باپردہ خاتون اور پی ٹی آئی ٹچ
میں حاجی کے ساتھ ایک دفعہ یورپ دیکھنے کے لئے نکلا۔ ایک سہ پہر ترکی کے سرحدی شہر دوبا یزید میں بس کمپنی نے ہمیں شام کو نکلنے والی بس کے ٹکٹ بیچے۔ لیکن شام کے وقت معلوم ہوا کہ رات کو انقرہ کوئی بس نہیں جاتی۔ حاجی صاحب بہت غصہ ہوا لیکن پشتو اور عربی کی گالیوں کے علاوہ اسے کوئی مقامی زبان آتی ہی نہیں تھیں جبکہ گالی کی جان اس کے دوطرفہ ابلاغ میں ہے۔
کوہ آرارات کی طرف سے آنے والی ٹھنڈی سرسراتی ہوا میں مجھے حاجی صاحب کی گالیاں صاف سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ سنسان پارک میں ایستادہ اتاترک کے مجسمے کے سامنے کھڑے ہو کر حاجی صاحب نے اپنا سارا غصہ اتارنا شروع کیا۔ ابھی بہت کچھ باقی تھا کہ اچانک دو ترک سپاہی آئے اور ہمیں پکڑ کر سامنے والی عمارت کی روشنی میں لے گئے جو دراصل پولیس چوکی تھی۔ وہاں موجود افسر نے ہم سے مجسمے کے سامنے کھڑے ہو کر سرگرمی کے بارے میں پوچھا، تو زبان یار من ترکی آڑے آئی۔
میں نے اپنا پاسپورٹ دکھا کر انگریزی میں اسے بتایا کہ ہم پاکستانی ٹورسٹ ہیں۔ پاسپورٹ دیکھ کر اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھا کہ آپ کا ساتھی اتا ترک کے مجسمے کے سامنے کیا کہہ رہا تھا۔ تو میں نے بتایا کہ میرا ساتھی پشتو کا عظیم شاعر ہے، جس نے اتاترک کی شان میں قصیدہ کہا ہے وہی عرض کر رہا تھا۔ پولیس افسر اور کمرے میں موجود پولیس والوں کا رویہ بدلا، ہمیں کرسیاں اور دودھ و شکر سے بے نیاز ترک چائے پیش کرتے ہوئے قصیدہ سننے کی فرمائش کی۔ حاجی صاحب کو صورتحال سمجھائی گئی تو اس نے پشتو کے دو چار لوک گیت ملا کر ’قصیدہ سنایا‘ ۔ تب پولیس والوں نے ہمیں اپنی جیپ میں بٹھا کر اچھے ہوٹل میں مناسب کمرہ دلا کر چھوڑا۔
عمران خان کی آخری مارچ کے دوران بنی ایک ویڈیو کلپ میں ایک باحجاب خاتون ایک پولیس والے کو انگریزی میں گالیاں دیتی ہے اور پولیس والا خاتون کو نظر انداز کرتا ہوا جا رہا ہے۔ مجھے بے ساختہ اپنا دوست حاجی صاحب یاد آیا، جبکہ پولیس والے کی بے نیازی دیکھ کر لگا کہ اسے بھی ترک پولیس والوں کی طرح انگریزی کی سمجھ نہیں جو حاجی صاحب کی ہذیان کو قصیدہ سمجھ رہے تھے۔ وہ تو جب قاسم سوری نے کپتان کو اسلامی ٹچ کا مشورہ دیا تو سمجھ گیا کہ جس طرح کپتان مدینہ کی قوالی کے ساتھ ایاک نعبد و ایاک نستعین کا ذکر کرتا ہوا ہر دن اسلامی ٹچ کا بے دریغ استعمال کرتا ہے یہاں اسلام (حجاب) کو پی ٹی آئی کا ٹچ دیا جا رہا تھا۔ دراصل پی ٹی آئی کی زبان بولنے والی ایک شدید یوتھیا خاتون کو اس پولیس والے پر چھوڑا گیا تھا۔ پولیس والا شریف (وہ شریف نہیں) اور خوش قسمت تھا، کہ اس کے قصیدے پر کوئی توجہ دیے چلا جا رہا تھا، ورنہ ایک باپردہ مشرقی خاتون کے ساتھ غیرمشرقی رویہ اپنانے کے جرم میں اس خاتون کو بھیجنے والوں نے اس کا کیرئیر تباہ کرنا تھا۔
جس نام یا کاروبار کو اسلامی ٹچ لگا ہوا دیکھیں، جیسا کہ اسلامی ملک، اسلامی جمہوریہ، اسلامی سوشلزم، اسلامی مرکز، اسلامی بنک، اسلامی بیمہ، اسلامی طب، اسلامی قانون، اسلامی شہد، اسلامی اچار، اسلامی مدرسہ وغیرہ تو سمجھ لیں وہاں پر خالص اسلام کا کاروبار کیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں سیاست کو اسلامی ٹچ دینے سے پہلے پنجاب دہلی تک پھیلا ہوا تھا۔ اسلامی ٹچ نے اسے واہگہ تک محدود کر دیا۔ سماجی تکثیر پسندی کی وجہ سے مسلمان پنجابی اور سکھ پنجابی میں کوئی مذہبی اور سیاسی مخاصمت نہیں تھی۔ پنجابیوں کی ہمہ اوست اور غیر متعصبانہ نقطہ نظر کی بنا پر سکھ بنے جس طرح اس سے پہلے وہ مسلمان بنے تھے۔ انگریز کی آمد کے بعد جو عیسائی بنے اور قادیانیت پھیلنے پر قادیانی۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ پنجابی کی برداشت کی روایت کی بنا پر ماضی قریب میں پنجاب سے دو نئے مذاہب کا ظہور ہوا۔ غیر منقسم پنجاب اپنی جفاکشی کی بنا پر ہندوستان کا غلہ گھر تھا اور جہاں غلہ وافر مقدار میں موجود ہو وہاں انسانی رویوں میں اعتدال اور برداشت خودبخود پیدا ہوجاتی ہے۔
سیاسی طور پر بھی پنجابی کسی شدت پسند جماعت کے حامی نہیں تھے۔ مذہبی مغائرت کے باوجود سکھ پنجابی اور مسلمان پنجابی زبان کلچر روایات نسل اور تہواروں کے سانجھے حصہ دار تھے۔ دونوں پنجابی فریقین کی اکثریت کا تعلق انگریز دوست یونینسٹ پارٹی سے تھا، جو کٹر مذہبی پرچارک مودودی کے نہیں، لبرل سر سکندر حیات اور سر چھوٹو رام کے سپورٹر تھے۔
حالیہ عسکری پنیری کی استثنا کے علاوہ اکثر پنجابی آج بھی ایسی معتدل جمہوری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیں جہاں مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ نعروں میں کوئی دلچسپی نہیں لی جاتی، اگرچہ ساری فرقہ پرست جماعتوں کے ہیڈکوارٹرز پنجاب میں موجود ہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج اور حکومت میں سکھ اور مسلمان پنجابی ساتھ رہنے کے علاوہ انگریزی فوج میں بھی دونوں ساتھ رہے۔ جہاں انہوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ شاید ہی برطانوی سلطنت کی بہادری کا کوئی تمغہ ہو جو انہوں نے اپنے سینے پر نہ سجایا ہو۔ اس وقت بہادری کا استعارہ مسلمان یا سکھ ہونا تھا بلکہ بہادری کا استعارہ پنجابی ہونا تھا۔
لیکن تقسیم ہند کے قریب مسلم لیگیوں نے سیاست کو اسلامی ٹچ دے کر پنڈی میں سکھوں کے خلاف وہ متشدد تحریک شروع کی، جس کی وجہ سے ایک زبان ایک کلچر اور ایک جیسی تہواروں کے حامل مسلمان پنجابیوں نے مندرہ گوجر خان اور کہوٹہ کی اپنی ہم زبان اور ہم نسل سکھ آبادی کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں مجسٹریٹ چیمہ کی رہنمائی میں شاہ عالمی کے اردگرد آباد سکھ اور ہندووں کی آبادی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کی خاطر ان کی کروڑوں کی بزنس کو اگ کی نذر کیا، جہاں سے تباہ حال سکھ لاشوں سمیت امرتسر پہنچے تو مذہبی ٹچ کی وجہ سے انہوں نے مسلمان پنجابیوں پر منظم حملے کر کے ان کی جان مال اور عزتیں لوٹیں اور مذہبی ٹچ کی وجہ سے دس لاکھ بے گناہ مارے گئے۔
ویڈیوز کی زور پر قائم سابقہ حکومت نے پختونوں اور اسلامی ٹچ کا بڑی مہارت سے استعمال کیا مثلاً حیادار خاتون اور پولیس والے سے پہلے مدینہ میں بغیر جوتوں کی فلم اور مذہبی شو بز سے وابستہ طارق جمیل کا برمحل اور بار بار استعمال۔ مجھے یقین ہے کہ طارق جمیل کا سیاست یا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں جس کا اظہار اس نے نے خود بھی کئی بار کیا۔ جس طرح دوسرے سیلیبریٹیز یعنی اداکار گلوکار عمران خان کے حق میں چھوٹے چھوٹے ویڈیو پیغامات محنتانہ کے عوض ریکارڈ کر کے نشر کرتے ہیں، طارق جمیل بھی وہی کرتے ہیں لیکن اسلامی ٹچ کی وجہ سے ناظرین اسے طارق جمیل صاحب کی صداقت پر مبنی اعلانات سمجھتے ہیں۔
میرے دوست حاجی صاحب، نامعلوم باپردہ خاتون، شیخ رشید، پرانی باجی فردوس اور فیاض چوہان اسلام کو پی ٹی آئی کا ٹچ دیتے ہیں جب کہ عمران خان پی ٹی آئی کو اسلامی ٹچ دیتا ہے جو اگر وہ بھول جائے تو کوئی قاسم سوری اسے یاد دلا دیتا ہے کیونکہ اس ملک میں جب کوئی چیز نہیں بکتی تو اسلامی شہد اسلامی اچار اسلامی پارٹی اسلامی بنک کی طرح اسلامی ٹچ کے ذریعے مارکیٹ کی جاتی ہے۔
- قوم پرست طالبان اور توبہ تائب قوم پرست - 16/03/2023
- انجمن کرپشن باہمی - 06/03/2023
- مہنگائی، نااہلی اور حکومتی بے حسی کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی - 11/02/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).