بچے بلاول سے ہی کچھ سیکھ لیں کپتان صاحب!


سیاسی درجہ حرارت اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بندریا اپنے بچے پاؤں کے نیچے دینے کو تیار ہے بلکہ دے بھی رہی ہے، اپنے مذموم مقاصد کی خاطر پروپیگنڈے کی جنگ زوروں پر ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ پنڈی میں نئے وزیراعظم کے لیے انٹرویو ہو رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں کچھ ہونے والا ہے، کبھی خط، کبھی جان کو خطرہ، کبھی سازش، کبھی بازاری زبان تو کبھی ملک پر بم گرا دو کی خواہش ناتمام، ان حالات میں جبکہ ہر طرف افراتفری کا دور دورہ ہے، بلاول زرداری نے بطور وزیر خارجہ اپنے پہلے ہی دورے میں بہترین دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔

بلاول ان دنوں بطور وزیر خارجہ امریکی دورے پر ہیں، یہ دورہ کچھ وجوہات کی وجہ سے بہت اہم ہے مثلاً روس اور امریکا کی باہمی چپقلش، روس اور انڈیا کا یارانہ، انڈیا اور پاکستان کی دشمنی اور پاکستان روس تعلقات کا ایک عرصے تک کشیدہ رہنا، یہ تمام امور مل کر ایک ایسی چوکور بناتے ہیں کہ جس کے ہر کنارے پر آگ کا ایک الاؤ روشن ہے، لہذا ایک عرصے کے بعد زرداری دور میں پاکستان روس تعلقات کا نئے خطوط پر قائم ہونا بذات خود امریکا کے لیے بھی ایک تکلیف دہ امر تھا، لہذا روس یوکرین تنازعے میں عمران خان کا بطور وزیراعظم روس کا دورہ کرنا ایک بین الاقوامی ایشو بنا، بعد ازاں تحریک عدم کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت رخصت ہوئی تو موصوف نے اسے روسی دورے کے ضمن میں امریکی سازش قرار دیا، ان حالات میں بلاول سے وہاں اس دورے اور سازش بارے پوچھا گیا تو انہوں نے عمران خان کے دورہ روس کا بھرپور دفاع کیا۔ اس میں خان صاحب کے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔

نیازی صاحب! آپ تو بلاول کو بچہ کہتے ہیں ناں، عمر کے لحاظ سے وہ آپ کے مقابلے میں بچہ ہی ہے، لیکن کاش آپ نے شیخ سعدی کا یہ قول پڑھا ہوتا ہے کہ ”بزرگی بعقل است نہ بسال است“ بزرگی (سنجیدگی اور شعور) کا تعلق عمر کے ساتھ نہیں بلکہ عقل کے ساتھ ہوتا ہے، کاش آپ اس بچے سے ہی کچھ سیکھ لیں، آپ دنیا میں سب کچھ سب سے زیادہ جانتے ہیں لیکن کاش آپ یہ بات جان لیتے کہ جب ملک کا سربراہ سرکاری سطح پر کسی بیرون ملک جاتا ہے تو اس وقت وہ اپنی پارٹی کا نہیں بلکہ ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے، لہذا اسے وہاں پارٹی اور حلقے کے مفادات سے باہر نکل ملک کے مفادات کا سوچنا چاہیے اور بات بھی ملکی مفاد میں کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت پوری دنیا اسے کسی سیاسی پارٹی کے سربراہ کے طور پر نہیں بلکہ ملک کے سربراہ کے طور سن رہی ہوتی ہے اور اس کی ہر بات ملک کی پالیسی سمجھی جا رہی ہوتی ہے۔

آپ کو یاد ہے جب نواز شریف اس ملک کا سربراہ تھا، وہ از خود یا کسی ملک کی دعوت پر وہاں جاتا تھا تو آپ کے ٹائیگرز جتھے بنا کر وہاں آ جاتے تھے، وہاں نعرے بازی ہوتی، چور چور کے نعرے لگتے، کیا آپ جانتے ہیں کہ نواز شریف اس وقت مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر نہیں بلکہ ملک کے سربراہ کے طور وہاں گیا ہوتا تھا، آپ بھلے اسے وزیراعظم نہ مانتے ہوں گے لیکن دنیا تو مانتی تھی اور اسی لیے آپ کی بجائے انہیں دعوت دی جاتی تھی لیکن آپ نے اس بات کا خیال تک نہ رکھا، مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب نواز شریف اقوام متحدہ اجلاس میں تقریر کرنے پہنچا تو آپ کے ٹائیگرز نے وہاں احتجاج کیا جس سے پاکستان کا تاثر مجروح ہوا، اس وقت کشمیر کا مسئلہ برہان وانی کی شہادت کی وجہ سے پوری دنیا کے منظر نامے پر چھایا ہوا تھا نواز شریف نے اسے اقوام متحدہ کے فلور پر شہید کہہ کر انڈیا کے زخموں پر نمک چھڑکا لیکن آپ کی احتجاج کی وجہ سے وہ مسئلہ دب گیا اور خبریں یوں چلتی رہیں کہ پاکستانی وزیراعظم کو پاکستانی کمیونٹی نے چور چور کہا، آپ نے برطانیہ میں ایسا ہی کیا، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ خود وزیراعظم بنے، آپ بھی اسی فلور پر تقریر کرنے پہنچے لیکن کسی مخالف نے آپ کو تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنایا کیونکہ انہیں پتا تھا کہ وہ سیاسی اختلاف اور ریاست پاکستان کے مفادات کا فرق سمجھتے تھے۔

اگر وہ سب کچھ آپ کو بھول گیا ہو تو بلاول کی بات کو زیادہ دن نہیں گزرے، اس کے بارے میں آپ اور آپ کے ہمنواؤں نے کیا کیا گھٹیا فقرہ نہیں کہا، لیکن جب اس سے آپ کے دورہ روس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے دفاع کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس وقت وہ پیپلز پارٹی کی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے، اگر اس کی جگہ آپ ہوتے تو کیا آپ کا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا؟ بالکل نہیں کیونکہ جو بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ حکومت مجھے دو ورنہ ملک پر بم گرا دو، وہ کچھ بھی کہہ اور کر سکتا ہے، کاش آپ اس بچے سے اتنا ہی سیکھ لیتے کہ باہر جا کر اپنے مخالفین کو پھانسی دینے اور ان کے کمروں سے AC اتارنے کی نہیں بلکہ ریاست کے مفاد کی بات کی جاتی ہے، باہر جا کر دنیا میں اپنے ملک کا تشخص مجروح نہیں کیا جاتا بلکہ دنیا کو اعتبار کرنے کے لیے قائل کیا جاتا ہے، کہاں 70 سالہ دانشور اور کہاں 33 سالہ بچہ لیکن کاش اس بچے سے پارٹی اور ملک، اور پارٹی چیئرمین اور ریاست کے سربراہ کے درمیان فرق ہی سیکھ لیں۔ کپتان صاحب آپ کو زرداری کے بچے بلاول سے ضرور سیکھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments