گوجرانوالہ میں چوری کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں نوجوان کا قتل

احتشام احمد شامی - صحافی، گوجرانوالہ


وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک مبینہ بے گناہ شہری کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا ہے۔

منظر عام پر سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں ایک 28 سالہ شخص کو تشدد کرنے والوں کی منتیں کرتے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے مگر لوگ پھر بھی اس شخص پر تشدد کیے جا رہے ہیں۔

اب پولیس نے تشدد کے الزام میں 14 شہریوں کو حراست میں لے لیا ہے جن میں اس پیٹرول پمپ کا مالک بھی شامل ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا جبکہ فرائض سے غفلت برتنے اور مشتعل افراد کے ہاتھوں زخمی شہری کو بروقت ہسپتال نہ پہنچانے پر تین پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی الگ سے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ گوجرانوالہ پولیس کے سربراہ سید حماد عابد نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری جائے وقوعہ پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے کی گئی اور ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مقتول کباڑ کا کام کرتا تھا اور اس کا کوئی کریمینل ریکارڈ بھی نہیں ملا۔

’میں چور نہیں، مجھے مت مارو‘

گھوڑے شاہ کے رہائشی محمد اشرف کباڑ کا کام کرتے تھے۔ وہ شہر کے مختلف علاقوں سے سکریپ اکٹھا کرتے اور اُنھیں بیچ کر گزر بسر کرتے اور یہی ان کا کُل ذریعہ معاش تھا۔

منگل کو محمد اشرف معمول کے مطابق کباڑ کا سامان خرید کر اپنی دکان کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک ان کی موٹر سائیکل میں پیٹرول ختم ہو گیا اور یہیں سے ان کی بدقسمتی کا آغاز ہو گیا۔

محمد اشرف کے بھائی شوکت علی نے پولیس کو بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مزید بتایا کہ اُن کے بھائی نے پیٹرول پمپ کے احاطے میں اپنی موٹر سائیکل کھڑی کی اور باتھ روم کی طرف چلے گئے۔

جب وہ واپس آئے تو وہاں چار پانچ موٹر سائیکلیں کھڑی تھیں۔ محمد اشرف نے شاید غلطی سے اپنی موٹر سائیکل کے بجائے کسی دوسری موٹر سائیکل کو ہاتھ لگایا تو وہاں کھڑے افراد نے چور چور کہہ کر اُنھیں دبوچ لیا اور مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔

محمد اشرف نے لوگوں سے کہا کہ اُن کی موٹر سائیکل بھی وہیں کھڑی ہے لیکن کسی نے ان کی بات نہ مانی۔ اس دوران قریبی ٹائر شاپ سے مزید لڑکے وہاں آ گئے اور اُنھوں نے بھی محمد اشرف پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔

ایف آئی آر کے مطابق پیٹرول پمپ کے ملازمین، وہاں موجود ڈرائیورز اور قریبی دکانوں کے لڑکوں نے کسی بات کی تصدیق کیے بغیر محمد اشرف کو بری طرف تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس دوران وہ کہتے رہے کہ وہ چور نہیں ہیں۔ پھر زخمی اشرف کو مزدا وین کے ساتھ باندھ دیا گیا اور سب لڑکے باری باری جوتوں، مکوں، آہنی راڈوں اور لاتوں سے ان پر تشدد کرتے رہے۔

’نیم بے ہوش ہو جانے پر کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ ڈرامے کر رہا ہے، پھر محمد اشرف کے ہاتھ پیر باندھ دیے گئے اور ان کو گھسیٹتے ہوئے پیٹرول پمپ کے دفتر کے اندر لے گئے جہاں پمپ مالک کے موجودگی میں ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔‘شوکت علی بے بتایا کہ اس دوران وہاں موجود کسی شہری نے ریسکیو 15 پر اطلاع کر دی کہ ہم نے چور پکڑا ہے، آ کر اسے گرفتار کر لیں۔

تھانہ اروپ کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر وحید اللہ اور دو کانسٹیبل وہاں پہنچے۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اے ایس آئی نے کوئی تحقیق کیے بغیر زخمی اشرف کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا اور گالیاں دیں۔ اشرف نے پولیس اہلکاروں کی بھی منت سماجت کی لیکن ان کی بات نہیں سُنی گئی۔

پولیس اہلکاروں نے اشرف کو پولیس وین میں ڈالا اور ہسپتال لے جانے کے بجائے تھانے لے گئے جہاں وہ گاڑی میں ہی تڑپتے رہے اور پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔

’پولیس اہلکار گاڑی کھڑی کر کے کھانا کھاتے رہے‘

اس واقعے کے بعد مار پیٹ کرنے والے 14 افراد کی شناخت پیٹرول پمپ پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے کی گئی جس پر اُنھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ملزمان کے خلاف قتل کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

پولیس اہلکاروں کی مبینہ لاپرواہی پر ایس ایچ او اروپ کی مدعیت میں اے ایس آئی وحید اللہ سمیت تینوں اہلکاروں کے خلاف پولیس ایکٹ کی شق 155 سی کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس کے تحت ان اہلکاروں کو ملازمت سے برطرفی کے ساتھ ساتھ دو سے پانچ سال تک قید کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پولیس ملازمین کے خلاف درج ایف آئی آر میں ایس ایچ او انسپکٹر گوہر عباس بھٹی کا کہنا ہے کہ جب پولیس ملازمین نے محمد اشرف کو پکڑا اس وقت وہ زخمی حالت میں تھے لیکن پولیس ملازمین مضروب محمد اشرف کو بروقت طبی امداد کے لیے سول ہسپتال لے کر نہ گئے جس کے باعث وہ ہلاک ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں مشتعل ہجوم آخر قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟

ملک عدنان: وہ ہیرو جو پریانتھا کی جان بچانے کے لیے ان کی ڈھال بنا

ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں ملزم کی شناخت اور سزا کیسے ہوتی ہیں؟

پاکستان فرد اور ہجوم کے فیصلوں اور اختیارات کے قبضے میں کیسے آیا؟

تھانے میں موجود پولیس اہلکاروں نے تفتیشی افسران کو بتایا کہ اے ایس آئی اور دو کانسٹیبل زخمی کو گاڑی میں ہتھکڑیاں لگا کر خود دوپہر کا کھانا کھاتے رہے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد اُنھوں نے گاڑی میں دیکھا تو محمد اشرف کی جان نکل چکی تھی جس پر تھانے میں سراسیمگی پھیل گئی۔

چیف پولیس افسر (سی پی او) گوجرانوالہ سید حماد عابد نے اس واقعے کے بارے میں بتایا کہ محمد اشرف مشتعل ہجوم کی نفسیات کے شکار ہوئے جیسا کہ اس نوعیت کے واقعات میں عموماً ہوتا ہے۔

سی پی او نے بتایا کہ وہ خود سینیئر پولیس افسران کے ہمراہ جائے وقوعہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے۔ ملزمان کی گرفتاری فوٹیج کی مدد سے کی گئی جس میں تشدد کرنے والے لڑکوں سمیت پیٹرول پمپ کا مالک بھی شامل ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ تفتیشی ٹیم سب کے کردار کا الگ الگ تعین کر رہی ہے اور جس کا جتنا کردار ہو گا اس کو اس کے جرم کے مطابق ہی چالان کیا جائے گا۔

پولیس سربراہ نے کہا کہ وہ مقتول اشرف کے گھر بھی گئے تھے۔ ’یہ محنت کش لوگ ہیں کوئی جرائم پیشہ نہیں۔ ملزمان کو سزا دلوانے کے لیے مقتول فیملی کی ہر ممکن قانونی امداد کریں گے۔‘

’عوام کا اپنی عدالت لگانے کا بڑھتا ہوا رجحان‘

پنجاب میں ہجوم کے ہاتھوں کسی شہری کی ہلاکت کوئی پہلا واقعہ نہیں۔

رواں سال فروری میں خانیوال میں مشتعل ہجوم نے ایک شخص کو توہینِ مذہب کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔

اس سے پہلے تین دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین نے فیکٹری کے مینیجر سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو توہینِ مذہب کے الزام میں قتل کر دیا تھا اور لاش کو آگ لگا دی تھی۔

سنہ 2015 میں لاہور کے دو گرجا گھروں پر خودکش حملوں کے بعد مشتعل افراد نے دو افراد کو مبینہ حملہ آور قرار دے کر زندہ جلا دیا تھا۔

سنہ 2014 میں کوٹ رادھا کشن میں شمع اور شہزاد نامی ایک جوڑے کو ایک ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنا کر لاشیں اینٹوں کے بھٹے میں جلا دی تھیں۔

سیالکوٹ میں ہی اگست 2010 میں دو بے گناہ بھائیوں 18 سالہ مغیث اور 15 سالہ منیب کو ڈکیتی کا جھوٹا الزام لگا کر قتل کر دیا گیا تھا اور لاشیں پانی کی ٹینکی پر لگے پائپ سے لٹکا دی گئی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments