اصل ٹھکانے کی جستجو


پہلے پہل یادداشت کا تعلق صرف عمر کے ساتھ ہی جوڑا جاتا تھا ’اور یہ تعلق راست تناسب نہیں بلکہ معکوس تناسب توقفت ہے یعنی اگر عمر بڑھ رہی ہے تو یادداشت کم ہو رہی ہے لیکن اگر یادداشت بڑھ رہی ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ عمر کم ہو رہی ہے۔ اسی نقطے کو نمایاں کرنے کے لئے ”توقفت“ کی اصطلاح ساتھ نتھی کرنا پڑی۔

تھوڑے سے پرانے دور کی بات ہے ’جس کے متعلق یہ جملہ صحیح لگتا ہے کہ تب گھر کچے لیکن لوگ من کے سچے ہوتے تھے‘ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کا بہترین ٹھکانہ لاہور میسر آتا تھا۔ اس وقت تک ”آٹو ٹانگے“ اور ”چاند گاڑی“ کی دریافت ابھی نہیں ہوئی تھی اور ریلوے اسٹیشن سے اپنی منزل تک جانے کے لئے حقیقی تانگے کا ہی آسرا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ایسا تانگہ بھی مل جاتا کہ گھوڑے کی خستہ حالت دیکھ کر لگتا کہ کشمیری گیٹ کی چڑھائی سب کو پیدل ہی چڑھنی پڑے گی۔

ایسے موقعوں پہ جو صدائے احتجاج بلند ہوتی تو اسے یہ کہہ کر خاموش کروایا جاتا کہ پت اسیں کیڑا مل لینا ’تھوڑا جیہا تے پینڈا‘ جھٹ پہنچ جانا (بیٹا ہم نے کون سا خریدنا ہے ’تھوڑا سا تو فاصلہ ہے‘ جلد ہی پہنچ جانا ہے ) ۔ اس وقت یہ بات ایسے ہی ناگوار گزرتی تھی جیسے آج کے بچے کو موبائل یا ٹیبلیٹ واپس کرنا ناگوار گزرتا ہے۔

پھر زمانہ بدلا ’پتا نہیں زمانہ بدلا یا زمانے نے لیا بدلہ۔ عمر کا سن بڑھنے لگا تو دیگر حقیقتوں کے ساتھ یہ راز بھی آشکار ہوا کہ یہ ناگوار محسوس ہونے والا جملہ محض وقتی تسلی کے لئے کہا جانے والا یہ کوئی عام سا جملہ نہیں بلکہ اس کے اندر تو ایک حقیقت پنہاں ہے۔ اس بات کا ادراک ہوا کہ یہ بات تو کم و بیش ہر جگہ ہی آڑے آتی ہے۔

آج کی تیز رفتار چلتی زندگی میں کہیں گھنٹے دو گھنٹے کا وقتی سفر ہو ’کسی ناپسند کے ساتھ دو قدم چلنا ہو‘ کوئی لفظی تیر اڑتا چلا آئے ’حقارت بھرے لہجے کا بھبھکا ہو‘ آنکھوں کو خیرہ کرتا فانی حسن ہو ’دعوت نظارہ دیتا ڈھلتا سورج ہو‘ رات کنارے افق پہ چودھویں کا چاند ہو یا اس رخ مہتاب کو دیکھ کے کرلاتا کوئی چکور ’ان سب کو ایک نظر دیکھ کے گزر جانے ہی میں عافیت ہے کہ ان میں کھو جانے کا مطلب سوائے اپنی راہ کھوٹی کرنے کے اور کچھ نہیں۔

بارش کے بعد راہ چلتے ہوئے جس انداز میں کیچڑ سے اپنے کپڑے بچائے جاتے ہیں ’یا جیسے خاردار جھاڑیوں میں سے گزرتے ہوئے اپنا کرتا بچایا جاتا ہے ایسے ہی اس دنیا میں رہتے ہوئے‘ سب دنیاداری کرتے ہوئے ’اس دنیا سے بھی بچتے رہنے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ اس جہاں کے بعد ایک اور جہان منتظر ہے‘ وہی جو ہمارا اصل ٹھکانہ تھا اور اصل ٹھکانہ ہے ’جہاں تک پہنچنے کی جستجو کرنی ہے۔

دنیا کے دھندوں میں رہتے ہوئے اپنے معاملات کو درست رکھنا ہی اصل کامیابی ہے۔ دنیا کی چکا چوند ’دکھاوے کی پختگی‘ دھوکے کی راحت اور راہ بھٹکاتی کہانیاں کہیں منزل سے دور نہ کر دیں۔ نظریں اپنے مقصود پہ رہیں ’دل میں پہنچنے کی سچی طلب و لگن ہو تو مالک کو ترس آ ہی جاتا ہے۔ اگر کبھی دل و دماغ کے کسی گوشے میں کوئی غبار آ جائے تو یاد رہے جو دانائے راز بتا گئے ہیں کہ ”تم اس دنیا میں رہتے نہیں بلکہ تم یہاں سے گزرتے ہو“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments