نوجوت سنگھ سدھو اور عمران خان: دونوں پہ کیا بیتی؟


مارچ 2022 کے مہینہ میں پاک و ہند کے اندر سیاسی طور بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور پاکستان اور بھارت کی دو بڑی شخصیات ان تبدیلیوں کا شکار ہوئیں۔ دونوں پر آج کل جو بیت رہی ہے وہ سب اخبارات کی زینت بن رہا ہے۔ پہلے مارچ کے مہینہ میں نوجوت سنگھ سدھو نے غیر متوقع طور پر انتخابات میں شکست کھائی جبکہ وہ اس انتخابات میں بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لئے ایک مضبوط امیدوار تصور کیے جا رہے تھے۔ پھر وقت کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر چونتیس سالہ پرانے مقدمہ میں پٹیالہ جیل کے قیدی بن گئے اور اب ایک سال قید بامشقت کاٹ رہے ہیں، دوسری طرف عمران خان مارچ میں پاکستان ساڑھے تین سالہ حکومت سے محروم ہوئے اور آج کل سڑکوں پر مارا مارا پھرنے پر مجبور ہیں لیکن جیل یاترا سے فی الحال دور ہیں لیکن پاکستانی سیاسی موسم کسی بھی وقت بدل سکتا ہے، کوئی اعتبار نہیں ہے۔

دونوں پر ”برا وقت“ قریب قریب ایک ساتھ ہی آیا ہے۔ دونوں کی اصل وجہ شہرت کرکٹ ہے لیکن بعد ازاں ریٹائرمنٹ دونوں نے سیاست میں قدم رکھا اور خوب نام کمایا۔ دونوں کی دوستی بھی بہت مشہور اور مضبوط ہے۔ عمران خان نے کرکٹ ورلڈ کپ 1992 جیت کر شہرت میں عروج حاصل کیا تھا۔ پھر تحریک انصاف نام کی سیاسی جماعت تشکیل دے کر عملی سیاست میں قدم رکھا اور بائیس سال کی جدوجہد کے بعد وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور آج کل کھوئی کرسی کی جستجو میں دھرنا سیاست اور ’غلامی سے نجات‘ کا بینر اٹھائے ہاتھ پاؤں مارتے دکھائی دیتے ہیں۔

نوجوت سنگھ سدھو ایک بھارت کی مشہور و معروف شخصیت ہیں ان کی بھی پہلی وجہ شہرت ان کا کرکٹر ہونا ہے۔ اکاون (51) ٹیسٹ میچ کھیل کر تین ہزار سے زائد رنز بنا کر ریٹائر ہوئے تھے۔ کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے سیاست کی دنیا میں قدم رکھا اور بھارتی جنتا پارٹی میں شامل ہوئے۔ امرتسر ان کا آبائی حلقہ ہے۔ 2004 سے لے کر 2014 تک امرتسر سے لوک سبھا کے رکن رہے اس کے بعد 2016 میں راجیہ سبھا سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔

2017 میں انڈین نیشنل کانگریس میں شرکت کرلی اور اس کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور آج کل پنجاب میں کانگریس جماعت کے صدر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بطور مبصر کی کام جاری رکھا اور مزید نام نام کمایا ان پروگراموں میں کپل شرما کے پروگرام نائٹ ود کپل، کامیڈی شو اور دی کپل شرما شو قابل ذکر ہیں۔ ماہ رواں مئی میں ان کے حوالے سے اچانک ایک خبر بریکنگ نیوز کے طور پر سنی گئی۔ ہر عام و خاص حیران تھا کہ سپریم کورٹ سے ایک سال قید بامشقت کی سزا کیونکر ہوئی؟ کیونکہ کوئی مقدمہ منظر عام پر نہیں تھا۔ لیکن جلد ہی یہ حیرانی دور ہو گئی اور علم ہوا کہ 34 سال پرانے ایک کیس میں یہ سزا سنائی گئی۔ اب یہاں پھر مزید حیرانی کا پہلو کہ چونتیس سال بعد سزا؟ لیکن تفصیلات سامنے آنے پر پتہ چلا کہ ان پر ایک الزام تھا کہ 1988 میں انہوں نے جب آتش جواں تھے، غصے میں آ کر گرنام سنگھ نامی ایک شخص کو مکا مارا جس بنا پر وہ ہلاک ہو گیا تھا۔

دسمبر 1988 میں جب یہ واقعہ رونما ہوا تھا جب سدھو بھارتی کرکٹ ٹیم کے ایک اہم رکن تھے۔ لڑائی جھگڑے کے بعد کیس چلتا رہا اور 1999 میں الزام ثابت ہو گیا تھا اور ہریانہ پنجاب کی عدالت نے تین برس قید کی سزا سنائی تھی۔ سدھو نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس پر سزا میں کمی کردی گئی اور محض ایک ہزار روپیہ جرمانہ کیا گیا۔ اس وقت سپریم کورٹ کا موقف تھا کہ سدھو نے کوئی ہتھیار استعمال نہیں کیا لہذا یہ غیر ارادی قتل تھا اور سدھو کو رہائی مل گئی۔

اب مقتول کے لواحقین نے دوبارہ نظر ثانی کی اپیل دائر کی جس کو منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایک سال قید بامشقت سزا سنائی۔ اٹھاون سالہ سدھو نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس فیصلہ کو منظور کر کے سر خم تسلیم کیا اور سزا قبول کر لی اور آج کل وہ جیل میں ہیں۔ ان کی بامشقت سزا شروع ہو گئی ہے اور بطور کلرک ایک سال کام کریں گے۔ پہلے تین ماہ ٹریننگ کریں گے جس میں عدالتی فیصلوں کو رکھنے کے گر سکھائے جائیں گے اس کے بعد 90 روپے روزانہ کی دیہاڑی کے حساب سے کام سزا کاٹیں گے

نوجوت سدھو پاکستان میں بھی بہت مقبول ہیں اور عمران خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ 2018 اگست میں عمران خان کی بطور وزیر اعظم حلف برداری تقریب میں شرکت کی، بعد ازاں کرتارپور راہداری کی تقریب میں شرکت کے لئے لاہور پہنچے اور عمران خان کو بڑا بھائی کہنے اور جنرل باجوہ کو ”جپھی“ ڈال کر بھارت میں بہت تنقید کی زد میں رہے۔ سدھو صاحب بظاہر تو اب ایک سال بعد باہر آ کر کچھ ہی بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے جبکہ کپتان جو باہر ہیں، ان کا پتہ نہیں کیا پلان ہے کب تک باہر رہنا چاہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments