کیا سزا واقعی یاسین ملک کو ہوئی ہے؟


کشمیر کی آزادی کے زبردست حامی، مقبوضہ کشمیر کے معروف سیاستدان اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ 56 یاسین ملک کو بھارتی عدالت نے مختلف کیسوں میں 2 بار عمر قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ انہیں یہ سزائیں ”یو اے پی اے“ اور انڈین پینل کوڈ کی دفعات 120 B، 124 A کے تحت سنائی گئیں۔ ان پر لگائے جانے والے الزامات میں دہشت گردی کے لئے چندہ جمع کرنا، کشمیر میں بھارت مخالف مہم چلانا اور افراتفری پھیلانا شامل ہے۔

بھارتی عدالت کے اس فیصلہ کو دنیا بھر میں نمایاں کوریج ملی ہے اور اس بھارتی فیصلہ کی مذمت کی جا رہی ہے۔ عالمی کشمیری تنظیموں کے مطابق عدالت نے فیصلہ سنایا ہے، انصاف نہیں کیا۔ فیصلہ سے قبل عدالت نے ان سوالات کے جوابات دینے سے انکار کر دیا تھا جو یاسین ملک نے عدالت کے سامنے رکھے تھے۔ انہی سوالات کی بنیاد پر ان کی رہائی کی مہم چلائی جا سکتی ہے، کیونکہ ان سوالات کے اندر لاجک دکھائی دیتی ہے۔

یاسین ملک کو یہ سزا 25 مئی کو سنائی گئی تھی جب پاکستان بھر میں تحریک انصاف کا آزادی مارچ اور دھرنے کا شور مچا ہوا تھا، اسی شور شرابے میں یاسین ملک کی اہلیہ اور کم سن بیٹی کی فریاد بھی نہ سنی گئی، یوں سزا محض خبر ہی بن سکی۔ اب جب کہ بھارتی عدالت نے سزا سنا دی ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ سزا یاسین ملک کو ہوئی ہے؟ نہیں، حقیقت میں یہ سزا ان سب کو ہوئی ہے جو یہ دعویٰ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ہم 72 سال سے کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس سزا نے ثابت کر دیا ہے کہ واقعی سب کھڑے ہی تھے، تبھی یہ سزا مل گئی۔ اگر کچھ ہل جل کر رہے ہوتے، کچھ بھاگ دوڑ کی ہوتی، شور مچایا ہوتا تو شاید کچھ فائدہ یاسین ملک کو ہو جاتا لیکن ہم نے شانہ بشانہ ساتھ کھڑے رہنے کی رویت برقرار رکھی۔ بد قسمتی سے پوری قوم کا بس ایک ہی وتیرہ رہا ہے کہ سانحہ اور وقوعہ ہو جانے کے بعد خود ساختہ بیانات کی بھرمار کرنا، جلسے، جلوس، مظاہرے کرنا، سفارت خانوں کے آگے جاکر تصاویر بنوا لینا اور بس۔

5 اگست 2019 کو جب اس سزا سے بھی بڑا وقوعہ ہوا تھا اور بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے من مانی کر ڈالی تھی تب بھی یہی کچھ کیا گیا اور نتیجہ کچھ نہ نکلا تھا، بالآخر سب ٹھنڈے پڑتے چلے گئے۔ اب یاسین ملک کو سزا ملی تو بھی ردعمل اور جوش چند ہفتوں تک رہے گا پھر ختم اور سزا اکیلا یاسین ملک کو بھگتنی ہے۔ بھارتی عدالت نے تو اپنے قانون اور رواج کے مطابق اس کو سزا دینی ہی تھی اور دے دی، اہم سوال یہ ہے کہ ہم نے اس کو اس سزا سے بچانے کے لئے کیا کیا؟ پچیس مئی کا لانگ مارچ، دھرنا ملتوی کرنا گوارا نہ کیا اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں؟ کشمیر کے حوالے سے ہماری سنجیدگی کا عالم دیکھنا ہے تو کشمیر کمیٹی کے چیئرمینوں کی تقرریوں کو دیکھ لیں، کن کن ”فن کاروں“ کو بناتے رہے ہیں۔ اس کا انجام پھر یہی نکلنا تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری حمایت، ہمارے مظاہروں، جلسوں اور جلوسوں سے مسئلہ کشمیر اور خود یاسین ملک کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ یہ مسئلہ سڑکوں کے ذریعے ہونے والا نہیں تھا۔ بلکہ عالمی سطح پر نیٹ ورکنگ، لابنگ کے ذریعے اقوام متحدہ کے اندر لڑنے والا تھا۔ پاکستان نے یو این او میں کشمیر کے حق میں جو قرار دادیں منظور کرا رکھی ہیں، کیا وہ سڑکوں پر مظاہروں کے نتیجہ میں منظور ہوئیں تھیں؟ پاکستان آج بھی ان قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔

مجھے جرمنی میں پانچ سال سے ایک اخبار کی رپورٹنگ کرنے کے مواقع مل رہے ہیں، اس دوران فرینکفرٹ میں کشمیر سے متعلق ریلیوں، مظاہروں کی کوریج کے مواقع بھی ملے اور کی۔ اس دوران یہاں مقیم کمیونٹی کے مابین اس مسئلہ پر جس طرح کے مسائل دیکھنے کو ملے تھے ان میں آپس کے اختلافات، متفقہ قیادت کا بحران، چوہدراہٹ کا مسئلہ اور سنجیدگی کا شدید فقدان شامل ہے۔ چند دن پہلے پاکستانی صحافیوں کے گروپ میں اسی موضوع پر بات چل نکلی تو انکشاف ہوا کہ جرمنی، یورپ میں مقیم جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے کشمیری لوگ ہمارے مظاہروں، جلسوں میں شامل ہی نہیں ہوتے بلکہ دور بھاگتے ہیں اور ہم پاکستانیوں کو ایک ”مسئلہ“ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

مجھے یہ سب سن کر شدید حیرت ہوئی تھی۔ 5 اگست 2019 کے المیہ کے بعد بھی دنیا نے ہماری ایک نہیں سنی تھی اور مجبوراً اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ”دنیا ہماری نہیں سنتی، کیونکہ ہم ایک کمزور ملک ہیں، معیشت ہیں“ ۔ اب جب کہ یاسین ملک کو سزا مل چکی تو اب کون ہمارے احتجاج کو سنے گا؟ ہم نے تو کسی کے ساتھ سیاسی اور معاشی بنیاد پر بنا کر رکھی نہیں۔ قرضہ کی بنیاد پر ہمارے تعلقات قائم ہیں۔

بھارت ایک بڑی معیشت ہے تو کون اس کے خلاف ہمارا ساتھ دے گا؟ نہ 2019 میں دیا، نہ اب 2022 میں دے گا۔ ہم خود پاکستان کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہیں، دوست کم، اک دوجے کے دشمن زیادہ ہیں تو غیروں سے کیا توقع رکھنی ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دے گا مذہب کے نام پر پاکستان کے اندر پہلے ہی دہائیوں سے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا، اب اس سے کہیں برا حال سیاست کے اندر دیکھنے کو مل رہا ہے ان حالات میں اس سزا کے خلاف کون سا ملک ہمارے احتجاج کو سنجیدہ لے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments