طلبا روٹھ گئے کہ طالبات نے حجاب کیوں پہنا ہوا ہے؟


چند روز قبل شائع ہونے والے کالم میں ہم یہ جائزہ لے رہے تھے کہ بھارت کی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ میں بعض تعلیمی اداروں میں حجاب پر لگائی جانے والی پابندیوں کو برقرار رکھا اور اس پابندی کی یہ دلیل بیان کی کہ گو بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 میں مذہبی آزادی کے ضمانت دی گئی ہے لیکن اس سے مراد صرف ضروری مذہبی احکامات یا essential religious practice پر عمل کی آزادی ہے۔ اور حجاب پہننا ضروری مذہبی احکامات کے زمرے میں نہیں آتا۔ ضروری مذہبی احکامات وہ احکامات ہیں جن کے بغیر ایک مذہب اپنا وجود کھو بیٹھے۔

بصد ادب عرض ہے کہ اگر کرناٹک کی ہائی کورٹ کا بیان کردہ معیار قبول کیا جائے تو پھر اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ بھارتی شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے کیونکہ وہاں پر صرف نہایت ضروری مذہبی احکامات پر عمل کرنے کی آزادی ہے اور یہ فیصلہ بھی شہری خود نہیں کر سکتے کہ یہ ضروری احکامات کون سے ہیں؟ یہ فیصلہ بھی ریاست کرے گی کہ آپ کے مذہب کے ضروری احکامات کون سے ہیں؟ اور غیر ضروری احکامات کون سے ہیں؟

لیکن ہائی کورٹ کے بیان کردہ معیار کی تردید خود بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 میں ہی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ اس آرٹیکل میں وضاحت نمبر 1 یہ ہے کہ اپنے ساتھ کرپان کو لے کر چلنا اور اسے لگانا سکھ مذہب کا اظہار سمجھا جائے گا۔ گویا اس آرٹیکل میں سکھ احباب کو اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ ان کا یہ حق محفوظ ہے کہ وہ کرپان لے کر آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ لیکن اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا کرپان سکھ مذہب کے ایسے ضروری احکامات میں سے کہ جس کے بغیر سکھ مذہب بحیثیت مذہب قائم نہیں رہ سکتا۔

تاریخی طور پر کرپان کا رواج سکھ مذہب کے آخری گرو گرو گوبند سنگھ صاحب کے زمانے میں شروع ہوا۔ اس سے قبل سکھ مذہب کے مردوں کے لئے کرپان لے کر چلنا ضروری نہیں تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سکھ مذہب کے بانی حضرت باوا نانک اور آپ کے پیروکار سب سے بڑھ کر خالص طور پر سکھ مذہب کے پیروکار تھے۔ وہ اپنے پاس کرپان نہیں رکھتے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے پاس کرپان لے کر چلنا سکھ مذہب کا ایسا حکم نہیں ہے جس کے بغیر یہ مذہب قائم نہ رہ سکتا ہو۔

لیکن اس کے با وجود بھارت کے آئین کے آرٹیکل 25 میں سکھ احباب کے اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ کرپان لے کر چل سکتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آرٹیکل کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا کہ صرف اتنی مذہبی آزادی ہو کہ ایسے ضروری احکامات پر عمل کرنے کی اجازت ہو جن کے بغیر مذہب قائم نہ رہ سکتا ہو۔ اگر سکھ احباب کو کرپان کی آزادی ہے تو مسلمان خواتین کو حجاب لینے کی آزادی کیوں نہیں دی جا سکتی؟

جیسا کہ گزشتہ کالم میں اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ جب کوئی بھی ریاستی ادارہ مذہبی معاملات میں مداخلت کرنا شروع کرے تو ایک کے بعد دوسری نامعقولیت جنم لیتی رہتی ہے۔ جب کرناٹک کی عدالت نے مذہبی معاملات میں مداخلت کا کام شروع کیا تو یہ عدالت ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھاتی گئی۔ اسی تفصیلی عدالتی فیصلہ میں عدالت نے اس موضوع پر بحث چھیڑ دی کہ فرض احکامات کون سے ہیں اور مسنون احکامات کون سے ہیں؟ اور اجماع کیا ہے؟

اور اس کے بعد یہ کہ ان میں سے کون سے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے اور کن پر عمل کرنا کم ضروری ہے؟ مباح کیا ہے؟ مستحب کسے کہتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ عدالتی فیصلہ کسی عدالتی فیصلہ سے زیادہ کسی دارالافتاء کا تفصیلی فتویٰ معلوم ہوتا ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ فقہ کے معاملات میں یہ موشگافیاں ہندو جج صاحبان کے قلم سے بر آمد ہوئی تھیں۔ اور یہ ہندو جج صاحب ایک ایسے ملک کی عدالت کے جج ہیں جو آئینی طور پر اپنے آپ کو سیکولر ملک قرار دیتا ہے۔

جب کرناٹک کی عدالت نے ہندوستان کے مسلمانوں پر یہ نام نہاد احسانات فرما دیے تو لگے ہاتھوں یہ بحث بھی چھیڑ دی کہ مسلمانوں میں تو قرآن مجید کی بہت سی تفاسیر مروج ہیں۔ ان سب تفاسیر میں سے کون سی تفسیر کو قابل اعتبار قرار دیا جا سکتا ہے۔ عدالت عالیہ کرناٹکیہ نے بہت سی تفاسیر کے نام درج کرنے کے بعد یہ فیصلہ صادر فرمایا

However, this Court prefers to bank upon the ’The Holy Quran: Text, Translation and Commentary‘ by Abdullah Yusuf Ali,

ترجمہ : تاہم عدالت ہذا عبد اللہ یوسف علی کے ترجمہ اور تفسیر پر انحصار کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔

کاش کوئی رجل رشید کرناٹک کے جج صاحب بہادر کو جا کر سمجھائے کہ مسلمانوں کے بیسیوں مسالک ہیں۔ اور ہر مسلک مختلف تفسیر کو ترجیح دیتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایک ہی مسلک سے وابستہ احباب مختلف تفاسیر کو دوسری تفاسیر سے زیادہ قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ اور مختلف زاویوں سے مختلف تفاسیر کی اہمیت پرکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر تفسیر ابن کثیر اور تفسیر در منثور میں احادیث نبویہ ﷺ کی روشنی میں مختلف آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔

لیکن اگر کوئی جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر رکھ کر تفسیر پڑھنا چاہے گا تو عصر حاضر میں لکھی جانے والی کسی تفسیر کی طرف رجوع کرے گا۔ لیکن عدالت عالیہ نے اس تفسیر کے حق میں یہ دلیل پیش کی کہ کم و بیش اکثر وکلاء اس تفسیر کے قابل اعتبار ہونے کے قائل ہیں۔ اس لیے زیر بحث معاملہ میں عدالت اس تفسیر کے حوالوں پر انحصار کرے گی۔

یہ بحث پڑھتے ہوئے ہوئے مجھے اپنے ایک عزیز کا واقعہ یاد آ گیا۔ یہ صاحب اپنے خالو کے زرعی فارم پر سیر کے لئے گئے اور وہاں جا کر دل میں یہ شوق بیدار ہوا کہ گھوڑے پر سواری کرنا سیکھیں۔ چنانچہ صبح ناشتے کے بعد گھوڑا حاضر کیا گیا۔ انہوں نے دریافت فرمایا کہ گھوڑے پر کس طرح سوار ہوتے ہیں۔ جواب ملنے پر وہ اس طریق کے مطابق اس گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ پھر دریافت فرمایا کہ جب گھوڑے کو چلانا مقصود ہو تو کیا اشارہ کرتے ہیں۔

اس کا جواب بھی دے دیا گیا۔ ابھی وہ یہ پوچھنے والے تھے کہ گھوڑے کو روکتے کس طرح ہیں کہ خدا کی قدرت گھوڑا اس بحث سے تنگ آ کر دوڑ پڑا۔ لیکن ان صاحب کی گھڑ سواری کی تعلیم ابھی صرف گھوڑا چلانے تک محدود تھی۔ اور گھوڑا روکنا ابھی نہیں سیکھا تھا۔ اس صورت حال میں ان کا جو حال ہوا وہ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ اس عدالتی فیصلہ میں کچھ یہی کیفیت کرناٹک کی عدالت کی ہے۔ وہ ایک ایسے گھوڑے پر سوار ہو گئے ہیں جسے روکنا ان کے بس کی بات نہیں۔

کبھی وہ یہ بحث کرتے ہیں کہ حجاب تو بعض قدیم تہذیبوں میں بھی لیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر ساسانی، بازنطینی اور میسوپوٹیمیا کی تہذیب میں بھی حجاب لیا جاتا تھا۔ تو پھر ہم کس طرح مان لیں کہ یہ ایک مذہبی حکم ہے؟ کبھی وہ اس بارے میں مختلف بھارتی عدالتی فیصلوں کے حوالے درج کرتے ہیں کہ یہ کوئی ضروری مذہبی حکم نہیں ہے۔ مگراس نکتہ کی طرف نہیں آتے کہ حجاب لینے والی طالبات کی مرضی کیا ہے؟ اس بارے میں ان کے کیا نظریات ہیں؟

اور اس فیصلہ کے آخر میں صاحب بہادر علم اور عقل کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے آئین کو مرتب کرنے والے ڈاکٹر امبیدکار صاحب نے تو اسی وقت یہ بھانپ لیا تھا کہ اسلام میں خواتین پر بہت سی ناجائز پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اور انہوں نے یہ لکھا تھا کہ اسلام میں تو عورتوں کو مساجد میں جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یہ حصہ پڑھ کر تو سر دھننے کو جی چاہتا ہے کیونکہ ہر شخص کو رائے قائم کرنے کی آزادی ہے لیکن یہ رائے لا علمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر قائم ہونی چاہیے۔

اس سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر امبیدکار صاحب سے لے کر آج کے جج صاحبان بھی صرف لا علمی کی بنیاد پر آراء قائم کرتے ر ہے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک دور میں بھی اس بات پر کوئی پابندی نہیں تھی کہ خواتین مساجد میں جا کر نماز ادا کریں۔ اور بہت سی احادیث سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ حکومتوں اور عدالتوں کو مذہبی معاملات میں مداخلت سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ مذہبی معاملات میں ہر فرد آزاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرے۔ ورنہ کچھ ایسی ہی کیفیت ہو گی جیسے ایک بیل چینی کے برتنوں کی دکان میں گھس کر ہر طرف تباہ کاری پھیلا رہا ہو۔ اور یہ سلسلہ پھیلتا جاتا ہے۔ چند روز قبل جنوبی بھارت میں منگالارو یونیورسٹی کے کئی ہندو طلباء نے اس بات پر روٹھ کر کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا اور باہر بیٹھ گئے کہ مسلمان طالبات نے حجاب کیوں پہنا ہوا ہے۔ اگر ان طالبات کے متعلق کوئی کارروائی کرنی بھی تھی تو یونیورسٹی کی انتظامیہ کو کرنی تھی۔ ان لڑکوں کی یہ ادا نا قابل فہم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments