انقلاب کا یو ٹرن

عاصمہ شیرازی - صحافی


حالات اور واقعات بدلتے کتنی دیر لگتی ہے، اقتدار کی سیڑھی کے لیے کندھے تو استعمال کیے جا سکتے ہیں لیکن سر استعمال نہیں ہو سکتے۔ تحریک انصاف نے اپنی سیاست میں کندھوں کے ساتھ سر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور سر بھی وہ جو کسی کو سردار بننے نہیں دیتے۔

یہ فیصلہ گذشتہ سینٹ انتخابات میں ہو چکا تھا کہ اب سیاسی غلطیوں کا بوجھ ادارہ نہیں اُٹھا پائے گا۔ یہ جملہ کچھ ماہ پہلے کے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ناکامی بانجھ ہوتی ہے کیونکہ اُس کی کوئی سانجھ نہیں ہوتی تاہم حکمرانی کی ناکامی نے پانچ سال کا سبق فقط چند ماہ میں ہی کھول کر رکھ دیا۔

پنجاب میں عثمان بُزدار کی حکومت اور اُن کے گرد چند متنازع کرداروں کی نشاندہی پہلی دراڑ ثابت ہوئی تو دوسری دراڑ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے تنازع نے ڈالی۔ ادارے کو من مانے طریقے سے چلانے، من پسند تعیناتیوں اور تقرریوں سے قابو کرنے کی خواہش نے یہ دراڑ مزید گہری کر دی۔

مقتدر حلقے کبھی ناراض اراکین سے اعتماد کے ووٹ اور کبھی بجٹ کی منظوری کے لیے استعمال ہوتے رہے مگر نتیجہ دھاک کے تین پات یعنی کارکردگی اور عالمی سطح پر پاکستان کی تنہائی کی صورت مسلسل نکل رہا تھا۔ یہاں تک کہ مقتدر حلقے عوامی دباؤ کا شکار ہونے لگے۔

تحریک عدم اعتماد تک کسی بھی امریکی سازش اور خط کا تذکرہ موجود نہ تھا۔ عدم اعتماد کی تحریک سیاست دانوں اور خاص طور پر پیپلز پارٹی کا ’برین چائلڈ‘ تھی، سیاسی جماعتوں نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ لگانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس بات کی یقین دہانی کے بعد کہ ات اُن کے لیے سازگار ہیں یعنی مقتدر حلقے غیر سیاسی ہو رہے ہیں۔۔۔ اس موقع کو غنیمت سمجھا گیا۔

یہ تفصیلات اب نہ تو کوئی راز ہیں اور نہ ہی انکشافات بلکہ یہ زبان زد عام ہے کہ ’نیوٹرلز‘ کو بار بار اپنے حق میں مداخلت کے لیے درخواست کی گئی یہاں تک کہ طاقت ور حلقوں کی اہم ترین شخصیت کو بُلایا گیا اور عدم اعتماد واپس لینے کی صورت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا وعدہ کیا گیا مگر حزب اختلاف کی دس سیاسی جماعتوں نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔

اس موقع پر ن لیگ کے چند سرکردہ راہنما اس حمایت میں تھے کہ انتخابات کی تاریخ لے کر عدم اعتماد واپس لی جائے تاہم اپوزیشن کی اکثریت نے اس معاملے پر انکار کر دیا اور یوں ’مصالحت‘ کرانے والے آخری کوشش کو اللہ کی مرضی قرار دے کر گھر روانہ ہو گئے۔

کہانی میں سازشی خط کا موڑ جہاں بھی آیا اور جس نے بھی لایا اُس کے دماغ کے اختراع کو داد دینا تو بنتی ہے۔ سماجی رابطے کے پلیٹ فارم، جلسے اور ٹی وی خطاب بیانیے کو دو چند کر رہے تھے تو دوسری جانب ’خاموش انقلاب‘ کے خاموش مجاہد تحریک میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ بہرحال خان صاحب بنی گالہ سے پشاور کُوچ کیے اور انقلاب کی تیاری کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عوام کو پکارنے لگے۔

تقریروں کا موضوع کبھی ریاستی ادارے تو کبھی پرانے چور، ڈاکو۔ اُدھر بیانیہ ’سوشل میڈیا‘ پر سر چڑھ کر بول رہا تھا اور اِدھر پچیس لاکھ لوگوں کی اسلام آباد آمد کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا۔ مگر چشم فلک نے دیکھا کہ انقلاب پختونخوا سے ہی ہیلی کاپٹر پر اُڑا اور ’اسلامی ٹچ‘ دیتا ہوا اسلام آباد میں بیچ چوراہے پھوٹ پڑا۔

جلاؤ، گھیراؤ اور مار ڈالو کے نعرے لگانے والے یہیں کہیں انقلاب کی راہ میں گُم ہو گئے اور پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے چند ایک راہنما ہی دن بھر کی خبروں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ہاں البتہ شام پھر عدالت عظمیٰ کی بدولت متحرک ہوئی مگر شعلوں سے بھری اس شام نے تحریک انصاف کے بیانیے کو بھی کافی حد تک جلا دیا۔

اُدھر انتخابات کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھنے والی کمزور اتحادی حکومت کو ’طاقت کا انجیکشن‘ لگا تو فیصلہ آئینی مدت پوری کرنے کی صورت نکلا۔ پنجابی میں کہتے ہیں کہ کُبے کو ٹانگ پڑی اور اُس کا کُب دور ہو گیا۔۔۔ یعنی جو ضمانتیں لی اور دی جا سکتی تھیں وہ طے پائیں اور معاملات آگے بڑھنے لگے۔

تحریک انصاف کے آزادی مارچ کی ناکامی کے اسباب میں جہاں تنظیمی سطح کی کمزوریاں تھیں وہیں سیاسی طور پر اپنے تمام پتے پہلے ہی شو کر دینا بھی تھا۔ تحریک انصاف نے نہ صرف اپنی تمام توانائیاں کھیل کے پہلے حصے میں ہی صرف کر دیں بلکہ اپنے تمام پتے بھی شروع میں ہی کھیل لیے۔

اداروں کے خلاف محاذ آرائی مہم سے لے کر میڈیا کے خلاف جنگ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے لے کر جماعتی اختلاف تک کے تمام مراحل ’بخوبی‘ اور ’کم ترین وقت‘ میں طے کر لیے گئے اور اب بچے کُھچے بیانیے کو بچانے کی جنگ میں اسمبلیوں کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھونے کا احتمال ہے۔

اتحادی حکومت تحریک انصاف کے استعفوں کا مرحلہ شروع کر رہی ہے۔ اسمبلی کے فلور پر تقاریر کے دوران مستعفی ہونے والوں کے استعفوں کی منظوری کا امکان ہے جبکہ باقی اراکین سے تصدیق کے بعد استعفے منظور کیے جائیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ تصدیق کے لیے ’غیرحاضر‘ ہونے والوں کی تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

تحریک انصاف غلطیوں سے سیکھے گی اور ایوان میں واپس آئے گی یا سوا سال سڑکوں پر احتجاج ہی کرتی نظر آئے گی۔ طاقت کے مرکز کی طرف رجوع اور شُنوائی کن شرائط پر ہو گی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں بقول شاعر۔۔۔

کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے

اب بھی تحریک انصاف کے پاس عوام کی حمایت تو کسی حد تک موجود ہے تاہم پارٹی اندرونی بحران کا شکار اور منقسم ہے۔

جماعت کے سر سے ’سایہ‘ اور ’مایا‘ دونوں ہی اُٹھ چکے ہیں جبکہ مخلص راہنما پہلے ہی غیر منتخب مشیروں کے ہاتھوں عزت بچاتے دیوار سے لگ چکے ہیں۔ انتخابات میں صرف ووٹ نہیں سپورٹ اور چہرے بھی درکار ہیں جبکہ یہاں سب داؤ پر لگ چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments