نو جوان سرکاری ملازم کی آپ بیتی


پلیٹ میں موجود دال کے ساتھ روٹی کا نوالہ بناتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھی کھانے کی ٹیبل پر موجود بابا کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ جی بابا! کھانا کیوں نہیں کھا رہی کب سے دیکھ رہا ہوں آخر کس سوچ میں ہو؟ کسی سوچ میں نہیں بابا بس یوں ہی۔ آج کل تم سویرے واک پر بھی نہیں جا رہی سب خیر تو ہے بابا نے تفتیشی انداز سے پوچھا۔ بس تھکن کی وجہ سے میں نے کھانے کی ٹیبل سے اٹھتے ہوئے جواب دیا۔ رات کے گیارہ بجے دالان کے تخت پر لیٹے میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں مبتلا تھی کے بابا نے میرے سر پر ہاتھ رکھا میں یک دم اٹھ کے بیٹھ گئی گی بابا!

ارے دیکھ لوں بخار تو نہیں کہیں، نہیں بابا بخار نہیں بس تھکن سی ہے۔ تمھارے نئے آفس میں کام بہت زیادہ ہوتا ہے کیا۔ میں نے ہنسی کو دباتے ہوئے کہا : زیادہ کام؟ بالکل نہیں بابا جی تھکن زیادہ کام کی نہیں بلکہ تھکن تو اس لیے ہے کیوں کہ یہاں کام ہی نہیں ہے : بابا نے آنکھیں بڑی کرتے ہوئے پوچھا کام نہیں ہے مطلب؟ بابا جب سے میں یہاں اس سرکاری دفتر میں ٹرانسفر ہوئی ہوں بہت پریشان ہوں یہاں کام ہی نہیں ہوتا جب کے میں تو ابھی مکمل طور پر سرکاری ملازم بھی نہیں ہوں کانٹریکٹ بیس پر کام ہے میرا مگر یہاں کے نظام نے تو مجھے بہت مایوس کر دیا ہے۔

سرکاری دفتروں کی ملازمت میں شاید پیسے ملتے ہوں گے اچھے مگر یہاں کا کلچر کام کرنے اور سیکھنے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بالکل نہیں ہے جگہ جگہ بس فائلوں کا ڈھیر ہے اور وہ صرف ڈھیر نہیں ہے بلکہ دفتر کے باہر انتظار کرنے والوں کی ٹوٹی امیدوں کا ڈھیر ہے جو شاید سالوں سال یوں ہی کچرے کی ڈھیر بنا رہے گا اور مجبور اور لاچار عوام کے چپل گھستے رہیں گے اور ایک دن وہ بھی تھک کے بیٹھ جائیں گے اس نظام کے آگے۔

سارے ایکشن پلان صرف کاغذوں پر ہی ہیں اور ان کا کو عملی جامع پہنانا بھی اتنا مشکل ہے کیوں کہ ان کاموں کو فائنل کرنے کے لیے بڑے افسروں کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے جن سے ملاقات بھی انتہائی مشکل ترین کام ہے۔ اور! اور کیا بابا نے پوچھا: اب اور کیا کہوں صفائی کے نظام کی تو بات ہی نہ کریں بس۔ بیٹا تم اتنا پریشان نہ ہو۔ پریشانی کی تو بات ہے نہ بابا میں نے ماسٹرز کی ڈگری اس لیے تو نہیں لی تھی کے آفس تو جاؤں مگر کسی ٹیبل یا کرسی کی طرح آفس کی زینت بنی رہوں اور کچھ نہیں۔ تمھیں یہاں صبر سے کام لینا ہو گا بابا نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔ صبر تو میں کر ہی رہی ہوں مگر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے اندر کا علم و صلاحیت کسی پر کی طرح مجھے بلندیوں تک لے جائیں گے مگر مجھے ان پروں کو کھولنے کی جگہ ہی نہیں دی جا رہی ہے میں خود میں گھٹن محسوس کرتی ہوں۔

بابا مجھے اس وقت کا خیال آتا ہے کی جب میں کسی سرکاری ملازم کو دیکھتی تھی اور سوچتی تھی کے میں بھی اس طرح ملازمت کروں گی مگر مجھے اس نظام کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ مجھے کام کرنا ہے اصل میں کام کا دکھاوا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments