شوکت خانم ہسپتال: جدید طرز علاج کا ایک شاہکار


پچھلے دنوں میری ایک آنٹی، جو کہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں، کے ساتھ بحیثیت اٹینڈنٹ شوکت خانم ہسپتال میں وقت گزارنے اور ان کے سسٹم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا اس کی روداد کچھ یوں ہے۔

آغا خان ہسپتال کے متعلق یہ سنا ہے کہ وہاں جا کر مریض ذہنی طور پر مطمئن ہو کر ہی ریکور ہونا شروع خر دیتا ہے۔ یہی معاملہ شوکت خانم کا بھی ہے۔ جیسے ہی گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہیں تو دل کو ایک سکون ملتا ہے۔ ہسپتال کے اندر جا کر اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سارا عملہ صرف میرے لئے ہی مامور ہے۔ مجھ جیسا انسان جو کہ اس خوف سے علاج کرانے ہسپتال نہیں جاتا کہ کوئی غلط دوائی نہ لکھ دے اور کہیں کوئی اور بیماری نہ لگے وہ بھی مطمئن ہو کر اور کسی کراہت کے بغیر پورا ایک دن وہاں گزار دیتا ہے۔

دوسری چیز جو کہ متاثر کن ہے، وہ وہاں کے عملے کا رویہ ہے۔ فوج سے ریٹائرڈ سیکیورٹی گارڈز اکثر لہجے میں تھوڑے سخت اور کڑوے ہوتے ہیں لیکن وہاں کے سیکیورٹی گارڈز کی تربیت بھی غیر معمولی ہے۔ اندر جانے سے منع کرنے کے لئے جو نرم اور ڈپلومیٹک لہجہ وہ استعمال کرتے ہیں اس کے بعد شرمندہ ہو کر ان سے تکرار کرنا بھی معیوب لگتا ہے۔ ڈاکٹر اور سپورٹ سٹاف کی بات ہی کیا ہے۔ معمولی سے معمولی کام کے لئے بھی آپ کو مکمل گائیڈ کرتے ہیں۔

ہسپتال کے اندر جو سہولیات دی گئی ہیں وہ اعلی ہیں۔ مریض تو مریض، اس کے ساتھ اٹینڈنٹ بھی ”فیل ایٹ ہوم“ کرتے ہیں۔ بیٹھنے کے لئے صاف ستھری جگہ، انتہائی سستا اور ہائجینیک کینٹین، جہاں ہر قسم کے کھانے انتہائی کم قیمت میں ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ صاف ستھرے واش رومز جن کی ہائجین بھی کسی اچھے ہوٹل سے کم نہیں ہے۔

مریض کو ہر قسم کی سہولیات دی جاتی ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ دولت مند ہے یا غریب۔ اگر علاج کی گنجائش موجود ہے تو بلا تاخیر اور بلا تفریق ان کا علاج شروع کیا جاتا ہے۔ ہمارے روایتی ڈاکٹروں کی طرح نہیں کہ مریض پر تجربے کیے جائیں یعنی پہلے دوائیاں دی جائیں اور بعد میں ٹیسٹ کیے جائیں۔ وہاں پہلے مرض کی مکمل تشخیص کی جاتی ہے پھر جدید طریقے سے علاج شروع کیا جاتا ہے۔ اس تشخیص پر ہی لاکھوں کا خرچہ ہوتا ہے جب کہ علاج کا خرچہ اس کے علاوہ ہے۔

عمران خان صاحب کی سیاسی نا پختگی اپنی جگہ لیکن شوکت خانم ہسپتال کا قیام آپ کی تمام سیاسی خامیوں کو بھی مدھم بنا دیتا ہے۔ جس موذی مرض اور اس کے علاج کے لئے ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا، جس جگہ اور جس جدید طرز پر اس کی تعمیر کروائی، وہ خان صاحب کے جہاں دیدہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے بعد جو نظام وہاں رائج ہے اور جن اصولوں کو بلا تفریق فالو کیا جاتا ہے وہ بھی قابل تحسین ہیں۔

ان خوبیوں کے ساتھ جن چیزوں کی کمی کا مجھے شدت سے احساس ہوا ان کا ذکر بھی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

ایک یہ کہ رات 9 بجے کے بعد ہسپتال کے اندر رہنا اور رات 12 بجے کے بعد ہسپتال کے احاطے میں رہنا ممنوع ہے۔ اس سے دور دراز سے آنے والے خواتین اور بوڑھوں کے لئے بہت سے مسائل ہوتے ہیں۔ اس کے حل کے لئے کوئی لائحہ عمل بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ کم از کم خواتین کو ہسپتال کے اندر بیٹھ کر ہی رات گزارنے کی اجازت دی جائے۔

دوسرا مسئلہ یہ کہ جو ہوٹلز شوکت خانم کے ساتھ ایفیلیئیٹڈ ہیں ان کا معیار بہت ہی خراب ہے۔ اس کے لئے قریب کوئی پناہ گاہ بنانا چاہیے یا پشاور کی طرح لاہور کے شوکت خانم کو بھی کسی یوتھ ہاسٹل کے ساتھ منسلک کرنا چاہیے تاکہ آنے والے مریض سکون سے وہاں رہ سکیں۔

ان دو خامیوں کے باوجود شوکت خانم ہر ایک پاکستانی کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اب کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ بعض مریضوں کو وہ لیتے ہی نہیں ہیں۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان کے اپنے اصول ہیں۔ وہ اس مریض کو نہیں لیتے ہیں جس پر باہر کے ”نیم حکیم ڈاکٹروں اور قصاب خانوں“ نے علاج کے نام پر تجربے کیے ہوں۔ اس لئے سب سے گزارش ہے کہ ان کو چاہیے کہ وہ ایسے حالات سے بچنے کے لئے بروقت شوکت خانم سے رابطہ کریں۔ وہاں امیر اور غریب کا بغیر کسی تفریق کے ایک جیسا علاج ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments