شہباز شریف اور احسن اقبال کے نام


محترم جناب شہباز شریف اور احسن اقبال صاحب!

1۔ حکومت کی آمدن کم اور اخراجات بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ہر مالی سال خسارے میں رہتا ہے، اس ذیل میں بہت سارے سرکاری ادارے بھی ہیں جہاں بجٹ کا ایک خطیر حصہ مہیا کیا جاتا ہے لیکن آمدن نہ ہونے کے برابر ہے، انھی محکموں میں ایک محکمہ تعلیم بھی ہے، چند ایک اقدامات کر کے اس محکمہ سے ہی اس سے متعلقہ اخراجات پورے کیے جا سکتے یا کم از کم اتنا ضرور کیا جا سکتا ہے کہ یہ محکمہ اپنے اخراجات کافی حد تک خود اٹھا سکتا ہے، تجویز یہ ہے کہ آپ سرکاری سکولوں کا جائزہ لیں تو بہت سے سکول اور کالج شہر کی مرکزی جگہوں پر مصروف اور کاروباری سڑکوں پر ہیں، کرنا صرف اتنا ہے کہ وہاں پلازے اور دکانیں بنائیں اور انھیں کرائے پر چڑھا دیں، اسی طرح شہروں میں کھیل کے میدانوں کی کمی ہے، حکومت سکول اور کالجز کے میدانوں کو بہتر کرے اور پھر معاوضے کے تحت یہاں میچ کھیلنے کی اجازت دے، یہ گراؤنڈ تعلیمی اوقات کے بعد نجی تقریبات کے لیے بھی دیے جا سکتے ہیں۔

2۔ پاکستان ریلوے بھی خسارے کے تحت چلنے والا ایک ادارہ ہے، چند ایک اقدامات کر کے ریلوے کا خسارہ یا اس کو دیا جانے والا بجٹ کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے بلکہ منافع بھی کمایا جا سکتا ہے، مثال کے طور پاکستان ریلوے کی صرف راولپنڈی کے زمینوں کا جائزہ لیا جائے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنی قیمتی زمینیں اور وہ شہر کے مرکزی علاقوں میں جیسا کہ صدر وغیرہ میں بیکار پڑی ہیں، یہاں بھی حکومت بڑے بڑے کاروباری مرکز قائم کر نے کے ساتھ ساتھ رہائشی پلازے بھی بنائے جا سکتے ہیں، افسروں کو دیے جانے والے کئی کنالوں پر محیط بنگلوں کو دس مرلے یا ایک کنال تک محدود کر کے باقی زمین بھی استعمال میں لائی جا سکتی ہے، ممکن ہی نہیں کہ ریلوے منافع میں نہ جائے، بے شک ایک دیانتدارانہ سروے کرا لیں، محکمہ ریلوے یا تعلیم میں اگر تعمیری سرمائے کی قلت ہو تو کئی پارٹیاں کسی معاہدے یا نفع میں شراکت کے تحت یہ کام کرنے پر بخوشی راضی ہوں گی۔

3۔ جیسا کہ مجبوری کی وجہ سے پٹرول بم گرایا گیا ہے، اس تباہی کو روکا نہیں تو کم ضرور کیا جاسکتا ہے، مثلاً ایک جائزہ لیں کہ پاکستان میں کتنے افسروں کو مفت میں ہزاروں لیٹر ڈیزل پٹرول مفت مہیا کیا جا رہا ہے، میں کسی محکمے کا نام نہیں لیتا لیکن جو بھی ہو اس سے یہ سہولت واپس لیں، ایک افسر ڈیوٹی پر ہے، ابھی ڈیوٹی کا وقت بھی ختم نہیں ہوا لیکن وہ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کی مد میں ٹی اے ڈی اے کے طور ہزاروں لاکھوں روپیا بٹور رہا ہے، کیوں اور کس اصول کے تحت؟

چلیں مغربی ملک دیتے ہوں گے لیکن جناب پہلے ملک کو مغربی ممالک کے جیسا بنائیں پھر یہ معاوضے بھی مانگ لیں، تب تک صرف کام کریں، اسی طرح بہت سے محکمے شہروں کی حد تک ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کرتے ہیں، اگر ایک عام ملازم اس بس میں جا سکتا ہے تو افسر کیوں نہیں؟ اس طرح ڈیزل اور اخراجات کی مد میں کافی حد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ کئی ایک سکولوں کالجوں کی زمین ضرورت سے وافر بیکار پڑی ہے، وہاں عمارت بنا کر کسی بھی نجی سکول یا ادارے کو دے کر لاکھوں کمائے جا سکتے ہیں۔

4۔ اسی طرح پولیس اور شہروں میں واقع منڈیوں کی زمینوں سے متعلق بھی ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ دکانیں، کاروباری مراکز اور ہاؤسنگ سکیمیں وغیرہ۔

5۔ اسی طرح حقیقی ریاست مدینہ کی طرز پر پورے ملک کا ایک ہی مرکزی اکاؤنٹ بنائیں جس میں ملک کے ہر ادارے کی تمام آمدنی جمع ہو اور وہاں سے تمام اخراجات پورے ہوں، حد ہے کہ ملک ایک ہے لیکن ہر ادارہ اپنے اکاؤنٹ بنا کر منافع اور لوکل ریاست بننے کی دھن میں مگن ہے، نام کیا لینا کئی محکمے ہیں جن کے اکاؤنٹ بھرے ہیں لیکن اسی ملک کے دوسرے محکمے اور پبلک بھوکی مر رہی ہے کہ پیسے نہیں ہیں، کیا یہ محکمے ملک کی حدود و قیود سے باہر ہیں؟

جب ملک ایک ہے تو مفاد الگ الگ کیوں؟ اگر ریاست کا ایک ہی مرکزی اکاؤنٹ ہو گا تو پورے ملک کا پیسا وہاں آئے گا اور جب وہاں سے ہر شعبے کو اس کی ضرورت (تنخواہ اور دیگر اخراجات) کے مطابق تقسیم ہو گا تو ریاست کے اندر مالی بحران خود بخود ختم ہو جائے گا، مجھے پتا ہے کہ یہ کام کرنا مشکل ہے لیکن ایک بار کر گزریں پھر دیکھیں کہ ملک کیسے منافع میں جاتا ہے؟

6۔ مختلف لوگوں کو دی جانے والی سیکورٹی پر بھی نظرثانی کریں، مثلاً عمران خان کی سیکورٹی پر کروڑوں روپے ماہانہ خرچا ہو رہا ہے، اگر شاہد خاقان عباسی خود منیج کر سکتا ہے تو باقی لوگوں کو بھی کرنا چاہیے، یا کم ازکم حکومت سے جانے کے بعد چونکہ ان کی نقل و حرکت ذاتی ہے لہذا اخراجات بھی خود برداشت کریں، اسی طرح سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں کی حفاظت کے لیے بھی خون عوام کا کیوں نچوڑا جائے، بل بنایا جائے اور متعلقہ سیاسی جماعت سے وصول کیا جائے۔

7۔ اسی طرح کئی ایک افسران کو دی جانے والی گیس پٹرول سبسڈی اور عقل سے بالاتر ایک وقت میں سرکاری گاڑی اور کنوینس الاؤنس ختم کیا جائے۔ فی کس افسر کی بجائے ایک دفتر کو ایک گاڑی دی جائے جسے اس دفتر کے افسران ایک ترکیب بنا کر استعمال کریں۔

یہ چند ایک مرکزی تجاویز ہیں، مزید اس طرح کے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ پاکستان آرمی اپنے وسائل کافی حد تک خود یوٹلائز کر رہی ہے، اس طرح دیگر محکمے بھی کر سکتے ہیں لیکن پاکستان کو فائدہ اس وقت ہونا ہے جب ریاست کا سرکاری محکموں کی آمدنی اور اخراجات سے متعلقہ اکاؤنٹ ایک ہی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments