طالبان مخالف نئے سیاسی محاذ کی بازگشت


امارت اسلامیہ افغانستان کے مخالف افغان سیاسی رہنماؤں کا گزشتہ دنوں ترکی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں ایک شوریٰ بنانے پر اتفاق کے فیصلے سے طالبان مخالف قوتوں کو تو یقیناً خوشی ہوئی ہوگی بلکہ ان قوتوں کی تو شروع دن سے یہ خواہش تھی کہ طالبان کی مخالفت میں کوئی ایسا اتحاد بننا چاہیے جو آگے جاکر ان قوتوں کی طالبان مخالف عزائم کے نقشے میں رنگ بھرنے میں مددگار ثابت ہو سکے لیکن گزشتہ سال اگست میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور بعد ازاں اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان کا پورے افغانستان اور بالخصوص کابل میں جس سرعت کے ساتھ ظہور اور قبضہ ہوا تھا اس نے جہاں پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا وہاں طالبان کی اس سبک رفتاری کے باعث ان کے مخالف قوتوں کو بھی نہ تو سنبھلنے کا اور نہ ہی طالبان کی مزاحمت کا کوئی موقع مل سکا تھا لہٰذا اب جب آٹھ مہینے کے بعد یہ طالبان مخالف عناصر ایک جگہ جمع ہوئے ہیں تو اسے افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد طالبان کے مخالفین کا سب سے بڑا اجتماع قراردیا جا رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں استاد عبدالرب رسول سیاف، مارشل عبدالرشید دوستم، صلاح الدین ربانی، کریم خلیلی، اسماعیل خان، استاد عطا محمد نور، استاد محمد محقق اور احمد ولی مسعود شامل تھے۔ زیر بحث کانفرنس میں ترکی کے علاوہ کئی اور ممالک میں رہنے والے طالبان مخالف رہنماؤں نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی جن میں سابق وزیر داخلہ یونس قانونی اور احمد ضیا مسعود بھی شامل تھے البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مذکورہ اجلاس میں سابق نائب صدر اور تاجکوں کی سیاسی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، سابق صدور حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی نیز طالبان کے لیے سخت گیر رویہ اور تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے سابق نائب صدر اور انٹیلی جنس چیف امر اللہ صالح اور حزب اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمتیار جو بظاہر تو طالبان اور اشرف غنی کی مخاصمت میں غیرجانبدار تھے لیکن ماضی میں طالبان کے مخالف سمجھے جاتے تھے، بھی ترکی میں ہونے والے طالبان مخالف اکٹھ سے غیر حاضر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ امر اللہ صالح طالبان کے حوالے سے انتہائی سخت گیر رویہ رکھتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت طالبان سے بات چیت اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اشرف غنی کے ملک سے فرار کے دو دن بعد اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے خود کو نہ صرف افغانستان کا آئینی صدر قراردیا تھا بلکہ پنج شیر میں احمد مسعود کے ہمراہ طالبان کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع کرنے کا اعلان بھی کیا تھا تب سے وہ منظر سے غائب ہیں اور غالب گمان ہے کہ وہ پنج شیر پر طالبان کے قبضے کے بعد ان دنوں تاجکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اشرف غنی حکومت کے زوال کے باوجود کابل میں مقیم ہیں اور طالبان نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو تقریباً نو مہینے بعد فیملی سے ملنے کے لیے عید الفطر کے موقع پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ اسی دوران ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے طالبان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے پنج شیر کے علاوہ تخار، بغلان اور خوست میں عام لوگوں کو قتل کیا ہے۔ کابل سے نکلنے کے بعد طالبان پر پہلی مرتبہ شدید تنقید کے بعد یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ وطن واپس آئیں گے یا نہیں لیکن ڈاکٹر عبداللہ کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق وہ ملک واپس آنا چاہتے ہیں تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ طالبان نے انہیں اس ضمانت پر جانے کی اجازت دی تھی کہ وہ واپس آئیں گے۔

یہاں اس امریکی جانب اشارہ خالی از دلچسپی نہیں ہو گا کہ حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ وہ دو افغان راہنما ہیں جو اشرف غنی حکومت کے زوال سے چند دن پہلے تک طالبان سے مذاکرات اور اشرف غنی کو پرامن طور پر اقتدار سے الگ کر کے طالبان کوایک مخلوط اور مشترکہ قومی حکومت کے قیام کے ایک بین الاقوامی منصوبے پر کام کر رہے تھے لیکن ان کا یہ منصوبہ اس وقت خاک میں مل گیا تھا جب طالبان اچانک اور غیر متوقع طور پر تمام تر اندازوں کے برعکس کابل میں داخل ہو کر قصر صدارت پر قابض ہو گئے تھے۔ کابل کے سقوط اور طالبان کی فتح کے وقت انجینئر گلبدین حکمتیار حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے بعد تیسرے بڑے افغان راہنما تھے جنہوں نے نہ تو اس سارے قضیے کے دوران کابل چھوڑا اور نہ ہی وہ اب جب طالبان کابل سمیت سارے افغانستان پر اپنا قبضہ مستحکم کر چکے ہیں کابل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ وہ اب بھی کابل ہی میں مقیم ہیں۔

یہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ترکی میں ہونے والے اجلاس کو طالبان کے مخالفین کی ایک بڑی سیاسی پیش رفت سے تعبیر کیا جا رہا ہے جو ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پنج شیر اور کئی دیگر صوبوں میں طالبان کے خلاف مسلح مزاحمت کی خبریں بین الاقوامی اور سوشل میڈیا میں کئی دنوں سے گردش کر رہی ہیں۔ طالبان مخالف اس اجلاس کے بارے میں افغان امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس اجلاس میں ایک عالی شوریٰ جس میں نہ صرف تاجک، ازبک اور ہزارہ نسل کے افراد شامل ہیں بلکہ اس میں سیاف جیسے پشتون رہنما بھی موجود ہیں کے قیام پر اتفاق سے افغانستان کے اندر طالبان مخالف سرگرمیوں کو آنے والے دنوں میں تقویت پہنچ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments