کیا درآمدات پاکستانی معیشت کے لیے نقصان دہ ہیں؟


پاکستان کی معیشت کے حوالے سے کیے جانے والے اب تک کے امپیریکل تجزیوں سے معلوم ہوتا کہ پاکستان کی شرح نمو اور درآمدات میں باہمی تعلق پایا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جب شرح نمو میں اضافہ ہو گا تو درآمدات میں بھی اضافہ ہو گا۔ کیونکہ جب شرح نمو میں اضافہ ہوتا ہے تو خام مال، مشینری، اور پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوتا جو پاکستان درآمد کرتا ہے۔ لہذا لا محالہ طور پر شرح نمو کے بڑھنے سے درآمدات میں اضافہ ہو گا۔ جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا ہے اور اس کا اثر زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے۔ اب جب زر مبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑتا ہے تو ہمارے پاس درآمد کی جانے والی اشیاء کی ادائیگی اور قرضوں کی اقساط کے ادائیگی کے لیے درکار ڈالر میں کمی ہونا شروع ہو جاتی جسے ایک بہت بڑے معاشی مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

لیکن ہماری حکومتیں اس خسارے سے نمٹنے کے لیے درآمدات پر پابندی کو ہی واحد حل سمجھتی ہیں۔ حکومت میں موجود طرم خان دھوتیاں ہاتھ میں پکڑتے ہیں اور امپورٹس کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں کہ امپورٹ کم کرنی ہیں تاکہ خسارہ کم کیا جا سکے۔ جس کے لیے درآمدات پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں، بعض اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے امپورٹ کے عمل میں مختلف روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔

اب اپنی خوشی سے حکومت سنبھالنے والے ہیروں نے بھی یہی کیا ہے اور خسارے کو کم کرنے کے لیے لگژری اشیا کی امپورٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ اور یہ لگژری اشیا کل امپورٹس کا محض چند فیصد ہے۔ پوچھنا چاہیے کہ اگر یہ تمام اشیا ایسی ہی غیر ضروری اور پرتعیش تھیں تو ان کی درآمد کی اجازت پہلے دی ہی کیوں گئی؟ لیکن اب جب کہ یہ اشیاء بہت ساروں کی ضرورت بن چکی ہیں اور متعدد افراد کے روزگار کا ذریعہ ہے تو اس پر پابندی لگانا ظلم نہیں ہے؟

گزشتہ حکومت نے اس خسارے سے نمٹنے کے لیے ایکسپورٹ سیکٹر کو دل کھول کر سبسڈیز دیں، ڈالر کو یک لخت مارکیٹ فورسز کے حوالے کر دیا، امپورٹ ٹیکس بڑھایا اور امپورٹس کی حوصلہ شکنی کے لیے امپورٹ کے عمل کو مشکل بنایا گیا۔

ایسے میں ہوا یہ کہ جو کمپنیاں امپورٹ کے کاروبار سے منسلک تھیں ان کے لیے مشکلات پیدا ہو گئیں۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونے کے بعد کھلی منڈی میں عام صارف کو فروخت کرنے والے امپورٹر نے تو قیمتیں بڑھا کے گزارا کر لیا۔ لیکن ایسی کمپنیوں کو کروڑوں روپوں کا نقصان اٹھانا پڑا جو خاص طور پر سرکاری محکموں کو مال فراہم کر رہی تھیں۔ کیونکہ سرکاری محکمے اپنی ضرورت کی اشیا ٹھیکے کے ذریعے خریدتی ہیں اور ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے جب آپ درخواست دیتے ہیں تو آپ نے ایک قیمت دینی ہوتی ہے اور ٹھیکہ ملنے کے بعد اس قیمت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اگر ایسا کرتے ہیں تو آپ کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اور بلیک لسٹ ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

لہذا جب ڈالر ریٹ بڑھا اور ڈیوٹیز میں اضافہ ہوا تو درآمد کی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہو گیا۔ ایسے میں سرکاری محکموں کو امپورٹ کا سامان فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں نے یا تو مہنگی اشیاء امپورٹ کر کے سستے داموں فراہم کیں اور لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کیا۔ جبکہ متعدد چھوٹی کمپنیاں جو یہ نقصان برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھیں انہوں نے جرمانے ادا کیے اور اپنے کروڑوں روپے کے ٹھیکے منسوخ کروائے جس کے باعث متعدد کمپنیاں بند ہو گئیں۔ خسارہ کچھ مدت کے لیے کم ہوا لیکن اس کے ساتھ شرح نمو بھی کم ہوئی اور مجموعی طور پر عوام اور ملکی معیشت کو نقصان ہوا اور جیسے ہی شرح نمو دوبارہ سے بڑھنی شروع ہوئی اور خسارہ بھی بڑھنے لگا اور صورتحال ہمارے سامنے ہے۔

بات سمجھنے کی یہ ہے کہ امپورٹ پر پابندیوں اور ٹیکس میں اضافے سے کوئی خاطر خواہ طویل مدتی حل نہیں ملے گا بلکہ الٹا نقصان ہو گا۔ دراصل ہم امپورٹ زیادہ نہیں کرتے بلکہ ایکسپورٹ ہی کم کرتے ہیں۔ ایکسپورٹ سیکٹر کو سبسڈیز دے کر اسے چلایا جا رہا لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ جس کی بڑی وجہ ہماری پیداواری صلاحیت میں کمی ہے۔ اور پیداواری صلاحیت سبسڈیز دینے سے نہیں بڑھے گی بلکہ اس کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں دیگر سٹرکچرل تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تخلیقی معیشت اور جدت و اختراع کو بنیاد بنانا پڑے گا۔ اور تخلیقی معیشت اور انوویشنز کے وقوع پذیر ہونے کے لیے سیاسی استحکام، رواداری اور سوچنے سمجھنے اور عمل کی آزادیاں ضروری ہیں۔ بصورت دیگر دائروں کا یہ سفر ایسے ہی جاری رہے گا۔ اور ہمارے لیڈران اس حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں اس کے لیے ہماری موجودہ سیاسی اور سماجی حالت دیکھ لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments