لانگ مارچ ختم کرنے کا فیصلہ: پی ٹی آئی کے بیانیے، انتخابی سیاست اور ورکرز پر کیا اثرات مرتب کرے گا؟

احمد اعجاز - صحافی، مصنف


سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعرات کی صبح جناح ایونیو میں اپنے کارکنوں سے خطاب میں لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ سابق وزیرِ اعظم نے حکومت سے مطالبے کی صورت میں یہ اعلان کیا ’چھ روز میں الیکشن کرائے جائیں، ورنہ اسلام آباد میں 30 لاکھ افراد کو دوبارہ جمع کروں گا۔‘

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے لانگ مارچ ختم کرنے، حکومت کو چھ دن کی مہلت دینے، دوبارہ ورکرز کو اسلام آباد جمع کرنے، کے فیصلے سے، پی ٹی آئی کی سیاست، عمران خان کی مقبولیت، ورکرز کے حوصلوں، لگ بھگ ڈیڑھ ماہ سے تشکیل دیے گئے بیانیے اور انتخابی مہم پر کس طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

اور کیا مختلف شہروں کے پی ٹی آئی ورکرز لانگ مارچ کے خاتمے سے خوش ہیں اور کیا وہ دوبارہ گھروں سے نکلیں گے؟

عرفان سلیم (صدر پی ٹی آئی، پشاور سٹی) سے جب یہ پوچھا گیا کہ لانگ مارچ ختم کرنے کے فیصلے پر ورکرز کا کیا ردعمل ہے تو ان کا کہنا تھا ’ہمارا ورکر لیڈر کی کال پر آیا تھا، جب کال دوبارہ دی جائے گی، تو پھر دوبارہ آئے گا۔ ہمارا پشاور کا ورکر عمران خان کے لانگ مارچ ختم کرنے کے فیصلے سے خوش ہوا، دل شکستہ نہیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اعلان تو پی ٹی آئی ورکرز کے لیے ہی کیا گیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی ورکرز اور سکیورٹی کے مابین تصادم کا امکان تھا، جبکہ حکومت چاہتی تھی، تصادم بڑے پیمانے پر ہو، عمران خان نے لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر کےاُس تصادم کا خطرہ ٹال دیا۔‘

راؤ آصف (جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی، ملتان) کا کہنا تھا ’ہمارا ورکر سیاست نہیں جنگ کر رہا ہے۔ اگر مقاصد پورے نہ ہوئے تو چھ دن بعد پھر نکلیں گے۔ ابھی ملتان سے ہم اسلام آباد آئے تو راستے میں تین چار مقامات پر بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ ورکرز نے رکاوٹیں عبور کیں۔‘

جب اِن سے پوچھا گیا کہ عمران خان کے مارچ ختم کرنے کے اعلان کو ورکرز نے کیسے دیکھا، تو کہنے لگے ’ہمارا کارکن اپنے لیڈر پر اندھا یقین رکھتا ہے۔ پہلی بار ہمیں رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، شیلنگ کی گئی، ہمارا ورکر اس کے لیے تیار نہیں تھا، اب وہ اس مرحلے سے بھی گزر گیا ہے، اب اُس کا خوف ختم ہوگیا ہے۔ لانگ مارچ ختم کرنے کے اعلان سے ورکر خوش ہے۔‘

عمران خان

سید ثنا اللہ شاہ (جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی، ڈی آئی خان) کا کہنا تھا ’عمران خان کے لانگ مار چ ختم کرنے کے اعلان سے ہمارے ورکر دل گرفتہ نہیں بلکہ خوش ہوئے۔ ورکرز کو اپنے لیڈر پر پورا یقین ہے کہ وہ بہتر فیصلہ کرے گا۔‘

جب اِن سے پوچھا گیا کہ اگر چھ دن بعد ورکرز کو دوبارہ گھروں سے نکالنا پڑے تو وہ نکال پائیں گے؟ اِن کاکہنا تھا ’ہمارا ورکر گرمی سردی، موسم کی سختی نہیں دیکھتا۔وکرز کے سامنے مقصد بڑا ہے۔‘

چودھری سلیم صادق (جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی، ڈسٹرکٹ اوکاڑہ) کا کہنا تھا ’میں رات بھر اوکاڑہ ورکرز کے ساتھ شیلنگ کا سامنا کرتا رہا، اس وقت (26 مئی، دن 2 بجے) اسلام آباد میں الرجی سینٹر آیا ہوا ہوں، ہمارا ٹارگٹ حاصل ہوگیا، اس لیے عمران خان کا فیصلہ درست تھا۔‘

جب اِن سے پوچھا گیا کہ کون سا ٹارگٹ حاصل ہوا؟ تو کہنے لگے ’اگلے چھ دن میں سب سامنے آجائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو چھ دن بعد پھر آجائیں گے۔‘

جب پوچھا گیا کہ اوکاڑہ ڈسٹرکٹ سے کتنے لوگ مارچ کا حصہ بنے، تو بتایا ’اوکاڑہ سے میرے ساتھ پانچ سو کے قریب ورکرز آئے۔ ورکرز کو گرفتاریوں کا خوف تھا۔‘

وسیم شہزاد خٹک (مرکزی جوائنٹ سیکرٹری، پی ٹی آئی) ہزارہ ریجن کے پی ٹی آئی قافلوں کی قیادت کر رہے تھے۔ جب اِن سے پوچھا گیا کہ لانگ مارچ ختم کرنے کے اعلان سے ورکر خوش ہے یا ناخوش، تو اِنھوں نے کہا ’ورکر دلبرداشتہ نہیں، خوش ہوا ہے۔ ہم نے رات بھر سڑکوں پر رہ کر شیلنگ کا سامنا کیا۔‘

اس سوال پر کہ اگر لوگوں کو چھ دن کے بعد دوبارہ نکالنا پڑ جائے تو کیا کریں گے، اس پر اِن کا کہنا تھا ’اس لانگ مارچ کے حوالے سے ہمارا ورکر خوف زدہ تھا، وفاقی حکومت پکڑ دھکڑ کر رہی تھی، سختی سے بھی نمٹا جارہا تھا، ورکر خوف محسوس کر رہا تھا، مگر اب اگر دوبارہ نکالنا پڑجائے تو وہ کم ازکم خوف زدہ نہیں ہوگا، اُن کا خوف کسی حدتک اُتر چکا ہے۔ ہمارا ورکر تو عمران خان کی آواز پر نکلتا ہے، چاہے وہ جیسا بھی فیصلہ کریں۔‘

احمد جمال خان (سابق سینئر نائب صدر پی ٹی آئی، میانوالی) سے جب 26 جولائی بوقت تین بجے سہ پہر رابطہ کیا گیا تو وہ لانگ مارچ میں شرکت کے بعد واپس میانوالی جارہے تھے اور تلہ گنگ کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی: سیاسی جماعتوں اور ماہرین کی رائے

پی ٹی آئی کارکنوں کا درختوں کو آگ لگانے کا عمل: کیا دھواں واقعی آنسو گیس کے اثرات کم کرتا ہے؟

آئین کہاں نیوٹرل رہنے اور کہاں معاونت کا حکم دیتا ہے؟

لانگ مارچ کے خاتمے کے اعلان کو میانوالی کے پی ٹی آئی ورکرز، جو مارچ کا حصہ بنے، کیسے دیکھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اِن کا کہنا تھا ‘میانوالی سے ہمارے ساتھ کافی تعداد میں ورکرز آئے۔ اس فیصلے سے یہ خوش ہیں’۔

لوگوں کو دوبارہ چھ دن بعد گھروں سے نکالنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا ‘میرے خیال میں لوگوں کو دوبارہ گھروں سے نکالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مختلف سٹیک ہولڈرز نے یہ راستہ دیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ لوگ عمران خان کی وجہ سے گھروں سے نکلتے ہیں، ہمارے کہنے پر کوئی نہیں نکلتا، اُس بیانیے کی وجہ سے جو گذشتہ عرصہ میں عمران خان کی جانب سے ترتیب دیا گیا’۔

مطیع اللہ خان (صدر پی ٹی آئی، بنوں) سے جب ہماری بات ہوئی تو یہ لانگ مارچ سے واپس بنوں کی جانب جارہے تھے۔

لانگ مارچ کے خاتمے سے متعلق اِن کا کہنا تھا ‘ہمارا لانگ مارچ کامیاب تھا، مگر تکلیف دِہ تھا۔ پی ٹی آئی کے ورکرز اس اعلان سے خوش ہیں۔’

لوگوں کو دوبارہ چھ دن بعد گھروں سے نکالنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا ‘عمران خان کا بیانیہ جو ابھی کچھ عرصہ سے ترتیب پایا ہے، وہ ورکرز کو گھروں سے باہر نکال رہا ہے۔اس بار جب نوجوان ورکرز گھروں سے نکل کر اسلام آباد کا رُخ کر رہے تھے، تو اُن کے والدین گھبرائے ہوئے تھے، اب جب سختی سہنے کا عملی تجربہ بھی ہو گیا تو اب بلاخوف نکلیں گے’۔

ادریس چیمہ (سابق صدر پی ٹی آئی، سمبڑیال)کا کہنا تھا ‘لانگ مارچ کے خاتمے کا فیصلہ خوش کن رہا۔ ہمارے اِن علاقوں سے جن میں سمبڑیال، سیالکوٹ وغیرہ سے لوگ بہت کم مارچ کا حصہ بنے ہیں۔ لیکن اس لانگ مارچ کا سب سے بڑا فائدہ پی ٹی آئی کو سیاسی سطح پر ہوا ہے، ہمارا ورکر متحرک ہوگیا ہے۔ پھر یہ دھرنا، پی ٹی آئی،حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈر ز کے مابین مذاکرات کا ماحول بھی بنا گیا’۔

اسلام آباد

چودھری سجاد وڑائچ (ضلعی کنوینر، آزادی مارچ، رحیم یار خان) جب اِن سے رابطہ کیا گیا تو یہ لانگ مارچ میں شرکت کرکے،واپس موٹر وے پر رحیم یار خان کی طرف رواں دواں تھے۔

مار چ کے خاتمے کے اعلان پر اِن کا کہنا تھا ‘جہاں بھی اور جس سے بھی مذاکرات ہوئے،اس بارے ہمیں کچھ علم نہیں، مگر عمران خان کی جانب سے یہ اچھا فیصلہ کیا گیا’۔

جب پوچھا گیا کہ لوگ کیوں نکلتے ہیں اور دوبارہ بھی نکلیں گےتو اِن کا کہنا تھا ‘لوگوں کو موجودہ حکمرانوں کی شکلیں پسند نہیں ہیں۔ یہ لوگ جن کو برگر فیملی کہتے تھے، وہ اب سیاسی طور پر متحرک ہوچکی ہے’۔

سیاسی تجزیہ کار لانگ مارچ کے خاتمے اور اس کے اثرات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مطابق ‘مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ججوں نے مل کر اِنھیں اچھا محفوظ راستہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے ‘مصالحتی کردار’ ادا کیا، جو اِن کی ڈومین ہی نہیں بنتی۔ اس چیز نے عمران خان کو موقع دیا اور اُس نے لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اگلے چھ دن میں بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جون جولائی میں اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی، ستمبر اکتوبر میں انتخابات کروا دیے جائیں گے۔ لانگ مارچ کا سارا ہنگامہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہوا ہے۔ اِن کے ورکرز سیاسی ورکرز نہیں بلکہ میچز دیکھنے کے شوقین ہیں۔ یہ ہر صورت اپنے کپتان کو کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر اِن کا لیڈر صدارتی نظام کا نعرہ لگا دے تو یہ بھی ہمنوا ہوجائیں گے۔‘

سیاسی تجزیہ نگار اور انتخابی اُمور پر گہری نظر رکھنے والے سرور باری کے نزدیک ‘اس لانگ مارچ کی تحریک، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت مختلف حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک منفرد تحریک ہے۔ جو تحریکیں ایوب، ضیا، مشرف اور پھر 2018 کے بعد عمران خان کے خلاف چلائی گئی، وہ سب کی سب سیاسی جماعتیں متحد ہو کر چلاتی تھیں۔ مگر عمران خان کی تحریک موجودہ حکومت اور متعدد سیاسی جماعتوں کے خلاف ہے۔ا س فرق کو سمجھنا ازحد ضروری ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments