پاکستان معاشی بحران کی طرف گامزن


پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے جو گزشتہ ادوار کے مقابلہ میں نہ صرف شدید ترین بلکہ اپنی انتہا پر ہے۔ یہ حالت گزشتہ ادوار کی ہی نا عاقبت اندیشیوں کا منتج ہے۔

بحران کی اس سنگینی کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ وہ ملک جو 25 سال سے زائد عرصہ سے تکنیکی اعتبار سے دیوالیہ ہے اور اب حقیقتاً دیوالیہ ہونے کے کگر پر کھڑا ہے کہ اگر بیرونی امداد نہ ملے تو اسے دیوالیہ ہونے میں زیادہ سے زیادہ دو ماہ لگیں، وہ اب بھی اس بارے میں سنجیدہ فکری کی جانب مائل نہیں۔ ہر بار حکومت وقت کا آئی ایم ایف سے ملنے والا قلیل مدتی قرضہ اور اس کے بعد دیگر ذرائع سے مزید مالی تعاون حاصل کر کے پھر اسی مستی میں مست ہوجانا اس کی دلیل ہے۔ ہر حکومت کا واحد ہدف محض کام چلانا ہے جس سے حالات مزید تباہی کی طرف تیزی سے جا رہے ہیں اور اب مزید گنجائش باقی نہیں۔

اس وقت معیشت کو جن فوری اقدامات کی ضرورت ہے ان میں دو کام سب سے مقدم ہیں ؛ اول زرمبادلہ کی بیرون ملک ترسیل کو آمدن کے مقابلہ میں کم ترین سطح پر لانا دوئم حکومت کے غیر ضروری اخراجات کو ختم کرنا

زرمبادلہ کو آمدن کے مقابلہ میں کم ترین سطح پر لانے کے لیے فی الفور زیادہ سے زیادہ اشیا کی درآمدات روکنا لازمی ہے ورنہ حالات کبھی قابو میں نہ ہو سکیں گے۔ پاکستان سالانہ اربوں ڈالر کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات پر لگا دیتا ہے جس میں بڑا حصہ خوردنی تیل، گندم اور چائے کا ہے۔ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ چائے درآمد کرنے والا ملک ہے جس کا حصہ چائے کی عالمی درآمد میں % 9 ہے۔ دوسری طرف کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات میں ہر سال بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے جو اوسطا % 50 کے لگ بھگ ہے، طرفہ تماشا یہ کہ یہ ایک زرعی ملک ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فہرست میں شامل اشیا کی ملکی سطح پر پیداوار کو فروغ دیا جائے جو حقیقی اور نتیجہ خیز ہو۔ اگر پوری سنجیدگی سے حکومتی سرپرستی میں اس پر کام کیا گیا تو نہ صرف قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی بلکہ معیار اور مقدار بڑھنے سے ان کو برآمد کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ زمینی حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ اشیا جو یہاں وافر تھیں وہ بھی قلت کا شکار ہیں اور اب انہیں بھی درآمد کرنا پڑ جاتا ہے۔ زرمبادلہ بچانے کے لیے مزید یہ کہ ڈالر کی وہ تمام ترسیلات غیر معینہ مدت تک روکنا لازمی ہے جن کا ملکی معیشت میں براہ راست کردار نہیں جیسے فاریکس ٹریڈنگ، کرپٹو کرپٹو کرنسی اور غیر ضروری استعمال کے لیے بیرون ملک کی جانے والی ترسیلات وغیرہ۔

دوسرا کام حکومت کے غیر ضروری اخراجات کا خاتمہ ہے جس میں حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات جن میں حکومتی مراعات، فوج کے غیر جنگی اخراجات اور بلاوجہ کے انتظامی اخراجات سرفہرست ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے غیر ترقیاتی اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چوتھائی حصہ کے مساوی ہوچکے ہیں جو معیشت پر بلا ضرورت بہت بڑا بوجھ ہیں۔ حکومتی اہلکاروں، سرکاری اور فوج کے افسران کو ملنے والی مراعات اور سہولیات کا بوجھ یہ معیشت اب اٹھانے کے قابل نہیں۔

سرکاری گاڑیاں اور ان کے کثیر اخراجات، سرکاری خرچ پر پر آسائش رہائشی سہولیات، فوج کے افسران کو محض تعمیراتی خرچ پر مہنگے ترین علاقوں میں پر آسائش ملکیتی رہائش گاہیں فراہم کرنا، 60 سال سے کم عمر فوج کے افسران کی ملازمت سے ازخود سبکدوشی یا رٹائرمنٹ پر پینشن اور دیگر سہولیات کی تاحیات فراہمی جبکہ یہ افراد دوسری ملازمت یا کاروبار کے قابل ہوتے ہی اور کر بھی رہے ہوتے ہیں، لاحاصل غیرملکی سرکاری دورے اور دیگر بے شمار ایسی چیزیں ہیں جن کا خاتمہ یا کم ترین سطح پر لانا لازمی ہو گیا ہے۔

سرکاری اداروں میں سیاسی بھرتیوں کے غیر قانونی کام کو بند کیا جانا، غیر ضروری اور اچھی کارکردگی نہ ہونے کے حامل ملازمین کو فارغ کیا جانا، علاقائی کوٹہ کا خاتمہ کیا جانا وغیرہ وہ اہم اقدامات ہیں جن کو اگر سیاسی یا کسی بھی نام نہاد مصلحت کے تحت نہ اٹھایا گیا تو کسی کو تنخواہ یا دینے کے لیے کچھ نہ ہو گا۔ اسی سلسلہ میں گردشی قرضے کو ختم کرنا اور دوبارہ پیدا نہ ہونے کے لیے جامع حکمت عملی وضع کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ متبادل ذرائع توانائی کا فروغ گردشی قرضوں سے نمٹنے میں معاون ہو گا۔

یاد رہے کہ جنوبی کوریا، ملائشیا ، سنگاپور، تائیوان، تھائی لینڈ، بھارت، برازیل، فلپائن، ویت نام اور اب بنگلہ دیش وہ ممالک تھے جن کی معاشی حالت کبھی خستہ حالی کا شکار تھی لیکن انہوں نے جامع حکمت عملی اپنائے رکھی اور مسلسل محنت نے انہیں زبوں حالی سے نکال کر ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔ اب تک جو کچھ ”ترقی“ کے نام پر ہوتا رہا ہے یہ اسی کی بھگتان ہے جو آج ہم بھگت رہے ہیں، اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو خاکم بہ دہن شاید ملک کو قائم رکھنا ہی ناممکن ہو جائے۔ غالب اس کیفیت کو کیا خوب بیان کر گئے ؛

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments