غلط انداز میں اور غلط القابات سے پکارا جائے۔ لیڈر عوام کا مشعل راہ ہوتا ہے جیسا لیڈر کرتا ہے وہی عوام بھی کرتی ہے۔ اس لئے لیڈر کو شائستگی اور اخلاقیات کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

عوام کے سیلاب کو روکنا کبھی بھی ممکن نہیں رہا ہے، عوام کی طاقت ہی حکمرانی کا سرچشمہ ہوتی ہے، حقیقی آزادی مارچ ہو یا، کچھ اور

مگر پاکستان کی سالمیت پر آنچ نہیں آنی چاہیے، اگر ایسا ہوا تو
”میرے عزیز ہم وطنو“ کی آواز بھی آ سکتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments