کیا آپ یاور بھائی کو جانتے ہیں؟


فنا، وجود کا لازمہ ہے۔ اپنے اکلوتے یاور کو خاک برد کرنے کے بعد ، ائرپورٹ کی انتظار گاہ میں روانگی کے لیے بیٹھے ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر یہی واحد سچائی ہے تو پھر اس ہستی کی بھلا کیا ہستی ہے۔ کیا زیست محض رائیگانی کا استعارہ ہے یا آیا کوئی جوہر ہے جو فنا آشوب زندگی کو دوام بخشتا ہے۔

موت انہونی کا نام تو نہیں ہے کہ شہر خموشاں کی اگتی قبروں میں جا بجا نصب کتبے ایک ہی حقیقت تو بیان کر رہے ہوتے ہیں تو پھر وہ کیا کمپلشن ہے کہ قلم اس کھو دینے کے دکھ کو لفظوں کے سپرد کرنے پر مچل رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ذاتی سانحوں پر کالم نہیں لکھے جاتے کہ آنکھیں تو محبت کا خراج ادا کر ہی دیتیں ہیں۔ صاحبو۔ یہ گریہ بھی کتنی عظیم نعمت ہے۔

یاور میرے خالہ زاد بھائی تھے۔ وہ ایک ایجوکیشنلسٹ بھی تھے۔ اور ایک شاعر بھی۔ ایک بہترین آرٹسٹ بھی تھے۔ غضب کے مقرر بھی، ”خوش“ کے سارے لاحقے بغیر کسی تردد کے، ان کی شخصیت کے لئے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ خوش شکل، خوش آواز، خوش گلو، خوش خصال، خوش لباس، خوش خیال، خوش نویس۔

یاور بھائی کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے زندگی کے محض دو سال گزرے۔ ان دو برسوں میں وہ بلا شرکت غیرے ہمارے تھے۔ ہم NED یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ میں تھے اور وہ کراچی اسکول آف آرٹس میں زیر تعلیم تھے۔ ائر فورس میں GD پائلٹ اور پھر اس کے بعد نیوی کی تربیت چھوڑ کر رنگوں کے حیرت کدہ میں قدم رکھنے کے لئے کم از کم پہاڑ جیسا حوصلہ تو چاہیے تھا۔ سو یہ وہی کر سکتے تھے۔

رات ڈھلے جیل روڈ کی اندرونی کچی پکی گلیوں میں اپنی مخروطی انگلیوں میں سگریٹ دبائے فیض، ساحر اور جدید نظموں کے شاعر فرخ یار کی نظموں کو گنگناتے تو جی چاہتا کہ رات ختم نہ ہو۔ ترنم رکتا تو ٹھہرے ٹھہرے لہجہ میں آواز کا زیر و بم سناٹے میں عجب سماں باندھ دیتا۔

بھلا یہ کون مان سکتا ہے کہ آپ ان سے ملے ہوں اور انہوں نے آپ کی ذات پر کوئی نقش نہ چھوڑا ہو۔

انٹر کرنے کے بعد ہم دوبئی سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ NED یونیورسٹی کی پہلی میرٹ لسٹ شایع ہوئی۔ اس میں ہمارا نام نہیں تھا۔ مجھ کو افسردہ دیکھا تو سبب پوچھا۔ وجہ بتانے پر پیٹھ تھپتھپائی کہ ارے بھئی کچھ نہیں ہوا۔ اس یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے سے زندگی ختم نہیں ہو جائے گی۔ یارو۔ اس لمس میں عجب حوصلہ تھا، غضب کی توانائی تھی۔ ہم نے اس کے بعد ہر مشکل وقت میں اس لمس کو محسوس کیا ہے۔

اگر آپ کو بھی زندگی میں کبھی کسی ایسے لمس کی تپش محسوس ہوئی ہے تو آپ بھی یاور بھائی کو جانتے ہیں۔

اگر پان کی دکان سے سگریٹ لیتے ہوئے کسی نے آپ کو سونف کا پیکٹ ہمیشہ تھمایا ہے تو آپ یقیناً یاور بھائی سے واقف ہیں۔

ہمارے معاشرے میں مروج ابنارمل نارمز پر اگر آپ نے کسی کو چیں بہ جبیں اور اصلاح کی اپنی مقدور بھر کوشش کرتے دیکھا ہے تو آپ یاور بھائی سے مل چکے ہیں۔

کسی کی شادی ہو اور آپ ایک بہترین لباس میں ملبوس شخص کو دو تین نوجوان لڑکے لڑکیوں میں گھرا ہوا دیکھیں تو آپ یاور بھائی کو دیکھ چکے ہیں۔

اگر کسی نے آپ کو بچپنے میں کانٹے، چمچے اور چھری کا استعمال کا طریقہ بتایا ہے، کسی نے ٹائی باندھنا سکھائی ہے، کن کپڑوں پر کون سے جوتے پہنے جاتے ہیں، اس کا گیان دیا ہے۔ نیا کوٹ پہنتے وقت پچھلی جانب کی سلائی کا دھاگہ کاٹ دینا چاہیے، یہ سمجھایا ہے تو آپ کی زندگی میں بھی یاور بھائی رہے ہیں۔

اگر آپ نے کسی شخص کو انتہائی سلیقہ شعار دیکھا ہے مگر اس حد سے کہیں کم، جہاں وہ سلیقہ بیماری کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو آپ کی ان سے علیک سلیک رہی ہے۔

آپ ایسے فرد سے زندگی میں ضرور ملے ہوں گے جو جھوٹ نہیں بولتا۔ لیکن کیا ایسے سے بھی ملیں ہیں جو ساتھ ساتھ سچ کو بھی چھپاتا نہیں ہے۔ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ یاور بھائی کو جانتے ہیں۔

یاور بھائی کو دیکھنے کے بے شمار حوالے ہیں لیکن استاد ہونا ان پر سب سے زیادہ جچتا ہے۔ انہوں نے کراچی اسکول آف آرٹس، کوم سیٹس اور انڈس ویلی اسکول آف آرٹس میں مستقل بنیادوں پر درسی فرائض انجام دیے۔ تعلیم بلا تربیت کیا گل کھلاتی ہے اس سے ہم پاکستانی قوم سے زیادہ کون واقف ہو گا۔ وہ ادھورے انسان تھے اور نہ ہی ادھورے استاد۔ طلبہ تو طلبہ نہ جانے کتنے اساتذہ کی انہوں نے تربیت کی ہو گی۔

ہم ہمیشہ سوچتے تھے کہ ایک انسان کو بھلا اس زندگی میں کیا کچھ کر کے جانا چاہیے۔ قبر میں کروٹ لئے اجلے کفن میں ملبوس اپنے یاورا کے مسکراتے چہرے پر جب آخری نگاہ ڈالی تو یہ عقدہ کھلا کی کم از کم اتنا جتنا کہ یاور بھائی اکیاون برس کی عمر میں کر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments