پتر اینھاں چوں کسے وی نئیں ہونا


کافی دیر کے بعد آنے والی بس مسافروں سے کھچ کھچ بھری ہوئی تھی۔ مجھے پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی، میں مزید انتظار کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ مجھے ہائی وے پولیس میں بھرتی کا انٹرویو دینے کے لیے بر وقت پہنچنا تھا، لہذا میں اسی بس میں سوار ہوگیا۔ بس میں نا صرف تمام سیٹس پہ سواریاں براجمان تھیں بلکہ درمیانی راہداری میں بھی بہت سے مردو زن مسافر کھڑے تھے۔ ایسے میں پانچ، چھے نوجوانوں کا ایک گروپ بس میں سوار ہوا، و تمام شکل و شباہت سے کسی کالج کے طلباء معلوم ہو رہے تھے۔ انھوں نے بس میں داخل ہوتے ہی اکٹھے کھڑے ہونے کے لیے تگ و دو شروع کر دی جس سے راہداری میں کھڑے مسافروں کو کافی دقت ہوئی۔ بہر حال وہ ایک جگہ اکٹھے ہو کر کھڑے ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ میرا یہ گمان کہ یہ نوجوان بھی انٹرویو کے لیے ہی جارہے ہیں، تھوڑی ہی دیر میں ان کی باتوں کی وجہ سے یقین میں بدل گیا، وہ سب بھی واقعی انٹرویو کے لیے ہی جا رہے تھے۔
حد سے زیادہ رش اور گرمی نے مسافروں کے اعصاب معطل کر رکھے تھے۔ بس کے عملہ پر مسافروں کے دباؤ کا نتیجہ تھا جس نے بس کو سٹاپ پہ زیادہ دیر ٹھہرنے نہ دیا، یہ سواریوں کو اٹھاتے ہیں ہی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔ بس کا آخری سٹاپ تو تین گھنٹے کی دوری پہ تھا مگر ہماری منزل مقصود محض تیس چالیس منٹ کی مسافت پہ تھی، جہاں ضلعی پولیس ہیڈ کوارٹر میں ہمارا انٹرویو تھا۔ انٹرویو سے متعلق ذہن میں اٹھنے والے مسلسل خیالات نے میرے ہونٹوں پہ چپ کی مہر ثبت کر دی تھی اور میں ایک عجیب سے دباؤ میں مبتلا ہوکر ایک سیٹ سے ٹیک لگا کر چُپکا کھڑا تھا۔
مگر میرے ساتھ بس میں سوار ہونے والا طلباء کا ٹولہ مسلسل بے تکی گفتگو میں مشغول تھا۔ وہ ایک دوسرے پر ذومعنی اور بازاری قسم کے جملے کس رہے تھے، جس کی وجہ سے شریف مسافر پریشان ہورہے تھے۔ مگر انھیں کسی کی پرواہ نہیں تھی، وہ مرد و زن اور بچوں کی موجودگی سے بے خبر اوچھی اور بے کار قسم کی گفتگو میں مصروف تھے۔ میں خود بھی ان کی ایسی بے ہنگام باتوں سے زچ سا ہو رہا تھا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اپنے منہ سے کوئی کام کی بات نکال رہا ہو، بس لچر قسم کی جملے بازی، ہاہاکار اور اندھا دھند قہقہے۔ جب ان کی اوٹ پٹانگ گفتگو کسی طور رک نہ پائی تو ایک مسافر کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، اس نے انھیں خاموش رہنے یا کم از کم گفتگو میں احتیاط برتنے کی تلقین کی مگر اس پر بھی ان کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی، وہ مسلسل انٹ شنٹ بولنے میں مصروف رہے۔ ایسے میں، میں نے چند مسافروں کو زیر لب ان نوجوانوں کے والدین اور اساتذہ کی شان میں مہمل سے جملے بولتے سنا۔ میں اس جتھے سے ذرا دور چپکا کھڑا ہوکر یہ تماشا دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کارنامے کوئی کرتا ہے اور شاباش کسے ملتی ہے۔
ایسے میں بس کا کنڈیکٹر کرایہ وصول کرتا ہوا اس گروپ تک آگیا، مگر انھوں نے کرایہ ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ بقول ان کے وہ سٹوڈنٹس تھے۔ بس کا کنڈیکٹر مصر تھا کہ اسے کرایہ دیا جائے کیونکہ اتنے زیادہ لوگوں کو 50 کلومیٹر کا سفر بنا کرایے کے وہ کیسے کرائے، مگر وہ کرایہ دینے سے صاف انکاری تھے۔ بات توتکار سے ہوتی ہوئی گالی گلوچ تک جا پہنچی، عین ممکن تھا کہ مار کٹائی شروع ہو جاتی، کچھ مسافروں نے بروقت بیچ بچاؤ کروا کے کنڈیکٹر کو اس گروہ سے علیحدہ کر دیا۔
کچھ دیر میں بس ہمیں منزل مقصود پہ لے آئی اور طلباء کا وہ گروہ بس کے پچھلے گیٹ سے نیچے اترنے لگا۔ مجھے ڈر تھا کہ حواس باختہ نوجوانوں کا یہ گروہ کنڈیکٹر پہ حملہ آور نہ ہو جائے، مگر کنڈیکٹر سمجھدار تھا، وہ اگلے گیٹ کے قریب دبک سا گیا۔ شاید وہ ان کے سامنے آتا تو حملے کا ماحول بن سکتا تھا، مگر خوش قسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ جب میں بس سے نیچے اترنے لگا تو اسی کنڈیکٹر نے مجھ سے سوال کیا کہ آج وہاں اتنا رش کس بات کا ہے۔ میں نے بتایا کہ آج ہائی وے پولیس میں بھرتی کے لیے انٹرویو ہیں۔ یہ بات سن کر کنڈیکٹر نے عجیب جملہ بولا “پتر اینھاں چوں کسے وی نئیں ہونا، توں ہو جانا ایں”
(ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوگا، تو ہوجائیگا) یہ بات کرتے ہوئے اس کے لہجے میں بلا کا یقین تھا۔
سلیکشن کے بعد میری نگاہوں نے بہت ڈھونڈا مگر مجھے ان میں سے ایک بھی نہیں ملا، ایک بھی نہیں۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments