پنجاب کی پگ


گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی ملک میں سیاسی گرما گرمی کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔ جو ابھی بھی عروج پر ہے۔ اس گرمی کے ساتھ سیاسی گرمی بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کے نشتر چلانے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اب لگتا ہے موسم ٹھنڈا ہو یا گرم، جب تک نئے الیکشن کا اعلان نہیں ہو جاتا، تب تک ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔

وفاق اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب اس وقت سیاسی اور آئینی بحران کا شکار ہے۔ شہر اقتدار میں، جہاں اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ وہی ساتھ پنجاب میں بھی وزارت اعلی کی جنگ عروج پر ہے۔ جیسے تیسے بھی آخر کار حمزہ شہباز نے وزارت اعلی کا حلف تو اٹھا لیا تھا۔ لیکن حمزہ شہباز پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے ووٹ سے کامیاب ہوئے تھے۔ حمزہ شہباز کو حلف اٹھائے پانچ ہفتے ہی ہوئے تھے۔ کہ وفاق کی طرح پنجاب حکومت بھی جو مختلف کندھوں کے رحم وکرم سے بنی تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیتے اور آئین 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے جو فیصلہ دیا ہے اس کے بعد پنجاب حکومت دھڑام سے گر گئی ہے۔ عدالت عالیہ کے اس فیصلے نے جہاں وفاقی حکومت کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ہے وہی حمزہ شہباز اپنی کابینہ کو فائنل کرنے سے پہلے ہی اب آئینی اور قانونی طور پر اپنی وزارت عظمی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

گورنر پنجاب کے حوالے سے دیکھا جائے تو ابھی تک عجیب سی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ پانچ ہفتے صوبہ پنجاب، گورنر اور کابینہ کے بغیر چلتا رہا۔ حکومت پنجاب گورنر کو ہٹانے کے درپے رہی، لیکن صدر پاکستان گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو اپنے عہدے پر کام سر انجام دینے کا حکم دیتے رہیں۔ یوں ملک پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ لاوارث اور بے یار و مددگار رہا، لیکن واہ مجال ہے کسی کے سر پہ جوں تک رینگی ہو۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا، کسی شرمندگی سے کم نہیں۔ اسمبلی کے اندر گالم گلوچ سے لے کر مکے، ٹھوکروں، تھپڑوں تک جا بات پہنچی، وزیراعلی کے امیدوار اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالہی زخمی بھی ہوئے۔ لیکن یہ اقتدار ایسی چیز ہے کہ ملک و قوم اور عزت و لحاظ اس کے آگے کوئی معنی نہیں رکھتے۔

سابق وزیراعلی عثمان بزدار کے استعفی کے بعد پنجاب سیاسی اور آئینی بحران کا شکار ہو چکا تھا۔ اور یہ بحران ہے کہ ابھی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، اور نہ یہ ہمارے جمہوریت پسند چاہتے ہیں کہ یہ بحران ملک سے ختم ہو۔ حمزہ شہباز کے وزیراعلی بننے کے بعد ، اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالہی نے پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن کو جو ریفرینس بھیج رکھا تھا۔ الیکشن کمیشن نے تین رکنی بینچ کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے، پاکستان تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کر دیا۔ اب ظاہر ہے عدالت کے حکم سے پنجاب میں دوبارہ ووٹنگ ہوگی، اب یہ تو وقت ہی طے کرے گا کہ پنجاب کا وزیراعلی کون ہو گا؟

اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت اس وقت کہاں کھڑی ہے۔ بھوک ننگ ملک میں گوڈے گوڈے چڑھی ہوئی ہے۔ عام آدمی اس وقت پریشانی کا شکار ہے۔ ان حکمرانوں نے حالات جس نہج تک پہنچا دیے ہیں۔ شاید اس کو سنبھالنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا۔ عدم اعتماد لانے، اور اس کا ساتھ دینے والے اس وقت پریشانی کا شکار ہیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اب ہر روز کسی کے گھر پہنچے ہوتے ہیں، تو کبھی اپوزیشن کو عشائیہ پر مدعو کیا ہوتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ کہ شہباز شریف خود کوئی بھی فیصلہ کرنے سے محروم ہیں۔ شہباز شریف اور زرداری صاحب کہے رہے تھے کہ حالات کنٹرول سے باہر ہیں۔ عمران خان نے معیشت کا برا حال کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو پتا تھا کہ حالات خراب ہیں۔ معیشت کا برا حال ہے۔ جب عام انتخاب میں ڈیڑھ سال ہی رہتا تھا، تو آپ کو عدم اعتماد کا پنگا لینے کی ضرورت کیا تھی۔ اور اب جب یہ پنگا لے ہی لیا ہے تو اس کا مقابلہ کرے، اپوزیشن میں ہوتے ہوئے تو آپ سابق حکومت کو افلاطون اور ارسطو بن کے ون پونے مشورے دیا کرتے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ مخالفین کا شیر سے پنجاب چھیننے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ حالانکہ پنجاب پچھلے 30 سالوں سے (ن) لیگ کے ہتھے چڑھا ہوا تھا۔ اور اس شیر نے جو تباہی پنجاب میں پھیری ہے۔ وہ کسی سے کوئی ڈھکی، چھپی نہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ پنجاب کی ”پگ“ کس کے سر سجتی ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا تھا کہ اب موسم گرم ہو یا ٹھنڈا، ملک اب عام انتخابات تک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments