علی آکاش: انسانیت اور محبتوں کا سفیر شاعر


شاعری وہ بھی غیرمعمولی، غیر روایتی، منفرد، جدت سے بھرپور، عوام کے احساسات کی عکاس، انسانیت کے جذبات کی ترجمان اور محبتوں اور روشن

خیالی کی رنگینیوں کی سفیر شاعری ہر کسی کے ناں بس کی بات ہے اور ناں ہی ہر کسی کے حصے میں آتی ہے۔ علی آکاش ان شعراء میں سے ہے جس کے پاس ایسی شاعری خود چلی آتی ہے۔ علی آکاش الہامی شاعر نہیں جس پر شاعری نازل ہوتی ہو مگر اس انسانی سماج میں سانس لیتے ہوئے جس وقت تتلیوں کی رنگت، موتیوں کے پھولوں کی مہک، لہلہاتی گلابوں کے کھیتوں کی خوشبؤ، رابیل کے پھولوں پر گری اوس کی نمی، محبتوں کی مہکار اور انسانی جذبات اور خوابوں کی ترجمانی اور تعبیر کی رنگینی اس کے روشن ذہن اور سنہرے خیالوں میں محلول ہو کر شاعری کا روپ اختیار کرتی ہیں تو اس کی شاعری غیر معمولی، غیر روایتی، منفرد، جدت کا آئینہ، روشن خیالی اور ترقی پسند سوچ فکر کا اندھیرے میں چراغ بن جاتی ہے۔ اس کی شاعری کے ہر پہلو کو اس مضمون میں سمانا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہو گا۔

علی آکاش وہ غیر روایتی، غیر معمولی، جدید، روشن خیال اور ترقی پسند شاعر ہیں جس نے غیرمعمولی شاعرانہ صلاحیتوں کو برؤ کارلا کر جو جوانی میں اپنے ہمعصر دور کے منفرد شعراء میں اپنا نام شامل کیا ہے اور جدید شاعر کے طور پر خود کو منوایا ہے وہ کسی کسی کے حصے میں آتا ہے۔ اس نے جدید شاعر کے لحاظ سے جو مقام پایا ہے وہ اس کی انتھک محنت، مطالعہ، مستقل مزاجی اور لگن سے لکھنے کی مرہون منت ہے۔

علی آکاش کو چھند ودیا یا علم چھند (کلاسیکی شاعری کی موزونیت کا علم) اور علم عروض پر بڑی دسترس حاصل ہے۔ اس لیے اس کے شعر میں غیر موزونیت اس کی شاعری کے لیے عیب ہے۔

علی آکاش کو سندھی زبان اور اردو مین یکساں مہارت حاصل ہے۔ اس نے ایم اے ہی اردو ادب میں کیا ہے۔ یہ بہ یک وقت اردو اور سندھی زبان کا بڑا پختہ سخنور شاعر ہے۔ اس کے علاوہ سندھی اور اردو ادب کا بہترین اور یگانہ نقاد بھی ہے۔ زبان کا تخلیقی استعمال، نئے کنائے، استعارے، تشبیہات اور اصطلاحات استعمال کرنے پر بڑی کمالیت رکھتے ہیں۔ علی آکاش نے کلاسیکی شاعری کے ساتھ ساتھ عروضی شاعری کی صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ہر صنف کی ہیئت اور نزاکت کو جانتے ہیں اور دسترس سے لکھتے ہیں۔

میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ علی آکاش کی شاعری میں موضوعات گونا گون اور لاتعداد ہیں۔ ہر قسم کے سماجی المیے، مزدورں کی کسمپرسی والی زندگی، سماجی برائیوں کی نشاندہی اور ان میں تبدیلی یا انقلابی للکار، انسانیت کی علم برداری، روشن خیالی جی روشنی اور جنبش، انسان دوستی کے اظہار میں ترقی پسندانہ سوچ و فکر، وطن دوستی کے متحرک جذبات، محبتوں کی مٹھاس اور کڑواہٹ، ہجر و فراق کے احساسات اور دوسرے موضوعات اس کی شاعری کے موضوعات میں شامل ہیں۔

شعلہ بیانی سے جب شعر پڑھتا ہے تب سننے والوں کے جذبات سمندر کی لہروں کی طرح بے چینی میں مچل جاتے ہیں۔ میں دوسرے موضوعات کی بجائے یہاں محض علی آکاش کی شاعری میں محبتوں کے رنگین احساسات کے منفرد اور لبرل انداز میں اظہار کی بات کروں گا۔ علی آکاش رومانس کا بڑی با کمال کا شاعر ہے۔ اس کے رومانٹک اظہار میں بھی ترقی پسندی اور لبرل سوچ جھلکتے نظر آتی ہے۔ یہ اپنے ہمعصر شعراء میں بالکل منفرد شاعر ہیں علی آکاش کو محبتوں کا سفیر شاعر کہوں تو مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ بلاشبہ علی آکاش انسانیت اور سماج کی ترجمانی میں روشن خیال، ترقی پسند، اور محبتوں کا منفرد سفیر شاعر ہے۔ محبتوں کے اظہار میں اس کے اپنے نرالے رنگ اور انداز ہیں۔

نظم
ہولی مبارک
رنگ تھالی میں لیے،
اپنے گھر سے،
تو مہکتی جب چلیں تھی،
میں گلی کے موڑ پر،
پاؤں لٹکائے ہوئے اور سر جھکا کر،
اس ہی صندل پر تھا بیٹھا،
میرے آگے سے تو گزری،
ہاں مگر تم نے نہ مجھ پر رنگ ڈالا،
اب تو ہوگی سنگ سکھیوں کے بڑے ہی رنگ میں،
اور پیچھے میں وہیں صندل پہ بیٹھا پر ملال
پاؤں لٹکائے ہوئے اور سر جھکا کر
جو بھی آیا اور گیا،
اس نے مجھ پر رنگ ڈالا،
میں ابھی رنگین ہوں،
رسم پوری ہو چکی،
اور ہولی ہو چلی،
زرد ہیں رخسار دیکھو،
اس محبت کے مگر،
کاش تو آ جائے واپس اور دے جائے مجھے،
اپنی ہنسی کا ہی بس تھوڑا گلال
کاش تم سجنی کرو،
اس پرانے پیار اپنے کا خیال!
نوٹ: صندل لکڑی کی بنی میز کی طرح چیز
نظم
ایک روٹی سے
تمام زندگی کو سمجھا جا سکتا ہے،
گر وہ دو آدھ کر کے کھائی جائے،
تو سمجھیں کہ یہ کوئی بے اولاد جوڑا ہے،
یا نیا شادی شدہ جوڑا ہے،
جو ابھی اولاد کے لیے پرامید ہے،
گر وہ روٹی آدھی کھائی جائے،
اور آدھی رومال میں ڈھانپ کر رکھی جائے،
تو یوں سمجھیں کہ یہ کوئی مزدور کی بیوی ہے،
اور ابھی شام نہیں ہوئی!
ہاں گر اس روٹی کے چار ٹکڑے کیے گئے ہیں،
تو جان لیں کہ بہن بھائی، باپ ماں،
مل کر کھا رہے ہیں!
گر اسی روٹی کا ایک ٹکڑا بچ گیا ہے،
تو سمجھ لیں کہ وہ بوڑھا گداگر بیمار پڑا ہے
یا اس دنیا سے گزر گیا ہے!
گر پوری روٹی سوکھ گئی ہے،
تو ضرور کسی بیوہ عورت کا وہ کتا مر گیا ہے،
جو گندم کی روٹی کی اہمیت کو جانتا تھا۔
نوٹ: سندھی میں محاورہ ہے کے کتا کیا جانے گندم کی روٹی کی اہمیت کو۔
بھوک روٹی اٹھا کے بھاگی اور،
ایک بچے کا چور ہوجانا۔
ایک لڑکی کا منچ پر آنا،
اور تھیٹر کا شور ہوجانا۔
پرندے سے پوچھا گیا:
آسماں اور پنجرے کے بارے میں کیا ہے
تمہارا خیال؟
تو اس نے دیا یوں جواب:
کہ امبر ہے میرے لئے ایک پنجرہ وسیع
اور پنجرہ ہے میرے لئے اک ننھا آسماں۔
گیت ہوں گم شدہ جزیرے کا
بس سمندر ہی گنگنائے مجھے،
بے قراری ہوں اک بگولے کی
کوئی صحرا میں چھوڑ آئے مجھے،
موت کی سیڑھیاں اترتے ہی،
زندگی سے جھگڑنے جاتا ہوں۔
میں تو ماحول دوست ہوں پیارے،
آنسو پیتا نہیں بہاتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments