غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ


مختلف نظریات اور ان سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ایک عمر گزار کر ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا کہ کسی نظریے، مسلک، مذہب یا فکری روش سے وابستگی کا لازمی اور براہ راست تعلق فرد کے علم سے نہیں ہوتا۔ یعنی یہ نہیں ہوتا کہ آپ فلسفہ پڑھتے ہیں تو ضرور ہی عالم ہوں گے۔ یا خدا کو نہیں مانتے تو دراصل بہت کچھ جاننے کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ یا غامدی صاحب کے معتقد ہیں تو اسے آپ کی دانائی کا ثبوت سمجھنا چاہیے۔ نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔

واقعہ یہ ہے کہ نظریات و عقائد کے ساتھ عالم اور جاہل ہر دو طرح کے لوگ وابستہ ہوتے ہیں۔ عالم کم اور جاہل زیادہ۔ پھر جب آپ دیکھیں کہ کوئی نظریہ یا مذہب مقبول ہو رہا ہے تو اغلب ہے کہ جہلا کی تعداد اور شرح اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ اس کی وجہ محض اس قدر ہے کہ اہل علم دنیا میں پائے ہی بہت کم جاتے ہیں۔ اور دراصل یہی لوگ ہوتے ہیں جو مختلف افکار و نظریات کی بنا ڈالتے ہیں۔ لہٰذا ہر فکری یا مذہبی روایت کے پیچھے تو ضرور کوئی نہ کوئی بڑا دماغ موجود ہوتا ہے مگر پیروکار زیادہ تر عوام میں سے آتے ہیں۔ اس لیے وہ کسی بھی عالم کے پیچھے ہوں، ہوتے عموماً جاہل ہی ہیں۔ پس کسی بڑے عالم کا مقتدی یا کسی مفید نظریے کا قائل ہونے کا مطلب یہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ماننے والا خود بھی ضرور ہی صاحب علم یا ذی شعور ہو گا۔

یہ بات کہنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ ایک دو روز میں کئی بار ایک مراسلہ نظر سے گزرا۔ اس میں اہل اسلام کی تین بڑی زبانوں یعنی عربی، فارسی اور اردو کی بھد اڑائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ان تینوں میں سائنس کے لیے کوئی لفظ نہیں پایا جاتا۔ بین السطور نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ عربی، فارسی اور اردو بولنے والے سائنس کے حوالے سے نرے بدھو ہیں۔ ہم اس منطق کے باب میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ اسے انگریزی پر چسپاں کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ چونکہ انگریزی زبان میں چچا، ماموں، خالو اور پھوپھا کے لیے کوئی الگ لفظ نہیں پایا جاتا اس لیے انگریزوں کے چچا، ماموں، پھوپھا اور خالو ایک ہی ہوتے ہیں۔

ایسے دلائل عموماً ان لوگوں کی جانب سے سامنے آتے ہیں جو مغربی تعلیم کے اسیر اور دلدادہ ہیں مگر آدھے تیتر آدھے بٹیر کے موافق ذرا خام رہ گئے ہیں۔ عام لوگ انھیں پڑھا لکھا اور دانا خیال کرتے ہیں اور ان کا رعب مانتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ علم اور عقل کا تعلق کسی نظریے یا روایت سے نہیں ہو سکتا۔ اہل مغرب نے بلاشبہ ایک مضبوط علمی و فکری روایت کو جنم دیا ہے اور اس کے عملی ثمرات سے اس کے ماننے والے اور نہ ماننے والے یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں۔ مگر ہر وہ شخص جو مغربی فکر کا قائل اور مشرقی نظریات کا ناقد ہو، صاحب علم نہیں ہوتا۔ بلکہ جیسا ہم نے پہلے عرض کیا، اکثریت تقریباً ہمیشہ نادان اور ہیچ مدان پیروکاروں کی ہوتی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ سائنس کا لفظ لاطینی سے مستعار ہے اور مادے کی رو سے اس کے معانی جاننے کے ہیں۔ انگریزی میں یہ لفظ لاطینی سے اسی طرح آیا ہے جیسے عربی سے اردو میں علم کا لفظ آیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اہل انگریزی نے چند صدیاں پیشتر اسے عام طور پر برتنے کی بجائے ایک اصطلاح کی شکل دی اور اس سے مراد وہ خاص علم لینے لگے جو سائنسی طریق کار کے مروج اصولوں پر پورا اترتا ہو۔ ہمارے ہاں بھی لفظ علم یا اس کے کسی مشتق کو اسی طرح اصطلاحی صورت دے کر اس کے معانی محدود اور خاص کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ایک اور طرفہ لطیفہ یہ ہے کہ اردو میں اس قسم کی اصطلاح سازی کے سب سے بڑے ناقد بھی یہی لوگ ہیں جو ہماری زبانوں میں ”سائنس“ نہ ہونے پر واویلا کر رہے ہیں۔

ہمارا دعویٰ یہ نہیں کہ اردو، فارسی اور عربی بولنے والے اعلیٰ درجے کا سائنسی شعور رکھتے ہیں۔ اس میدان میں اہل مغرب بے شک گوئے سبقت لے گئے ہیں اور مشرقیوں کو ان کی عظمت کا ضرور اعتراف کرنا چاہیے۔ ہم صرف اس قدر کہنا چاہتے ہیں کہ صحیح بات کی صحیح دلیل دینا بھی صحیح الدماغ لوگوں کا کام ہے۔ عام آدمی بقدر فہم صحیح باتوں کی اتباع تو کر سکتا ہے مگر ان کی صحت کو کماحقہ ثابت کرنا اس کے بس سے باہر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان معروضات سے ہمیں روشن خیال دوستوں کی دل آزاری بھی منظور نہیں۔

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے مذہبی اور معاشرتی زوال پر ان کا نقد من حیث المجموع نہایت مفید اور وقیع ہے۔ لیکن حماقت عقل والوں سے بھی ہو سکتی ہے اور جہل علم والوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا غیر معقول اور غیر منطقی رویوں کا رد ضرور ہونا چاہیے خواہ روئے سخن انھی کی طرف کیوں نہ کرنا پڑے جو عقل اور منطق کے علم بردار ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments