خدا کو نہ ماننے والوں کی خدا کو ماننے والوں سے کیا توقعات ہیں؟


وجودیت پسند ناول نگار اور دانشور البرٹ کیمو 1913 میں الجیریا میں پیدا ہوئے اور 1960 میں ایک کار کے حادثے میں فوت ہو گئے۔ ان کے ناول
THE STRANGER
نے ژاں پال سارتر کے ناول NAUSEA کے ساتھ مل کر بیسویں صدی کے وجودیت پسند فلسفے اور فکشن کو بہت مقبول بنایا۔

1948 میں پینتیس برس کی عمر میں انہیں ایک دہریہ دانشور کی حیثیت سے خدا پرست ڈومینیکن راہبوں نے دعوت دی کہ وہ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ خدا کو نہ ماننے والے خدا کو ماننے والوں سے کیا امیدیں اور توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں کی خدمت میں البرٹ کیمو کی اس یادگار تقریر کا ترجمہ اور تلخیص پیش کرنا چاہتا ہوں۔

دوستو!

میں اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے آپ لوگوں کی فراخ دلی کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ایک ایسے شخص کو اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی جو آپ سے نظریاتی اختلاف رکھتا ہے۔

میں اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے دوسرا اعتراف یہ کرنا چاہتا ہوں کہ میں خدا کو نہ ماننے والے کی حیثیت سے کوئی حق نہیں رکھتا کہ خدا کو ماننے والوں سے کوئی توقع وابستہ کروں۔ خدا کو ماننے والے دوسرے خدا کو ماننے والوں سے توقعات رکھ سکتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ میں خدا کو نہ ماننے والا ہوتے ہوئے بھی خدا کو ماننے والوں سے وہ توقعات ضرور وابستہ کر سکتا ہوں جو ایک انسان دوسرے انسان سے کر سکتا ہے۔

میں اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے یہ اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ میں حقیقت کل اور حتمی سچ سے واقف نہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ خدا اور مذہب کو ماننا ایک سراب ہے۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں کسی خدا ’کسی مذہب اور کسی عقیدے کو نہیں مانتا۔ اسی لیے میں اس تقریر سے کسی بھی انسان کے عقیدے کو بدلنا نہیں چاہتا۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کو ماننے اور خدا کو نہ ماننے والوں کے درمیان ایک مکالمہ ہونا چاہیے ایسا مکالمہ جس میں دونوں فریقین اپنے اپنے سچ کا برملا اظہار کریں کیونکہ آج کے دور میں اس مکالمے کی سخت ضرورت ہے۔

جب ہم ساری دنیا میں ظلم و ستم اور نا انصافی دیکھتے ہیں تو خدا کو نہ ماننے والے یہ توقع رکھتے ہیں کہ خدا کو ماننے والے بھی اس ظلم و ستم اور نا انصافی کے خلاف بیان دیں گے لیکن ہمیں احتجاج کی بجائے مہیب خاموشی سنائی دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کو ماننے والے انسانوں کے خلاف ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے؟

ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی تاریخ کا حسیں چہرہ انسانی خون سے مسخ ہو رہا ہے۔

جب ایک ہسپانوی پادری سیاسی قتل کے حق میں جواز پیش کر رہا ہوتا ہے تو میری نگاہ میں ایسا جواز پیش کرتے وقت وہ ایک پادری یا عیسائی کیا ایک انسان کے درجے سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور ایک ایسا کتا بن جاتا ہے جو خود تو قتل نہیں کرتا لیکن دوسروں کو قتل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

خدا کو نہ ماننے والے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں کہ خدا کو ماننے والے اس پادری کے عمل کو غلط قرار دیں گے تا کہ انسان ایک کتے کی ذلت آمیز زندگی گزارنے کی بجائے کرہ ارض پر عزت نفس سے انسان کی طرح زندگی گزار سکیں۔

مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ خدا کو ماننے والے عیسائی خدا کو نہ ماننے والے دہریوں کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

میں ایک مثال سے اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ ہمارے دور کا سیاسی رہنما گبرائیل مارسیل جسے عیسائی ہونے کا دعوہ ہے وہ ژاں پال سارتر کے ڈرامے پر جہاں پابندیاں عاید کر رہا ہے وہیں وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ وہ خدا کے احکامات کی پیروی کر رہا ہے۔

میں ایک وجودیت پسند انسان ہونے کے ناتے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ میں جہاں عیسائیوں کے حیات بعد الموت اور جنت کی بشارت کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں وہیں کمیونسٹ دوستوں کے اس دنیا میں تاریخ کی خوش آئند مستقبل کی پیشین گوئی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

جہاں عیسائی یہ کہتے ہیں کہ ہم صرف خدا کے فضل سے بہتر زندگی حاصل کریں گے وہیں مارکس کو چاہنے والے بھی یہ اصرار کرتے ہیں کہ انسانی تاریخ کا جدلیاتی نظام ہمیں ایک بہتر مستقبل کی طرف لے جا رہا ہے۔ میں کرسچن اور کمیونسٹ دونوں گروہوں کی امید افزا پیشین گوئیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

جہاں عیسائی خدا کے رحم و کرم پر اور کمیونسٹ تاریخ کی جدلیات پر ایمان رکھتے ہیں میں صرف انسان کی کوشش پر ایمان رکھتا ہوں۔ یہ انسان ہی ہیں جو اپنی کوششوں اور جدوجہد سے اپنے انفرادی اور اجتماعی مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ وہ مستقبل نہ خدا نے پہلے سے لکھ رکھا ہے اور نہ تاریخ نے۔

میری خواہش ہے کہ ہم۔ چاہے وہ عیسائی ہوں مارکسسٹ ہوں یا وجودیت پسند انسان۔ اپنے نظریاتی اختلافات کی بجائے ان آدرشوں پر اپنی توجہ مرکوز کریں جو ہم سب کے مشترک آدرش ہیں۔

ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ہر روز معصوم بچوں پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ ہم سب عیسائیوں مارکسسٹوں اور وجودیت پسند انسانوں کو اس بات پر متفق ہونا چاہیے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں جہاں بچوں پر کوئی ظلم و ستم نہ ڈھایا جائے۔ اگر اس مقصد کے لیے خدا کو ماننے والے خدا کو نہ ماننے والوں کی مدد نہیں کریں گے تو پھر اور کون کرے گا؟

ساری دنیا کے انسانوں کو اس وقت ایک سنگین جنگ کا سامنا ہے اور یہ جنگ دو گروہوں کے درمیان ہے۔

ایک گروہ اپنے ظلم اور جبر اور شدت پسندی سے لوگوں کو اپنا سچ بیان کرنے سے روکتا ہے اور انہیں خاموش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسرا گروہ ان انسان دوستوں کا گروہ ہے جو ہر مکتب فکر کے انسانوں کے درمیان ایک مکالمے کو فروغ دیتا ہے۔ یہی سقراط کی سنت ہے جس کی ہر نسل اور ہر عہد کے لوگ از سر نو تجدید کرتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے دور میں اس سنت پر عمل کرنا ہے ورنہ ہمارے عہد کے سقراط کو بھی زہر کا پیالہ پینا پڑے گا۔

خدا کو ماننے والوں اور خدا کو نہ ماننے والوں کے درمیان مکالمہ آج کے دور کے سقراط کو زہر کا پیالہ پینے سے بچا سکتا ہے۔

میں خدا کو ماننے والے عیسائیوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ اس مکالمے میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں؟

اگر عہد حاضر کے عیسائیوں نے ہمارا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تو میں یہ پیشین گوئی کرنا چاہوں گا کہ اس کے بعد عیسائی تو زندہ رہیں گے عیسائیت ایک نظریے کی حیثیت سے مر جائے گی کیونکہ جو نظریہ مختلف مکاتب فکر کے درمیان مکالمے کا ساتھ نہیں دیتا وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔

اب وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا کو ماننے والے عیسائیوں کا فیصلہ کرنا ہے وہ معصوم بچوں اور مظلوم انسانوں کے خلاف جبر و تشدد کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور خدا کو نہ ماننے والوں کے ساتھ مکالمے کا حصہ بنتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments