ہم کس کس کا استحصال کر رہے ہیں؟


کل ایک جاننے والے کہنے لگے اللہ کا بہت کرم ہے ہم نے کبھی کسی کا استحصال نہیں کیا۔ کچھ ہی دیر میں شہر میں بڑھتی ہوئی دھول مٹی کا ذکر ہونے لگا تو بڑے فخر سے بتانے لگے کہ میں تو اپنی گاڑی روز دھلواتا ہوں۔ ان کے جانے کے بعد ایک ٹاک شو نظروں سے گزرا جہاں اینکر پرسن تھر اور بلوچستان میں پانی کی کمی، پچھلی حکومت کی نا اہلی اور دیہاڑی دار طبقے کے استحصال کی بات کر رہا تھا۔ اس ساری بات نے مجھے سوچنے پہ مجبور کیا کہ دراصل حق اور استحصال ہے کیا؟ ہم سب اپنی زندگی میں بیسیوں بار یہ جملہ بول چکے کہ ہم نے کبھی کسی کا حق نہیں کھایا یا ہم نے کبھی دوسروں کا استحصال نہیں کیا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم سب دوسروں کے حق کھانے اور ان کا جسمانی اور معاشی استحصال کرنے میں ملوث ہیں۔

اگر آپ کے روز گاڑی اور گھر دھونے کے شوق کے نتیجے میں تھر اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں لوگ جوہڑ کا پانی پی رہے ہیں تو آپ دوسروں کا استحصال کر رہے ہیں۔ اگر جنوبی پنجاب کے دیہات میں ایک پنکھا چلانے کے لیے بجلی نہیں اور آپ کے گھر کے باہر سجاوٹ کے لیے روزانہ رات کو دس سے بیس لائٹس، ضرورت سے زائد پنکھے، اے سی اور بلب جلتے ہیں تو آپ دوسروں کا حق کھا رہے ہیں۔

اگر آپ ایک محلے میں رہتے ہیں اور آپ کی پراپرٹی کی حدود سے چند فٹ باہر نکلتا دروازہ یا تھڑا گلی میں سے گزرنے والے لوگوں کے لیے مشکل پیدا کر رہا تو آپ اپنے محلے والوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ اگر آپ کی دکان کا سامان آپ کی دکان کی حدود سے باہر فٹ پاتھ پہ سجا ہوا ہے جو پیدل چلنے والوں کے لیے مشکل پیدا کر رہا ہے تو آپ دراصل پیدل چلنے والوں کا حق کھا رہے ہیں۔

اگر آپ نے اپنے ملازمین (خواہ وہ سیلزمین ہوں، مزدور، گارڈ، مالی، صفائی والی یا کوئی اور) کو موسم کی شدت کے مطابق سہولیات فراہم نہیں کیں یا ان کے اوقات کار میں کوئی تبدیلی نہیں لائی تو آپ ان کا استحصال کر رہے ہیں۔

اگر آپ کی الماری میں ضرورت سے زائد کپڑے ہیں اور آپ روزانہ اپنی ضرورت سے زیادہ کھا کر سوتے ہیں اور آپ کے رشتے داروں، ہمسائیوں اور ملازموں میں سے کوئی بھوکا سو رہا ہے تو آپ اس کے حصے کا رزق کھا رہے ہیں۔ کیوں کہ اللہ نے آپ کے رزق میں اس کا حصہ رکھا تھا جو آپ کے وسیلے سے اسے ملنا تھا۔

اگر آپ شادی بیاہ جیسی تقریبات میں اپنی طلب سے زیادہ کھانا اپنی پلیٹ میں بھرتے ہیں اور پھر پلیٹ میں بچا دیتے تو آپ ہر اس شخص کا استحصال کر رہے جس کا پیٹ اس کھانے سے بھر سکتا تھا۔

اگر آپ نے بحیثیت ماں باپ اپنی اولاد میں کسی طرح کا فرق کیا ہے، بیٹوں کو بیٹیوں پہ فوقیت دی ہے یا بیٹیوں کو بیٹوں پر، آپ نے ان کی زندگی کے کسی بھی فیصلے خواہ تعلیم ہو یا شادی کے لیے ان کی پسند کو مقدم نہیں جانا یا پھر وراثت کی منصفانہ تقسیم نہیں کی تو آپ نے اپنی اولاد کا استحصال کیا ہے۔

اگر بحیثیت صحت مند اور بالغ اولاد آپ اپنی ضروریات زندگی اور اخراجات کے لیے اپنے والدین پر انحصار کرتے ہیں تو آپ اپنے والدین کے استحصال میں ملوث ہیں۔ اگر بحیثیت بھائی آپ نے اپنے والدین کی وراثت میں سے اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیا یا ان سے امید رکھی کہ وہ اسے آپ کے لیے چھوڑ دیں یا زندگی کے کسی بھی موڑ پر بحیثیت قوام آپ ان کے کفیل نہیں بنے تو آپ نے اپنی بہنوں کا حق کھایا۔

اگر بحیثیت بیٹی آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ اپنے والدین کا بڑھاپے میں خیال رکھنا، ان کو جذباتی اور اخلاقی طور پہ سہارا دینا آپ کے بھائیوں کے ساتھ ساتھ آپ کی ذمہ داری بھی ہے اور اگر آپ اپنی کمائی میں سے اپنے والدین کا کچھ حصہ نہیں نکالتیں تو آپ نہ صرف اپنے والدین بلکہ بھائیوں کا استحصال بھی کر رہیں ہیں۔

اگر آپ بطور شوہر اپنی بیوی سے امید رکھتے کہ وہ آپ کے والدین اور بہن بھائیوں کا خیال رکھے اور ان کی خدمت کرے جو درحقیقت آپ کی اور آپ کے بہن بھائیوں کی اپنی ذمہ داری ہے تو آپ ایک عورت کا جسمانی استحصال کر رہے ہیں۔

اگر آپ خود نہیں کماتیں اور آپ کے پرتعیش طرز زندگی کے لیے آپ کے شوہر کو ملازمت کے مشکل اوقات برداشت کرنے پڑتے۔ یا آپ اس سے اپنے والدین یا بہن بھائیوں کی کسی بھی مالی مدد کی امید رکھتی ہیں تو آپ ایک مرد کے جسمانی و معاشی استحصال میں ملوث ہیں۔

ہم عام لوگوں کے ان بہت عام سے رویوں کو پڑھنے کے بعد ہم میں سے شاید چند ہی لوگ ہوں جو یہ کہہ سکیں کہ ہم نے نے کبھی کسی کا حق نہیں کھایا یا استحصال نہیں کیا۔ ہم جس دور میں زندہ ہیں وہاں ہر چیز کی قیمت ہے، الفاظ کی بھی۔ اب یا تو ہم اپنے عام رویوں کو بدل کے اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی قیمت ادا کریں یا پھر مفت خوری چھوڑ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments