آغاز سفر کی کچھ یادیں۔ اکہترویں سالگرہ کے موقع پر


انسانی زندگی میں اگرچہ اختیار و انتخاب کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن پھر بھی بہت کچھ اتفاقات و حوادث پر مبنی ہوتا ہے۔ مقام پیدائش اور خاندان کے انتخاب پر انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ جس خاندان اور ماحول میں بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے اثرات اس کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں، بالخصوص ہماری زبان اور مذہب موروثی اثرات کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ میں اس لحاظ سے بہت خوش قسمت رہا ہوں کہ مجھے اپنی زندگی میں تمام فیصلے، سوائے ایک فیصلے کے، اپنی مرضی سے کرنے کا موقع ملا لیکن اس کے باوجود میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ میری شخصیت کی اٹھان اور خارج از نصاب مطالعہ کی عادت خاندانی اثرات کا ہی نتیجہ ہے۔ اگر کسی بچے میں غیر نصابی مطالعہ کا شوق پیدا ہوتا ہے تو اس کا سبب خاندانی ماحول ہی ہوتا ہے۔ وہ کس قسم کی کتابیں پڑھتا ہے، ان کا زیادہ تر تعلق اولین دستیابی سے ہوتا ہے۔

میری پیدائش مئی کی 26 تاریخ کو سن 1951 میں گوجرہ شہر میں ہوئی تھی۔ سن 1954 میں زرعی زمین الاٹ ہونے پر ہم گاؤں منتقل ہو گئے تھے۔ گوجرہ کی دو یادیں میری یادداشت میں محفوظ ہیں لیکن گاؤں منتقل ہونے کا واقعہ مجھے یاد نہیں۔ گاؤں میں جس مکان میں ہماری رہائش تھی وہ ایک بڑا سا ہال نما کمرے تھا جس کے درمیان میں ایک ستون ہوتا تھا۔ دیواریں مٹی کی تھیں جن کی موٹائی کوئی پانچ فٹ کے قریب تھی۔ باہر لمبوترا سا صحن تھا۔

دادا جان کی گوجرہ میں برتنوں کی دکان تھی اس لیے وہ گاؤں منتقل نہیں ہوئے تھے۔ ہفتہ وار چھٹی پر گاؤں آتے تھے۔ اباجان بھی ایک سال بعد ہی رحیم یار خان چلے گئے اور وہاں میڈیکل سٹور کھولا تھا۔ سب سے بڑے ارشد بھائی بھی رحیم یار خان چلے گئے تھے۔ گھر میں دادی جان اور امی جان کے علاوہ دادی جان کے والد صاحب تھے جنھیں ہم میاں کہتے تھے۔

میاں کہا کرتے تھے کہ ان کی عمر سو سال سے اوپر ہے۔ ہمیں یقین نہیں آتا تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ انھوں نے پنجاب پر سکھوں کا راج دیکھا ہوا تھا۔ ایک دن امجد بھائی جان کی طرف، جن کی عمر اس وقت تقریباً نو سال ہوگی، اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اتنا سا تھا جب سکھوں کا راج ختم ہوا تھا۔

میاں کی عادات بہت دلچسپ تھیں۔ وہ جب گھر سے باہر نکلتے تو راستے میں ہر بچے بڑے سے ہاتھ ملاتے اور ہر عورت کے سر پر ہاتھ پھیرتے۔ اس کا نتیجہ تھا کہ بچے انھیں دیکھتے ہی شور مچاتے ہوئے ان کی طرف بھاگتے کہ بابا آیا، بابا آیا۔ میاں کسی پیر صاحب سے بیعت بھی تھے اور میرے خاندان میں کسی پیر کی بیعت کرنے والے وہ آخری فرد تھے۔ ایک بار پیر صاحب کے عرس پر گئے تو واپسی کے سفر میں ان کی جیب کٹ گئی۔ بڑی مشکلوں کے بعد گھر واپس پہنچے تھے۔ ایک بار دادا جان نے انھیں کہا، نماز پڑھا کریں۔ مجھے ٹھیک سے تو یاد نہیں لیکن میاں کا جواب کچھ اس طرح کا تھا کہ سلام کرنا ہی کافی ہے۔

میاں کی عمومی صحت بہت اچھی تھی۔ بس وفات سے ایک دو دن پہلے ان کی طبیعت کچھ خراب ہوئی۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ سردیوں کا موسم تھا۔ شاید دسمبر کا مہینہ تھا۔ میں اس وقت پہلی جماعت میں تھا۔ دادی جان سکول سے کبھی چھٹی نہیں کرنے دیتی تھیں۔ اس روز بھی مجھے سکول بھیج دیا گیا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ میرے ہم جماعت حبیب نے آ کر مجھے بتایا تمھارا میاں فوت ہو گیا ہے۔ میں نے بستہ اٹھایا اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ میری ہوش میں خاندان میں ہونے والی یہ پہلی موت تھی اور میں اس وقت بہت رویا تھا۔

گاؤں کے جس ماحول میں شعور کی آنکھ کھولی، اس میں بظاہر کتاب سے تعلق پیدا ہونے کے اسباب ناپید تھے۔ میں اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ گھر میں مطالعے کا رجحان پایا جاتا تھا۔ اس وقت مالی حالات میں شاید تنگی تو نہیں تھی، لیکن فراخی بھی نہیں تھی میری امی جان رسالہ حور منگواتی تھیں۔ گھر کا کام کاج بہت ہوتا تھا لیکن وہ پڑھنے کا کچھ وقت ضرور نکال لیا کرتی تھیں۔

بچپن میں امی جان رات کے وقت سونے سے پہلے ہمیں کہانیاں سنایا کرتی تھیں جن میں زیادہ تر تاریخ اسلام کے واقعات ہوتے تھے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ انھوں نے کبھی جنوں اور پریوں کی کہانیاں سنائی ہوں۔ جب ذرا بڑے ہوئے تو رات کو کہانی سنانے کے جواب میں امی جان نے کہا اب تم بڑے ہو گئے ہو اس لیے خود پڑھا کرو۔

مسئلہ یہ تھا کہ میرے خاندان کو مہاجرت کے معاملات سے نمٹنے میں کئی سال لگ گئے تھے اور اب کوئی سات برس بعد گاؤں میں سیٹل ہوئے تھے۔ چنانچہ اس وقت گھر میں بچوں کے پڑھنے والی کوئی کتاب میسر نہیں تھی۔ پتہ نہیں کیوں رسالہ حور پڑھنے پر طبیعت کبھی کم ہی آمادہ ہوئی۔ بچوں کی کوئی کتاب یا رسالہ، مثلاً بچوں کی دنیا کا کوئی شمارہ، ہاتھ لگ جاتا تو ننھے میاں کے کارنامے بہت شوق سے پڑھتا۔ گوجرہ میں خالہ جان کے گھر جانے کا موقع ملتا تو وہاں الماری سے نکال کر بچوں کی دنیا کے پرانے شمارے پڑھا کرتا۔ اس زمانے کی کہانیوں میں بادشاہ، جادو گر، جن اور پری وغیرہ ضرور ہوتے تھے۔

جب میں تیسری جماعت میں ہوا تو دادا جان بھی دکان بند کرکے گاؤں منتقل ہو گئے۔ دادا جان اخبار کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ اس زمانے میں گاؤں میں اخبار کا حصول بہت مشکل تھا۔ اس کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ نوائے وقت اخبار کا سالانہ چندہ جمع کرا دیتے تھے اور اخبار ڈاک میں آتا تھا جو ایک دن کی تاخیر سے پہنچتا تھا۔ اخبار سکول میں آتا تھا اور چھٹی کے وقت میں اسے گھر لاتا تھا۔ دیکھا دیکھی اخبار کا مطالعہ شروع کر دیا۔

تیسری جماعت میں ہی تھا جب دادا جان اور بڑے بھائی کو دیکھتا کہ وہ کسی موٹی سی کتاب کو صبح سے لے کر شام تک پڑھتے رہتے تھے۔ مجھے اس پر بڑی حیرت ہوتی۔ ایک روز میں نے نسیم حجازی کا ناول “داستان مجاہد” اٹھایا۔ اس کو کھولا اور کسی درمیانی باب سے پڑھنا شروع کر دیا۔ بھائی جان نے دیکھا تو مجھ سے پوچھا، یہ کیا کر رہے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ کتاب پڑھ رہا ہوں۔ انھوں نے کہا یہ کتاب شروع سے پڑھی جاتی ہے۔ اب مجھے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کسی کتاب کو شروع سے آخر تک ترتیب سے پڑھنا ہوتا ہے۔ میں تو بچوں کی دنیا وغیرہ پڑھنے کا عادی تھا۔ جس کہانی کو دل چاہا پہلے پڑھ لیا اور جس کو دل چاہا بعد میں۔ بہرحال میں نے وہ ناول درمیان سے آخر تک پڑھا، مجھے اچھا لگا تو سوچا کہ اس کو شروع سے بھی پڑھنا چاہیے۔ اسی جماعت میں ایم اسلم کا ایک ناول بھی پڑھا جس کا نہ نام یاد ہے نہ کوئی اور بات۔ بس اتنا یاد ہے کہ اس میں ایک فقیر بار بار آتا تھا جو نظیر اکبر آبادی کی نظم گاتا تھا جس کا یہ مصرع مجھے کبھی نہیں بھولا: پیسہ نہ ہو تو آدمی چرخے کی مال ہے۔

اس وقت گھر میں بانگ درا کے علاوہ بس ایک دو اور کتابیں تھیں۔ بانگ درا کے بہت سے اشعار امی جان سے سنے تو اسے بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ مطالعے کا شوق تو پیدا ہو چکا تھا لیکن کتابیں اور رسالے بہت کم میسر آتے تھے۔ گاؤں میں رہنے کی وجہ سے آنہ لائبریری کی سہولت بھی میسر نہ تھی۔ اس شوق اور قلت نے میرے اندر اس وقت دو عادتوں کو راسخ کیا۔ پہلی یہ کہ جو بھی میسر آئے اسے پڑھ ڈالو اور دوسری یہ عادت کہ جو پسند آ جائے اسے بار بار پڑھنا۔

میں چوتھی یا پانچویں جماعت میں تھا جب بھائی جان نے اردو ڈائجسٹ منگوانا شروع کر دیا۔ چنانچہ جب رسالہ آتا تو سب سے پہلے اس میں شکاریات پڑھتا۔ جنگ عظیم کی فرار کی کہانیاں بھی بہت دلچسپ ہوتی تھیں۔ آٹھویں جماعت تک میرا مطالعہ زیادہ تر نوائے وقت، اردو ڈائجسٹ اور نسیم حجازی تک ہی محدود رہا۔ دیگر کتابوں میں بال جبریل تھی جو چھٹی جماعت میں میری فرمائش پر ماموں جان سے مجھے بطور تحفہ ملی تھی۔ اس زمانے میں مکبتہ جدید والوں نے میری لائبریری کے نام سے پیپربیک کتابوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بھائی جان نے کوئی دس کتابیں منگوائی تھیں۔ ان میں زیادہ تر تو اسلامی تاریخ سے متعلق تھیں۔ ایک مولانا ابوالکلام آزاد کی تذکرہ تھی۔ ایک ترکی ناول کا ترجمہ تھا سلطانی محلوں کے راز کے عنوان سے۔

بچپن کی سکول جانے سے پہلے کی ایک یاد ہے جسے ایک وجہ سے اسے لکھنے کو جی چاہ رہا ہے۔ اس وقت تک میں نے کبھی کوئی مکان بنتے نہیں دیکھا تھا۔ چنانچہ میرا خیال تھا کہ چھت پہلے ڈالی جاتی ہے اور دیواریں بعد میں اٹھائی جاتی ہیں۔ میں چھت کے نیچے لیٹا یہ سوچا کرتا تھا کہ دیواروں کے بغیر چھت کس طرح قائم رہتی ہو گی۔ چند برس بعد اس ہال کے باہر برآمدہ اور ایک کمرہ بنایا گیا۔ تب مجھے پتہ چلا کہ دیواریں پہلے بنائی جاتی ہیں۔

اب کوئی اسے میری بچپن کی سادگی کہے گا کوئی معصومیت۔ کسی کے نزدیک یہ حماقت کے ضمن میں آئے گی۔ لیکن اس عمر میں سوچتا ہوں کہ میری سوچ شاید اتنی غلط نہیں تھی۔ جب میری عمر پچاس برس سے اوپر ہو چکی تھی تو اس ملک خدا بخش میں ہائر ایجوکیشن کمشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ اس ادارے نے ایک تعلیمی پالیسی کا اجرا کیا۔ اس پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ سے کہا تھا کہ یہ دیواروں کے بغیر چھت ڈالنے کا تجربہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں پالیسیاں بنانے والے اتنے ہی عقل مند ہیں جتنا میں سکول جانے کی عمر سے پہلے تھا۔

ساجد علی – 1967


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).