’گنگا جل‘: پولیس کے ہاتھوں 33 ملزموں کو اندھا کرنے کا واقعہ جس سے انڈیا کی عالمی سطح پر سبکی ہوئی

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


بھاگلپور کا بدنام زمانہ آنکھ پھوڑنے والا واقعہ
سنہ 1980 میں جب انڈیا کی شمال مشرقی ریاست بہار کے ضلع بھاگلپور میں آنکھوں کی بینائی سے محروم کیے جانے والے افراد کی تصاویر پہلی مرتبہ شائع ہوئیں تو اس نے عوام کو بُری طرح ہلا کر رکھ دیا تھا۔

کچھ پولیس اہلکاروں نے فوری انصاف کرنے کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور 33 ملزمان کی لوگوں کی آنکھیں تیزاب ڈال کر ضائع کر دیں۔ بعد میں اس واقعے پر ’گنگا جل‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی۔

معروف صحافی اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری کی حال ہی میں سوانح عمری ’دی کمشنر فار لوسٹ کازز‘ شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے اس واقعے کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ خیال رہے کہ اس خبر کو سب سے پہلے اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے بریک کیا تھا۔

شوری یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’نومبر 1980 میں ہمارے (دی انڈین ایکسپریس) پٹنہ کے نامہ نگار ارون سنہا کو پتا چلا کہ بھاگلپور میں پولیس اور عام لوگ مل کر جیل میں قیدیوں کی آنکھوں میں تیزاب ڈال کر اُن کو اندھا کر رہے ہیں۔ جب انھوں نے اس بارے میں دریافت کرنے کے لیے آئی جی (جیل) ) سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس بارے میں کوئی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔‘

جیل سپرنٹنڈنٹ بچو لال داس نے راز فاش کر دیا

ارون سنہا بعد میں گوا کے اخبار ’نوہند ٹائمز‘ کے ایڈیٹر بنے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں بھاگلپور جیل کے سپرنٹنڈنٹ بچو لال داس سے ملا تو وہ شروع میں بہت محتاط تھے۔ وہ نابینا قیدیوں کے بارے میں میرے سوالوں کا جواب دینے میں ہچکچا رہے تھے۔ لیکن جب انھوں نے یہ جانچ کر لی کہ میں کون ہوں اور میں اصل میں انڈین ایکسپریس کے لیے کام کرتا ہوں اور اس سے پہلے میں نے کس قسم کی خبریں دی ہیں، تو وہ مجھ سے بالکل کھل کر بات کرنے لگے۔‘

اس واقعے کو 40 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ارون سنہا ابھی تک بچو لال داس کو نہیں بھول سکے۔

سنہا کہتے ہیں: ’وہ بہت بہادر افسر تھے۔ میں انھیں ہمیشہ بڑے احترام کے ساتھ یاد رکھوں گا کیونکہ جس دن سے انھوں نے مجھے وہ تمام باتیں بتائیں، میں دیکھ سکتا ہوں کہ وہ ایک خالص باضمیر آدمی تھے۔ عام طور پر ان جیسے سرکاری افسر نہیں پائے جاتے۔ یہی نہیں وہ بے خوف بھی تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اس وقت سامنے آئی جب حکومت نے انھیں معطل کر دیا اور انھوں نے حکومت کی طاقت کا بھرپور طریقے انداز میں بہادری سے مقابلہ کیا۔‘

’بعد ازاں کافی کوشش کے بعد انھیں ان کی نوکری پر بحال کر دیا گیا۔ اپنا پورا کریئر داؤ پر لگا کر انھوں نے مجھے ایسی دستاویزات دکھائیں، جن سے یہ واضح ہو گیا کہ کہیں نہ کہیں پولیس اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہے۔‘

ٹکوے سے آنکھیں پھوڑ کر تیزاب ڈالا جاتا

میں نے ارون شوری سے پوچھا کہ ان قیدیوں کو اندھا کیسے کیا گیا تو شوری نے جواب دیا: ‘ان لوگوں کو پکڑ کر تھانے لے جایا گیا جہاں پولیس والے انھیں باندھ کر زمین پر گرا کر ان کے اوپر بیٹھ جاتے تھے۔ کچھ پولیس والے اس کی ٹانگیں اور بازو پکڑ لیتے تھے۔ پھر بوری پر سلائی کرنے والی تیز، لمبی سوئی جسے ’ٹکوا‘ کہتے ہیں اسے اس کی آنکھوں میں چبھا دیا جاتا تھا۔ ایک نام نہاد ’ڈاکٹر صاحب‘ آتے تھے جو پھوٹی ہوئی آنکھ پر تیزاب ڈالتے تھے تاکہ یہ یقین دہانی کی جا سکے کہ ملزم کو بالکل کچھ نظر نہ آئے۔‘

ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جب نابینا کیے جانے والے سات قیدی ایک کمرے میں پڑے تھے۔ اسی وقت ایک ڈاکٹر اندر آئے۔ ارون شوری کہتے ہیں: ’انھوں نے بہت پیاری آواز میں ان قیدیوں سے پوچھا، کیا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے؟ قیدیوں کو کچھ امید پیدا ہوئی کہ شاید ڈاکٹر کو اپنی حرکت پر افسوس ہو رہا ہے اور شاید وہ ہماری مدد کرنے آیا ہے۔‘

’دو قیدیوں نے کہا کہ وہ تھوڑا سا دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سُن کر ڈاکٹر کمرے سے چلا گیا۔ اس کے بعد دونوں قیدیوں کو ایک ایک کر کے کمرے سے باہر لے جایا گیا۔ وہاں اس کی آنکھوں سے روئی ہٹانے کے بعد اسے ایک بار پھر پھوڑ کر اس میں تیزاب ڈال دیا گیا۔ یہ سلسلہ جولائی سنہ 1980 سے جاری تھا۔ پولیس والے تیزاب کو گنگاجل کے نام سے پکارتے تھے۔‘

ایک متاثرہ کے رشتہ دار

ایک متاثرہ شخص کے رشتہ دار

امیش یادو اور بھولا چودھری کی آپ بیتی

نابینا کیے جانے والے افراد میں امیش یادو بھی شامل تھے۔ وہ ابھی تک زندہ ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 66 سال ہے اور وہ بھاگلپور کے کوپا گھاٹ گاؤں میں رہتے ہیں۔

یادیو نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمیں پولیس پکڑ کر کوتوالی لے گئی۔ وہاں اس نے ہماری دونوں آنکھوں میں خالص تیزاب ڈال کر ہمیں اندھا کر دیا۔ بعد میں ہمیں بھاگلپور سینٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ وہاں جیل سپرنٹنڈنٹ داس صاحب نے ہمارا بیان تیار کر کے سپریم کورٹ کے وکیل ہنگورانی صاحب کو بھیجوا دیا تھا۔ ان کی ہی کوششوں سے پہلے ہمیں 500 روپے ماہانہ پنشن ملنا شروع ہوئی جو بعد میں بڑھ کر 750روپے ہو گئی۔ لیکن کبھی وہ دو ماہ بعد ملتی ہے اور کبھی چار ماہ بعد۔ مجموعی طور پر 33 افراد اس ظلم کا نشانہ بنے جن میں سے 18 افراد تاحال زندہ ہیں۔‘

براری کے رہائشی بھولا چودھری کہتے ہیں: ’پولیس نے پہلے ہماری آنکھوں میں ٹکوے سے سوراخ کیے اور پھر اس میں تیزاب ڈال دیے۔ یہ ہم نو لوگوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔‘

پولیس کا خیال تھا کہ یہ جرائم پر قابو پانے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔

بعد میں جب ارون سنہا نے مزید تفتیش کی تو پتہ چلا کہ جگن ناتھ مشرا کی کابینہ کے کم از کم ایک رکن کو پچھلے چار مہینوں سے اس مہم کا علم تھا اور اس نے پولیس کو اس بارے میں خبردار بھی کیا تھا۔ لیکن بھاگلپور کے پولیس افسران نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ یہ ضلع میں امن و امان برقرار رکھنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔‘

ارون سنہا نے بھاگلپور کے پولیس افسران سے ملاقات کی تو انھوں نے واضح کیا کہ یہ کام پولیس نہیں بلکہ وہاں کے عوام کر رہے ہیں اور یہ کہ ان نام نہاد قاتلوں، ڈاکوؤں اور عصمت دری کرنے والوں کے لیے آنسو بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ارون سنہا پٹنہ واپس آئے اور رپورٹ فا‏‏ئل کی۔ ان کی رپورٹ انڈین ایکسپریس کے 22 نومبر 1980 کے شمارے کے صفحہ اول پر شائع ہوئی، جس کا عنوان تھا ’آئیڑ پنکچرڈ ٹوائس ٹو نشیور بلائنڈنس‘ یعنی نابینا ہونے کی یقین دہانی کے لیے آنکھیں دو مرتبہ پھوڑی گئیں۔

عوام پولیس کی حمایت میں سڑکوں پر آ گئے

ارون سنہا کہتے ہیں: ’اس رپورٹ کی اشاعت سے میری جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ عام لوگ پولیس کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس نے صحیح کام کیا ہے۔ رپورٹنگ کے لیے مجھے فرضی شناخت کے ساتھ بھاگلپور جانا پڑ رہا تھا۔ پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا تو وہ لوگ بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ سول انتظامیہ کے لوگ بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس وقت یہ ایک بہت ہی عجیب شکل اختیار کر گئی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں: ’بھاگلپور کی پوری ایلیٹ کلاس ان کے ساتھ تھی۔ اعلیٰ عہدیدار، اعلیٰ ذات والے اور حتیٰ کہ وکلا، طلبہ اور نام نہاد صحافی بھی پولیس والوں کے ساتھ تھے۔ انھوں نے ضلع مجسٹریٹ کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کیا اور نعرے لگائے کہ یہ پولیس اہلکار بے قصور ہیں۔ ‘

’اس وقت پورے بھاگلپور میں ’پولیس جنتا بھائی بھائی‘ کے نعرے لگ رہے تھے۔ ہمیں کافی مدد ملنے کی وجہ یہ تھی کہ پولیس میں بھی دو دھڑے بن چکے تھے۔ ایک طبقہ اس سارے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جب کہ دوسرا طبقہ جو انسانی حقوق کا تھوڑا سا شعور رکھتا تھا، ہمیں پولیس والوں کے سیاہ کارناموں کی ہر خبر دے رہا تھا۔ لیکن اکثر پولیس والوں کی لائن تھی کہ یہ ظلم ہم نے نہیں عوام نے کیا ہے۔‘

پولیس تھیوری پر سوالات

جب یہ معاملہ عام ہوا تو وزیر اعلیٰ جگن ناتھ مشرا اور ڈی آئی جی (ایسٹرن رینج) نے اس کے لیے عام لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ارون شوری پوچھتے ہیں کہ ’اگر عام لوگ اس کے ذمہ دار تھے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس تیزاب کہاں سے آیا؟ کیا بھاگلپور کے لوگ ہاتھوں میں ٹکوا اور تیزاب لے کر گھوم رہے تھے؟ کیا لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ لوگ کہاں اور کب پکڑے جائیں گے اور وہ وہاں تیزاب اور ٹکوا لے کر تیار رہتے تھے؟ مجرموں نے پکڑے جانے پر لوگوں کے خلاف اپنے ہتھیار کیوں استعمال نہیں کیے؟ اگر عام لوگ مجرموں کو اندھا کر دیتے ہیں تو پولیس انھیں کیوں نہیں پکڑتی؟ کیا انھوں نے اس قسم کے واقعے کا کوئی گواہ تلاش کرنے کی کوشش کی؟‘

جیل سپرنٹنڈنٹ داس کی معطلی

حکومت نے صرف ایک کام کیا اور وہ تھا جیل سپرنٹنڈنٹ داس کو معطل کرنا۔ ان پر الزام تھا کہ جب وہ جیل پہنچے تو انھوں نے جیل رجسٹر میں نابینا افراد کے بارے میں صحیح اندراج نہیں کیا اور نہ ہی ان لوگوں کے علاج معالجے کا کوئی مناسب انتظام ہی کیا۔ لیکن ان کا اصل جرم یہ تھا کہ انھوں نے ارون سنہا کو نابینا لوگوں سے ملوایا تھا۔

ان کی معطلی کے حکم نامے میں لکھا گیا تھا کہ ’انھوں نے انتظامیہ کو اس بارے میں رپورٹ نہیں کی اور اخبارات کو اندھا کرنے کے بارے میں اپنا ورژن پیش کیا۔‘

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اخبار کے ذریعے لوگوں کو اس کا علم ہونے سے پہلے ہی بہار پولس کے اعلیٰ حکام کو اس کا علم ہو چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’اگر انڈیا میں ہندوؤں کو اس طرح دکھایا جائے تو پولیس کارروائی نہیں کرے گی‘

انڈیا: پولیس نے ’موت کے سوداگر‘ کو ہلاک کر دیا

ریپ کے ملزم کی موت: ’آپ سڑکوں کو قتل کے میدان میں بدل کر ریپ کو نہیں روک سکتے‘

ارون شوری بتاتے ہیں کہ ’جولائی 1980 میں ڈی آئی جی (ایسٹرن رینج) گجیندر نارائن نے ڈی آئی جی (سی آئی ڈی) سے درخواست کی کہ ایک تجربہ کار پولس انسپکٹر کو بھاگلپور بھیج کر اس کی تحقیقات کرائیں۔ اس انسپکٹر نے گجیندر نارائن کو رپورٹ دی کہ پولیس والے منصوبہ بندی کے ساتھ مشتبہ مجرموں کو زبردستی اندھا کر رہے ہیں۔‘

’انسپکٹر نے پٹنہ واپس آکر ڈی آئی جی (سی آئی ڈی) ایم کے جھا کو وہی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ پر کارروائی کرنے کے بجائے افسران نے انسپکٹر پر رپورٹ تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ ذرائع نے سنہا کو بتایا کہ انھیں بھیجنے والے ڈی آئی جی نے کہا کہ انسپکٹر کو فوری طور پر ہیڈ کوارٹر واپس بلایا جائے۔‘

متاثرین

متاثرین

ڈاکٹروں نے علاج کرنے سے انکار کر دیا

جولائی 1980 میں بھاگلپور جیل میں مقیم 11 انڈر ٹرائل قیدیوں نے محکمہ داخلہ کو ایک درخواست بھیجی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ یہ درخواست فارم جیل سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے آگے بڑھائی گئي تھی۔ جب یہ باتیں منظر عام پر آئیں تو اس پر عمل کرنے کے بجائے بھاگلپور جیل کے سپرنٹنڈنٹ داس پر ان قیدیوں کی درخواستیں لکھنے میں مدد کرنے کا الزام لگایا گیا۔

ستمبر 1980 میں انسپکٹر جنرل آف پولیس (جیل خانہ) نے بھاگلپور کی ذیلی بانکا جیل کا معائنہ کرنے اور تین نابینا قیدیوں سے ملاقات کے بعد محکمہ داخلہ سے انکوائری قائم کرنے کی درخواست کی، لیکن محکمہ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ نابینا افراد کو بھاگلپور میڈیکل کالج لے جایا گیا تو وہاں کے ڈاکٹروں نے ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے بھاگلپور جیل کی درخواست کو بھی قبول نہیں کیا کہ وہاں ایک ماہر امراض چشم کو تعینات کیا جائے۔

مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت کا معاملہ بتا کر اپنا دامن بچایا

جیسے ہی یہ خبر پھیلی مرکزی وزیر وسنت ساٹھے نے کہا کہ ’انڈین ایکسپریس‘ اخبار پولیس کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن آچاریہ کرپلانی نے ایک جلسہ عام کر کے اس پورے آپریشن کی سخت مذمت کی۔ جب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا تو حکومت نے ابتدا میں یہ کہہ کر اسے ختم کرنے کی کوشش کی کہ جو کچھ بھی ہوا وہ افسوسناک ہے لیکن چونکہ امن و امان ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اس لیے اس پر غور کرنے کی مناسب جگہ اسمبلی ہے نہ کہ پارلیمنٹ۔

اس پورے واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ وہ یقین نہیں کر پا رہی ہیں کہ آج کے دور میں ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔

مرکزی حکومت نے بہار حکومت کو ہدایت دی کہ پٹنہ ہائی کورٹ سے درخواست کی جائے کہ وہ ضلع جج کے خلاف کارروائی کرے جس نے ان نابینا قیدیوں کو قانونی امداد فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ 33 نابینا افراد کو 15000 روپے کی امداد دی جائے گی تاکہ وہ اس سے حاصل ہونے والے سود سے اپنا گزر بسر کر سکیں۔

وزیر داخلہ گیانی زیل سنگھ نے متاثرین کے اہلخانہ سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کو نہ بڑھائیں کیونکہ اس سے بیرون ملک انڈیا کی بدنامی ہو گی۔

کشمیر

سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا

اس پورے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ان تمام متاثرین کی دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں جانچ کرانے کا حکم دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت ان لوگوں کو پہنچنے والے جسمانی نقصان کو واپس لانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی لیکن ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کبھی ایسا ظلم نہ دہرایا جائے۔

ارون شوری بتاتے ہیں: ’بہار حکومت نے اس کام میں شامل پولیس افسران کی شناختی پریڈ کروائی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ کچھ کر رہے ہیں اور جو لوگ مکمل طور پر نابینا تھے، ان کو ان پولیس افسران کی شناخت کرنے کو کہا گیا جنھوں نے انھیں اندھا کیا تھا۔‘

اس کے بعد انھوں نے 15 پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا۔ لیکن تین ماہ کے اندر اندر ہر فرد کی معطلی کا حکم واپس لے لیا گیا۔ کچھ اعلیٰ افسران کے تبادلے کیے گئے۔ بھاگلپور شہر کے ایس پی رہنے والے افسر کو رانچی کا ایس پی بنا دیا گیا۔ بھاگلپور ضلع کے ایس پی کے ساتھ ایک اور شخص کو مظفر پور کا ایس پی بنایا گیا۔

پولیس کے اعلیٰ افسران کو پہلے ہی اہم عہدوں پر بھیج دیا گیا تھا۔ ڈی آئی جی (سی آئی ڈی) کو بہار ملٹری پولیس کا سربراہ بنایا گیا اور ڈی آئی جی (بھگلپور) کا تبادلہ ڈی آئی جی (ویجلینس) کے اہم عہدے پر کر دیا گیا۔

جب ارون شوری نے دہلی میں بہار کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا سے ملاقات کی تو انھوں نے ان سے پوچھا: ’مشرا جی، آپ کی حکومت امن و امان کو کنٹرول نہیں کر سکی۔ یہاں سب کا کہنا ہے کہ آپ استعفیٰ دے دیں۔‘

مشرا کا جواب تھا: ’شوری صاحب، میں استعفیٰ کیوں دوں؟ میں نے اخلاقی ذمہ داری تو لے ہی ہے ناں؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments