عمران خان کی مہم جوئی کا انجام اور ان کا مستقبل


چیئرمین تحریک انصاف عمران خان حکومت سے قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کرائے بغیر 6 دن کا ایک اور الٹی میٹم دے کر واپس پشاور پہنچ گئے ہیں جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اور اس کا فیصلہ منتخب اسمبلی کرے گی۔ عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ڈی چوک جانے کا اعلان کر کے متعلقہ حکام کو سخت مشکلات میں ڈال دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس، ایف سی اور رینجرز کے ساتھ کیٔ گھنٹوں تک کارکنوں کا تصادم جاری رہا اور سول حکومت کو ریڈ زون کی حفاظت کے لیے فوج کو طلب کرنا پڑا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اب کے بار ہجوم سے نمٹنے میں سختی سے کام لیا، ردعمل میں کارکنوں نے بھی توڑ پھوڑ کے علاوہ درختوں اور املاک کو نقصان پہنچایا تاہم عمران خان کو ٹکنے نہیں دیا گیا اور وہ اس صورتحال کو سمجھتے ہوئے چھ دن کا الٹی میٹم دے کر واپسی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔

اس ایونٹ سے قبل عمران خان نے چھ روز تک اپنی ٹیم کے ساتھ پشاور میں قیام کیا اور مارچ کو ان کی صوبائی حکومت کی کھلی سرپرستی میسر رہی۔ شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ اس مارچ میں نمایاں حاضری پختون خوا کی رہی اور دوسرے علاقے اس سے عملاً لاتعلق رہے۔ جس متوقع کراؤڈ کی توقع کی جا رہی تھی وہ دیکھنے کو نہیں ملی اور غالباً اسی کا ردعمل تھا کہ عمران خان نے دھرنے یا چند روز تک قیام کا اپنا آپشن استعمال نہیں کیا حالانکہ وہ یہ کہہ کر نکلے تھے کہ وہ امپورٹیڈ حکومت کا خاتمہ اور قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرا کر واپس آئیں گے۔

دیکھا جائے تو عمران خان کی یہ کوشش ایک ناکام مہم جوئی ثابت ہو گئی ہے اور وہ نہ صرف یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد نکالنے میں ناکام رہے بلکہ ہر کسی سے لڑنے کی عادت بھی ان کو بہت مہنگی پڑی۔ مسلسل محاذ آرائی، الزام تراشی، سازشی نظریات اور غیر ضروری تصادم پر مبنی ان کے طرز سیاست نے ان کو بند گلی میں محصور کر دیا ہے اور اب ان کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی ہوگی۔

اس وقت ان کے لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو منظم کر کے اگلے الیکشن کی تیاری کریں اور ساتھ میں وہ خیبر پختون خوا کی اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے پر بھی توجہ دیں کیونکہ اس صوبے نے جہاں ان کو دو بار کامیاب کرایا وہاں پختون خوا نے حالیہ مارچ میں ان کی ساکھ کو بھی بچائے رکھا اور صوبائی حکومت نے اپنے تمام وسائل بھی مہیا کیے۔

عمران خان نے 25 میٔ کی اپنی مبہم اور ناکام مہم جوئی کے بعد پشاور میں جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تیاری ٹھیک نہیں تھی اور یہ کہ انہوں نے واپسی کا فیصلہ اس لئے کیا کہ حکومت اداروں اور ان کے کارکنوں کے درمیان خون خرابہ چاہتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بار پھر تیاری کرنے کے بعد مارچ کریں گے تاہم اگر حکومت جون میں انتخابات کا اعلان کرتی ہے تو وہ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ وہ دوران پریس کانفرنس بہت مایوس اور غصہ نظر آئے جو کہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ مارچ کی ناکامی سے دلبرداشتہ ہو چکے ہیں اور اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ بعض پارٹی ذرائع کے مطابق انہوں نے پشاور پہنچنے کے بعد نہ صرف بعض لیڈران کو نا اہل اور ناکارہ قرار دیا بلکہ سپیشل برانچ کو کارکنوں کی تعداد اور ممبران اسمبلی، وزراء کی کارکردگی اور حاضری کی رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت بھی کی۔ موصوف نے دوران پریس کانفرنس اسٹیبلشمنٹ کے اور حکومت کے ساتھ مارچ کے دوران رابطوں اور کسی مجوزہ ڈیل کی اطلاعات کو اس کے باوجود مسترد کر دیا کہ باخبر حلقے اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ محفوظ راستہ دینے کا باقاعدہ تقاضا اور مطالبہ کیا گیا تھا اور اسد قیصر، پرویز خٹک کے ذریعے بات بھی تقریباً فائنل ہو چکی تھی۔ عمران خان نے پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال پر انتہائی غصہ دکھا کر کہا کہ فوج کے خلاف جاری مہم ان کی پالیسی نہیں بلکہ عوام سوشل میڈیا کی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔

ادھر وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پختون خوا کے خلاف دو صوبوں کی پولیس کو لڑانے کی سازش اور کوشش کے خلاف ممکنہ کارروائی کی جائے گی اور ان سرکاری افسران کو بھی قانون کے مطابق گرفت میں لایا جائے گا جنہوں نے مارچ کے دوران اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ دیکھا جائے تو عمران خان نے اس تمام گیم کے دوران اپنی صوبائی حکومت کو نہ صرف وفاق کے سامنے لا کھڑا کیا اور سرکاری وسائل کھل کر استعمال کرتے رہے بلکہ انہوں نے دونوں حکومتوں کے درمیان اختلافات بڑھانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جو کہ مستقبل میں جنگ زدہ پختون خوا کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی وجہ بنے گی کیونکہ طریقہ کار کے مطابق صوبے کا 70 فی صد اقتصادی انحصار وفاق پر رہا ہے اور صوبائی حکومت کی اس وقت حالات یہ ہیں کہ اس نے گزشتہ چند برسوں میں 550 ارب روپے سے زائد کا قرضہ لے رکھا ہے اور قبائلی علاقوں کے لئے مختص فنڈز میں بھی 44 ارب روپے کی گڑھ بڑھ ہوئی ہے۔ بجائے اس کے کہ عمران خان صوبے کی بیڈ گورننس کی بہتری پر کچھ توجہ دیتے انہوں نے صوبائی حکومت کو وفاقی اور پنجاب حکومت کے مد مقابل لا کھڑا کر دیا جس کا خمیازہ صوبے کے عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ عمران خان کا اگلا ہدف اور قدم کیا ہو گا اس پر اب وہ خود بھی کنفیوژن کے شکار ہیں تاہم ان کا جارحانہ انداز شاید اب دوسروں کے علاوہ ملک کی با اثر اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی قابل برداشت نہیں رہا اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ جمعہ کے روز کی اپنی پریس کانفرنس کے دوران بہت پریشان دکھائی دیے جس کا اندازہ ان کے الفاظ اور باڈی لینگویج سے صاف دکھائی دے رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments