نئے دور کے نئے مسائل


پیچھے بیٹھ کر مشاہدہ کرنا سیکھیں۔ ہر چیز ہر بات پر ردعمل دینے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ہے۔

ہماری صحت چاہے جسمانی، ذہنی یا روحانی ہو اس کی حفاظت اور نشوونما کی مکمل ذمہ داری صرف اور صرف ہمارے اپنے اوپر ہی آتی ہے چوں کہ آج دنیا میں بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ سب کچھ ان ہی کے بارے میں لکھا اور بولا جا رہا ہے، کیوں کہ سوشل میڈیا نے لاکھوں لوگوں کے لیے ایسی چیزیں پوسٹ کرنا بہت آسان بنا دیا ہے جو متنازعہ ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے لیے اس بات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ ذہنی انتشار سے بچنے کے لیے ہم کو غیر دلچسپی رکھنے والا مبصر بننا ہو گا، مطلب یہ ہے کہ ہم کو ان چیزوں پر ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے جو اہم نہیں ہیں یا جو ہم پر براہ راست اثر نہیں ڈال سکتی ہیں۔

سوشل میڈیا کے دور میں انٹرنیٹ پر بہت سے لوگ صرف ردعمل حاصل کرنے کے لیے تبصروں اور توجہ کی تلاش میں واہیات جملوں سے ٹرول کرتے ہیں جس سے ایک ایسی صورت حال پیدا ہو جایا کرتی ہے جہاں ہر چیز ڈرامائی بن جاتی جس کے بعد ہر دوسرا شخص ضرورت سے زیادہ ہی اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں لگ جاتا اور بلاوجہ کی ایک ناخوشگوار اور نا رکنے والا سلسلہ بڑھنا شروع جاتا جس سے بعض اوقات ہمارے اپنے قریبی رشتے تک خراب ہو جایا کرتے ہیں۔ اب اس طرح کی صورتحال سے آخر بچا کیسے جائے؟

اس وقت مجھے ایک چھوٹی سی کہانی یاد آ رہی ہے جو آپ سب کے لیے یہاں پر لکھ رہی ہوں جس سے یقیناً اسے سمجھنے میں کافی آسانی ملے گی۔

میرے دادا مجھے ایک ایسے نامعلوم جزیرے پر لے گئے جہاں ہم نے کافی ساری مچھلیاں پکڑنی تھیں۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ دادا اور میں نے اپنے اپنے لنگر پانی میں چھوڑ دیے پھر دادا مجھے ایک پہاڑی کی طرف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں ایک ایسی جگہ نظر آئی جو کافی پرسکون تھی پھر انہوں نے مجھے ایک چٹان پر بیٹھنے کی ہدایت کی اور ساتھ یہ بولے کہ تم کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اور میرے واپس آنے تک وہیں بیٹھے رہنا۔

میں چٹان پر ہی انتظار کرتا رہا۔ زندگی میں تین بار میں نے سورج کو طلوع ہوتے دیکھا تین بار میں نے چاند کو غروب ہوتے دیکھا، مطلب میں تین دن تک وہیں بیٹھا رہا جہاں دادا نے مجھے بٹھایا تھا۔ آخرکار دادا اپنے کندھے پرایک بھاری سی بوری لادے واپس آئے۔ وہ میرے پاس کھڑے ہو کر آسمان کو دیکھتے پھر مجھے دیکھتے، پھر آسمان کی طرف دیکھتے اور پھر مجھے دیکھتے۔ پھر اس نے اپنے کاندھے پر رکھی بوری نیچے زمین پر رکھ دی آخر میں دادا نے مجھ سے صرف ایک سوال پوچھا ”تم نے کیا دیکھا“ ؟ میرا دماغ ہر طرف دوڑ رہا تھا بہت تیز تیز بتانے لگا کہ میں نے سورج، چاند، پرندے، درخت وغیرہ ان سب کو اس طرف سے آتے اور اس طرف کو جاتے دیکھا جو کچھ حرکات دیکھے اور سننے وہ سب بیان کرنا شروع کر دیا۔ میری باتیں سننے کے بعد دادا کچھ نہیں بولے اور پھر ہم سے واپس آ گئے۔

بیس سال بعد میں وہ جواب ڈھونڈ رہا تھا جو دادا نے مجھ سے اس وقت پوچھا تھا۔ میں اپنے گھر پر تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ماضی میں ڈوبا اس جزیرے پر اس وقت کے بارے میں سوچ کر وہ سب یاد کر رہا تھا کہ اچانک مجھے دادا کے پوچھے ہوئے سوال کا جواب مل گیا کہ ایک ہی بات پر پریشان رہنے اور مسئلہ بنانے سے بہت بہتر ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کو غور سے مشاہدہ کریں، کچھ ہی پل میں ہم کو کسی ایک چیز سے وہ واقعہ یاد آ جائے گا جو ہمارے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments