سب چاہیے کچھ بھی کیے بغیر


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

جو عام آدمی چالیس گز کا مکان ہڑپنے کے چکر میں سگی بہن اور بھائی کو عدالت میں گھسیٹ لیتا ہے، کھیت پر قبضے کی جعلی فرد بنوانے اور اس پر بضد ہونے سے نہیں چوکتا ، قاتل بیٹے کو بچانے کے لیے جعلی برتھ سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے ہر بااثر کے قدموں میں لوٹنیاں لگاتا ہے۔

کسی بے گناہ کو قتل کے مقدمے میں پھنسوانے کے لیے مرتے مرتے بھی تین سو دو کے بیان ِ حلفی میں سچ نہیں بولتا۔ مسکین صورت بنا کے جھوٹی سچی کہانیاں گھڑ کے کسی سے قرض لے کر اسے ” قرضِ ہنسنا“ سمجھ کر تقاضا کرنے والے کو خون تھکوا تھکوا دیتا ہے۔

جو عام آدمی سودے کے پورے پیسے لینے کے باوجود مول تول میں ہیرا پھیری کو کاروباری جائزیت سمجھتا ہے، نگاہ بچتے ہی خراب مال اچھے میں ملا کر بے خبر گاہک کو تھما دیتا ہے، قیمے کے نام پر آنتیں اور اوجھڑی کوٹ کے سموسے میں بیچ دیتا ہے، تربوز کو لال کرنے کے لیے انجکشن لگاتا ہے، اصل ایکسپائرڈ لیبل کی جگہ نیا جعلی لیبل لگا کے دوا، بسکٹ، چاکلیٹ اور جانے کیا کیا تازہ مال بتا کے پوری قیمت وصول کرتا ہے۔ پچھتر روپے کی شے کو دو سو کی بیان کر کے سو روپے میں ” دھماکا خیز سیل“ کا بینر تان دیتا ہے۔
بے حیا و بے دین مغربی دنیا کے خلاف نعرے لگاتے لگاتے ماں کا زیور بیچ کے ریکروٹنگ ایجنٹ کو منہ مانگے پیسے دے کر بیوی بچے اوپر والے کے حوالے کر کے سات سمندر پار کے بنا ویزا سفر پر نکل پڑتا ہے۔

جو عام آدمی گھر کی خواتین کی حد تک تو غیرت مند ہے مگر یہ مشروط غیرت و پارسائی کسی غیر عورت کو دیکھتے ہی ایکسرے پلانٹ میں بدل جاتی ہے، جو سب کو عذابِ آخرت سے ڈراتا ہے مگر خود اتنا بے خوف ہے کہ اللہ سے بھی نہیں ڈرتا۔

جو فتوی اور اسٹامپ پیپر کے کاروبار کو ایک ہی بات سمجھتا ہے، جس کا سر لاچار کے آگے کبھی نہیں جھکتا اور طاقتور کے آگے اپنی کمر سیدھی نہیں کر پاتا، جو اپنے غبی بچے کو محنت کا مشورہ دینے کے بجائے امتحانات اور انٹرویوز میں کامیاب کرانے کے لیے تمام گھوڑے کھولنے سے نہیں چوکتا، جو گاہک کو تھمائے گئے بل میں پورا جی ایس ٹی بھی وصولتا ہے مگر ٹیکس فائل کرتے وقت خود کو دائمی نقصان میں ظاہر کرنا ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔

اسی عام شہری کو قومی درد رکھنے والا حکمران بھی چاہیے، شفاف انصاف دینے والا جج بھی چاہیے، فائل کے اوپر نہ بیٹھنے والا افسر بھی چاہیے، رشوت اور ٹارچر سے منکر پولیس افسر بھی چاہیے، قیمتوں کو ہر وقت چیک کرنے والی انتظامی مشنیری بھی چاہیے، ایمان دار بلڈر اور ڈویلپر بھی چاہیے، دوا ساز کمپنیوں کا ایجنٹ بننے سے انکاری ڈاکٹر بھی چاہیے۔

صحت و تعلیم کی مفت سہولت بھی چاہیے، میرٹ پر نوکری بھی چاہیے، دفتروں میں نائن ٹو فائیو حاضر عملہ بھی چاہیے، تعلیم کے لیے وقف سرکاری استاد بھی چاہیے، مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے سبسڈی کی ڈھال بھی چاہیے۔ ایسی مقننہ بھی چاہیے جو عوام دوست قوانین بناتی رہے اور اشرافیہ اور عام آدمی کو ایک نگاہ سے دیکھے۔

اور حکمران اشرافیہ بھی وہ چاہیے جو خلفائے راشدین کی یاد دلاتی رہے۔جس طرح کا سماج اور پرورش کا جو معیار اور اخلاقی اقدار کی جو گت گھر سے لے کے ایوانِ صدر تک دیکھی جا سکتی ہے اس کے ہوتے کس کس بنیادی اچھائی کا اوپر سے نیچے تک فروغ ممکن ہے؟ یہ کوئی بہرہ اور نابینا اور گونگا بھی بتا سکتا ہے۔

کاشت کریں آپ ببول اور توقع رکھیں فصلِ گلاب کی، ریوڑ کی رکھوالی کے لیے رکھیں نوکیلے دانتوں والے کتے اور ہر صبح بھیڑوں کی گنتی بھی پوری رہے ، ہر بار منتخب کریں خائن اور ہر بار توقع رکھیں کہ اس بار تو یہ عمر بن عبدالعزیز ثابت ہوگا۔

ہاں مجھے اس قانون کی حکمرانی چاہیے جو مجھ پر لاگو نہ ہو، ایسا ایمان دار و انصاف پسند حکمران اور جج درکار ہے جو سب چوروں، ڈاکوﺅں، ریپسٹ، غداروں اور دہشت گردوں کو چوک میں لٹکا دے سوائے میرے۔ ہاں وہ سب موٹے پیٹ والوں پر ٹھیک ٹھاک ٹیکس لگائے مگر میرے منافع میں گھاٹے کا سبب نہ بنے۔

مجھے چین جیسی مستعدی، جرمنی جیسی سائنسی ترقی، اسکنڈے نیویا جیسی خوشحالی، ہارورڈ کے معیار کی اعلیٰ تعلیم، برطانوی طرز کا ٹیکس سسٹم، سعودی پینل کوڈ، ملیشین انداز کا حجاب، ترکوں جیسی قوم پرستی، سوئس جمہوریت، مغربی شہری کو حاصل بنیادی انسانی حقوق کا ڈھانچہ، کلاس روم میں ہر طرح کا سوال کرنے کی آزادی، ریٹائرمنٹ کے بعد کا مالی و سماجی تحفظ، صحت مند سستی خوراک، جدید ٹرانسپورٹ سمیت ہر وہ نعمت، سہولت اور موقع چاہیے جو اکیسویں صدی کے تقاضوں کا تقاضا ہے۔

یہ بس دعا کرتے رہنے سے میسر آجائے تو اچھا ہے، مضر عادات بدلے بنا مل جائے تو اور بھی اچھا ہے، بطور منتخب قوم اوپر سے من و سلوی اترتا رہے تو کیا کہنے ، حق کی خاطر مرے بغیر اور لازمی فرائض پورے کیے بغیر حاصل ہو جائے تو کمال ہی ہو جائے۔ ایک رات کو سوئیں اور صبح اٹھ کے دیکھیں کہ سب کچھ بدل گیا ہے تو اور کیا چاہیے بھلا۔

بس کوئی چمتکار ہو جائے، کرامت ہو جائے، دنیا کا دل ہمارے لیے خود بخود وا ہو جائے اور ہر دروازہ کھل جا سم سم ہو جائے تو بات بن جائے۔

اچھو دادا نے زندگی میں پہلی بار داتا دربار پر حاضری دیتے ہوئے گڑگڑا کے دعا کی کہ اے داتا اوپر والے سے سفارش کر کہ چار ڈکیتیوں، سات قتلوں، تیرہ اغوا برائے تاوان اور انیس جعل سازیوں سے بری ہو جاﺅں تو باقی زندگی تیرے دربار میں بس جھاڑو لگاﺅں۔(آمین ثم آمین۔)

یہ دعا مانگنے کے بعد آنسوﺅں سے تر بتر اچھو دادا دہلیز سے باہر نکل گیا۔ کچھ دور چلنے کے بعد اچانک واپس مڑا اور سنجیدہ لہجے اور سپاٹ چہرے کے ساتھ گویا ہوا ”داتا صاحب میں جو عرض کیتی اے۔ایہدھا دھیان رکھنا۔ مڑ ایس کم واسطے دوبارہ نہ آنا پوے۔ کی سمجھے۔“

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments