جرات مند عالمی لیڈر عمران خان کا امریکی ٹی وی کو دبنگ انٹرویو


’ امپورٹڈ حکومت امریکی آشیرواد سے قائم کی گئی، ڈونلڈ لو کا رویہ متکبر تھا‘ ۔

محض تین برس قبل ایک مشہور امریکی گالفر گیری پلیئر نے عمران خان کو مشہور زمانہ عالمی لیڈر نیلسن منڈیلا کے برابر قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہوئے سراہا تھا۔ ایسا بھی وقت آیا جب عمران خان کی کرشماتی شخصیت نے دنیا کی حسین ترین شہزادہ لیڈی ڈیانا کو پاکستان کے دورے پر مجبور کر دیا تھا۔ دنیا کے موجودہ عالمی لیڈران میں صرف عمران خان میں کچھ تو ایسا ہے کہ جب وہ نکلتا ہے تو ایک خلقت اس کے ہم قدم ہوتی ہے، جب وہ بولتا ہے تو دنیا ہمہ تن گوش ہوتی ہے، اس کا عملی نظارہ تو ہم نے کئی ایک عالمی فورم پر کر رکھا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر جب عمران خان نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تھا تو کاغذ پر تحریر متن کو ایک جانب رکھا اور بولا پھر ایسا بولا کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی۔

اسلامی سربراہان کی عالمی فورم او آئی سی کے تن مردہ میں اس نے جیسے جان ڈال دی۔ پاکستان کی نیم مردہ معیشت کو اپنی کامیاب پالیسیوں کی بدولت کامیابی کے ٹریک پر ڈالا اور ایوب خان کے دور اقتدار کے بعد پہلا جمہوری لیڈر بنا جس نے ملک میں نئے ڈیموں کی داغ بیل ڈالی۔ ملک کی ترقی کی رفتار کے ساتھ دنیا بھر میں عمران خان کی بڑھتی ہوئی عالمی پذیرائی سرمایہ دارانہ نظام کے چلانے والے مخفی ہاتھوں کو ہضم کیسے ہوتی۔ یہ تو آشکار ہے کہ ڈاکٹر مصدق کی طرح عمران خان بھی واشنگٹن کی آنکھوں میں کانٹا بن کے کھٹک رہا ہے۔

اس لیے کہ آلہ کار بننے اور فوجی اڈے دینے سے اس نے انکار کر دیا تھا۔ اسے منظر سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ پاکستانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا معاملہ الگ ہے۔ تاریخ کے سنجیدہ طلباء کو لیاقت علی خان کے بارے میں پورا یقین ہے کہ انہیں امریکیوں نے قتل کرایا۔ دنیا میں اہم اور ”بڑے“ ممالک کی تعداد ایک سو پچیس سے زیادہ نہیں۔ ان میں سے 72 ممالک میں امریکہ نے حکمرانوں کا تختہ الٹا اور اپنی مرضی کی حکومت بنائی۔

یہ لیڈر بیچارے آوازیں بلند کرتے رہے، چیختے رہے، جلسے کرتے اور جلوس نکالتے رہے، دستاویزات دکھاتے رہے کہ یہ دیکھو امریکہ میرے خلاف سازش کر رہا ہے اور وہ میری ذات کو نشانہ اس لئے بنا رہا ہے کہ وہ پوری قوم کو محکوم اور غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ امریکی حکومت اور سی آئی اے کی سرمایہ کاری ایسے تین اہم گروہوں میں تھی میڈیا، عدلیہ، اور فوج۔ جو تینوں باہم مل کر ایک ایسی قوت بن جاتے تھے جنہوں نے ان 72 ممالک میں امریکی منشا اور مرضی کے مطابق حکومتیں بدل کر رکھ دیں۔ عمران خان اسی فہرست کا اگلا شکار ہے۔ اس کا جرم یہ ہے کہ وہ مقبول ہے اور اس کی خطا یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر جھکتا نہیں۔

اقتدار سے محروم کیے جانے کے بعد عمران خان کا امریکی ٹی وی سی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کسی بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے ساتھ یہ ان کا پہلا انٹرویو تھا جس میں پاکستان کے ہر دل عزیز عالمی رہنما عمران خان نے اپنے اس دعوے کو ایک بار پھر دہرایا ہے کہ امریکہ نے ان کی بے دخلی کا منصوبہ بنایا تھا، منفی امریکی پالیسیوں کے باعث جنوبی ایشیائی اقوام میں ”امریکہ مخالفت“ روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ عمران خان واحد پاکستانی رہنما تھے جو امریکی اینکر بیکی اینڈرسن کے سامنا نہایت اعتماد اور دبنگ انداز میں کر رہے تھے، انہوں نے امریکی ٹی وی پر امریکی اینکرپرسن کے سامنے امریکہ کی پالیسیوں پر بے خوف انداز میں تنقید کی، پاکستان میں موجود امپورٹڈ حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ امریکی بیورو برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو نے مارچ میں واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر سے ملاقات کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ عمران خان کو اقتدار سے برطرف کیا جانا چاہیے۔

ڈونلڈلو نے دھمکی دی تھی کہ ”عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا نہیں جاتا تو پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے“ ۔ عمران خان نے انٹرویو میں امریکی مداخلت پر کڑے الفاظ میں ڈونلڈ لو کو پاکستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت کرنے پر برخواست کرنے پر زور دیا اور کہا کہ ”برے رویے اور سراسر تکبر کی وجہ سے لو کو نکال دیا جائے۔“ عمران خان نے کہا، ”لوگ اس قدر مشتعل ہیں اور اپنی توہین محسوس کرتے ہیں کہ بدعنوانی میں ملوث مجرموں کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔

“ عمران خان نے سی این این کو بتایا، ”جب بھی اگلے انتخابات ہوں گے، نہ صرف ہم انتخاب لڑیں گے، بلکہ میں پیشن گوئی کر سکتا ہوں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی پارٹی ہوگی۔ امپورٹڈ حکومت کی فسطائیت کی دیواروں کو روندتے ہوئے، عمران خان آزادی مارچ کا آغاز صوبہ خیبر پختونخوا سے، جہاں ان کی پارٹی اب بھی اقتدار میں ہے، سے دارالحکومت اسلام آباد تک، 200 کلومیٹر ( 120 میل) سے زیادہ دور ایک طویل ریلی کی قیادت کریں گے۔

اس سے قبل بھی عمران خان کا دبنگ انداز بیاں زبان زد عام رہا ہے، ان کا ایبسولوٹلی ناٹ اور کیا ہم کوئی غلام ہیں کا بیانیہ عوام میں مقبول ہو چکا ہے۔ عوام سے اپنی تقریر میں عمران خان نے ببانگ دہل کہا تھا، یورپی یونین کے سفیر نے پاکستان کو روس کے خلاف ووٹ دینے کا خط لکھا، اس سے میرا سوال ہے کہ کیا اس نے ہندوستان کو بھی ایسا خط لکھا تھا ’کیا ہم غلام ہیں کہ جو آپ کہیں اس پر عمل کریں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے پر کیا نیٹو نے ہمارا شکریہ ادا کیا ’کیا کشمیر میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور مظالم پر یورپی یونین نے انڈیا سے رابطہ توڑا؟ تجارت بند کی؟ بھارت پر تنقید کی؟ ہم غیر جانبدار ہیں اور سب سے دوستی چاہتے ہیں‘ آج تک ہماری حکومت کے دور حکومت میں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا اور اگر کسی نے ڈرون حملے کی کوشش کی تو فضائیہ سے کہوں گا کہ اسے مار گرائے ’قوم مزید ٹیکس دے تو ان سے وعدہ ہے کہ یہ ٹیکس ان کو ریلیف دینے پر خرچ کریں گے، لندن میں بیٹھے بھگوڑے سے رقم پاکستان واپس آئے تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آدھی کر دیں گے، روس یوکرائن جنگ میں کسی کا ساتھ نہیں دیں گے اور امن قائم کرنے میں سب کا ساتھ دیں گے۔

امریکی آشیرواد سے قائم کردہ امپورٹڈ حکومت اب عمران خان کی جارحانہ بالنگ کے آگے دفاعی حکمت عملی سے وکٹیں بچا رہی ہے، بھان متی کے اس کنبے کو یاد ہو گا جب عمران خان نے انہیں وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکوؤں کا یہ گلدستہ یاد رکھے کہ عدم اعتماد کی بعد میں جو ان کے ساتھ کروں گا، اور یہ بھی کہ اقتدار سے باہر کردینے کی سازش میں کامیابی کے بعد عمران خان چوروں اور ڈاکوؤں کے لئے مزید خطرناک ہو جائے گا۔

بیکی اینڈرسن کا سامنا اس سے قبل پاکستان کے ایک اور وزیر اعظم نے بھی کیا تھا، یوسف رضا گیلانی سے جب ایک گیلپ پول کے بارے میں پوچھا گیا کہ کثیر تعداد میں پاکستانی اپنے ملک کو چھوڑنا چاہتے ہیں، تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جواب دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی: ”وہ کیوں نہیں چلے جاتے، ان کو کون روک رہا ہے؟“ اس بیان کے بعد انٹرویو دینے والے اور انٹرویو لینے والے کے درمیان ایک عجیب سی خاموشی تھی، سی این این کا انٹرویو کلپ ٹویٹرز اور بلاگرز کے ذریعے انٹرنیٹ پر بہت وائرل ہوا۔

ایک اور انٹرویو بیکی اینڈرسن نے بلاول زرداری کا کیا تھا جس میں پی پی پی چیئرمین سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان میں سیاسی خاندانوں پر تنقید درست ہے، شریف خاندان اور ان کا خاندان پاکستانی سیاست میں برسوں سے موجود ہے، جس پر بلاول نے جواب دیا کہ اس طرح کے خاندان کہیں اور بھی موجود ہیں، بلاول نے صورتحال کا موازنہ ہیلری کلنٹن اور ان کے شوہر بل کلنٹن کی سیاست سے کیا۔ بیکی اینڈرسن کو انٹرویو کے دوران پاکستان میں خاندانی سیاست کے معاملے کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی۔ بلاول کا یہ استدلال بہت سے سوشل میڈیا صارفین کے لیے دلچسپ تبصروں کا سبب بن گیا جس میں بلاول نے کہا تھا کہ، ”میں نے یہ زندگی نہیں چنی، اس نے مجھے چنا ہے۔ بیشتر تبصرہ نگاروں نے بلاول کی گفتگو کو بچگانہ قرار دیا اور اس کے انداز بیاں میں واضح گھبراہٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

الغرض انیسویں صدی کے اوائل میں ہی امریکا نے فلپائن کے امائلو اوگینالدو کا تختہ الٹ کر اپنے عزائم کو دنیا پر واضح کر دیا تھا، پھر عالمی طاقتوں کا ایسا اتحاد تشکیل دیا گیا جس کا کام ہی دیگر ممالک کے وسائل پر قابض ہو کر اپنا تسلط برقرار رکھنا تھا، آسٹریا میں چارلس اول کو اقتدار سے محروم کیا گیا، جرمنی میں قیصر ولہیلم کو ، فرانس میں فلپ پیئٹن اور پیئرے لاول کا سورج غروب ہوا، اٹلی میں بنیتو مسولینی کو بھی امریکی اتحاد نے اقتدار سے محروم کیا، نازی جرمنی میں کارل ڈونٹز، ایران میں مصدق کو جس کا جرم واضح تھا کہ رضا شاہ کبیر کو دھکیل کر تیل کی صنعت کو قومیانے والے ایرانی وزیر اعظم مصدق کے خلاف سی آئی اے کے منصوبے میں شرکت سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔

ایرانی عوام خم ٹھونک کر مصدق کے ساتھ کھڑے تھے۔ ایران کے طول و عرض میں خودداری کی ایسی ہی ایک تحریک برپا تھی، جیسی کہ ان دنوں پاکستان میں۔ سچ پوچھیے تو مصدق کی مقبولیت عمران خان سے بھی زیادہ تھی۔ رضا شاہ کبیر ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ امریکہ نے تہیہ کر لیا کہ مصدق کو راستے سے ہٹایا جائے۔ ڈومینکن ری پبلک میں فرانسسکو کا مانو، گریناڈا کے ہڈسن آسٹن، پانامہ کے مینوئل نوریگا امریکا کے ہی شکار بنے، پھر ہیٹی کے راؤل سیڈراس اور افغانستان کے ملا عمر کو امریکا نے اپنا نشانہ بنایا، عراق کے صدام حسین اور لیبیا کے معمر قذافی کا خون بھی اسی امریکی ڈریکولا نے پیا، اس کے علاوہ دنیا میں لڑی گئی کئی جنگیں بھی امریکہ بہادر ہی کی مرہون منت رہی ہیں، ویت نام، کویت، عراق، افغانستان جیسے محاذ امریکا نے صرف اس لئے گرم کیے کہ اس کا اسلحہ بکتا رہے اور دنیا کی معیشت پر اس کی گرفت بدستور قائم رہے۔

دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں کوئی بھی سیاست دان، دانشور یا عوامی رہنما کتنا بھی امریکہ یا سامراجی معاشی نظام کا ناقد کیوں نہ ہو، جرات اظہار کا پیکر بھی ہو، مگر عالمی طاقتیں اس سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوا کرتیں بلکہ ایسے تمام افراد کو کھل کر بولنے کے لئے بے شمار مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہر وہ لیڈر یا رہنما اپنی اس انقلابی سوچ کی وجہ سے جب بھی کبھی لوگوں میں مقبول ہونے لگتا ہے تو پھر خطرے کی گھنٹی بج اٹھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments