ٹیٹو، تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


یار، سر، طلعت اسلم صاحب، ٹیٹو بھائی، ابے بڑے بھائی۔۔۔ جیسے جیسے شام گہری ہوتی جاتی تھی، آپ سے خطاب کے انداز بدلتے جاتے تھے۔ ملاقات تب بھی ہوتی تھی جب آپ کاپی ڈاؤن کر لیتے تھے۔

جب بیرکوں سے نکل کر صحافت میں آئے تو بڑے بڑے ناموں والے صحافیوں کی کہانیاں پڑھ کر بہت متاثر ہوتے تھے چونکہ ان کے پاس اندر کی خبریں ہوتی تھیں۔

زاہد حسین خبر لاتے تھے کہ حکومت جا رہی ہے، عباس ناصر اسلام آباد میں گھوم کر پتہ لگاتے تھے کہ نہیں ابھی ڈیل ہوگئی ہے، نہیں جا رہی۔

کامران خان چیختی ہوئی ہیڈ لائن لگاتے تھے کہ زرداری کے ایک بندے نے کسی کی ٹانگ پر بم باندھ کر اس سے بہت سا پیسہ نکلوایا ہے۔

نصرت جاوید پارلیمان میں بیٹھ کر سب کی آنیوں جانیوں پر نظر رکھتے تھے اور اپنے شاعرانہ اسلوب میں بیان کرتے تھے۔ ادریس بختیار اپنا سکُوپ لاتے تھے کہ ایم کیو ایم کے عمران فاروق کو پھر رابطہ کمیٹی سے نکال دیا گیا ہے۔

ایسے وقت میں جب صحافت کا محور سیاست اور وہ بھی طاقتوروں کی سیاست ہوتی تھی، ہیرالڈ میگزین کے کور پر کہانی چھپی جس کا نام تھا ’سٹریٹ بیٹ‘، یعنی گلی میں کیا بج رہا ہے۔

طلعت اسلم نے پنجاب کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں گھوم کر یہ پتہ کیا تھا کہ کون کیا گا رہا ہے اور کون کیا سن رہا ہے۔ قوم کے ارمان اور درد صرف اسلام آباد کے سیاسی تجزیہ نگار ہی بیان نہیں کر رہے بلکہ ان کا کہیں بہتر اور تخلیقی اظہار ہمارے چھوٹے شہروں کے فنکاروں کے سُروں میں موجود ہے۔

پہلی دفعہ یہ صحافتی سبق سمجھ میں آیا کہ ہاں اندر کی خبر بڑی ہوتی ہے لیکن باہر کی خبر اس سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ اگر صحافی کو یہ نہیں پتہ کہ اس کے اپنے پچھواڑے میں کیا ہو رہا ہے تو چاہے تمام عمر اقتدار کی دیوار سے کان چپکائے رہو، آپ کا اپنا کیریئر تو بن جائے گا لیکن نہ صحافت کا بھلا ہو گا نہ اس بدبخت قوم کا۔

طلعت اسلم کو صحافت کا نشہ تھا لیکن طاقت کا نہیں۔ شاید اسی لیے ان کے ارد گرد نہ سیاست دان تھے، نہ بیوروکریٹ اور نہ سیٹھ۔۔ چھوٹے صوبوں، دور دراز قصبوں سے آنے والے نوجوان، صحافت میں کچھ کر کے دکھانے کا عزم رکھنے والوں کو زیادہ قریب رکھتے تھے۔

کتنوں کو صحافت میں پہلا چانس دیا، کتنوں کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا، کتنوں کی کچی انگریزی کی نوک پلک سنواری۔ میرا تعلق چونکہ خود ایک چھوٹے شہر کے چھوٹے گاؤں سے ہے تو مجھے برگر کلاس کے ان لوگوں پرشک سا رہتا ہے جو اپنی کلاس سے نکل کر یاریاں بناتے ہیں۔

لیکن طلعت اسلم کا دل ہی دیہاتی سا تھا۔ اپنے سے مختلف لوگوں کو جاننے، ان کی کہانیاں سننے، ان کے گیت گنگنانے اور ان کے لہجوں کا مزہ لینے کا شوق تھا۔

کورونا کے زمانے میں جب گھر میں محدود تھے تو پشتو سیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں دل پر ہاتھ رکھ کر گواہی دے سکتا ہوں کہ ان کی نسل کے کسی صحافی نے پچھلے 40 سال میں سوائے واٹس ایپ گروپ بنانے کے کوئی نئی چیز نہیں سیکھی۔

لکھنا بہت پہلے چھوڑ دیا تھا لیکن 10 سال پہلے جب کراچی میں عشق میں مبتلا جتھوں نے بندر روڈ پر کراچی کے سب سے پرانے سینیما کو جلا کر راکھ کر دیا تو آپ نے ایک درد ناک مضمون لکھ مارا جس کا اردو میں ترجمہ اس ویب سائٹ پر چھپا تھا جس میں آپ نے کراچی کی بدلتی معاشرت کا احاطہ کیا تھا اور ہمیں بتایا تھا کہ سینما نہیں جلائے گئے بلکہ ہمارے خواب جلا دیے گئے ہیں۔

اب آپ چونکہ آخری کاپی ڈاؤن کر چکے ہیں تو بس اتنا بتانا تھا کہ اندر کی خبر جاننے والے کہہ رہے ہیں کہ حکومت نہیں جا رہی۔

جس رات آپ گئے اسی دن عمران خان بھی دھرنے کے بجائے دھرنے کی دھمکی دے کر گھر چلے گئے۔

آپ کا سیاسی تجزیہ وہی ہوتا، طارق ہزاروی کے پرانے گیت والا:

مری دی میں سیر کراں

ماہیے دیاں کاراں تے

کچھ اعتبار نہیں آں

آج کل دیاں یاراں تے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments