دانت، ڈینٹسٹ اور خود کشی


میں نے بچپن میں سنا تھا کہ
ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور

لیکن انسانوں میں کھانے اور دکھانے کے دانت ہی ایک نہیں ہوتے بلکہ کسی کو غصے سے کاٹ کھانے اور اگر اس کا موقع نہ ملے تو رات کو غصے کو دبا کر پیسنے کے دانت بھی وہی ہوتے ہیں۔

دانتوں کی خوبصورتی کی اہمیت کا اندازہ مجھے اس دن ہوا جس دن میں نے ایک بے تکلف اور وجیہہ کینیڈین دوست سے پوچھا کہ تم تو حسن پرست مشہور ہو پھر تم نے ایک قبول صورت عورت سے کیسے شادی کر لی تو کہنے لگا اس کے دانت بہت خوبصورت تھے۔

میرے دوستوں کے ایک بڑے حلقے میں صرف ایک دوست ڈاکٹر سارہ علی ایسی ہیں جو ایک ڈینٹسٹ ہیں کیونکہ میں ہمیشہ ڈینٹسٹوں سے دور رہتا رہا ہوں۔ میری والدہ بچپن سے میرے دانتوں کے بارے میں بہت فکرمند رہتی تھیں کیونکہ میں میٹھی چیزیں بڑے شوق سے کھاتا تھا لیکن میں ڈینٹسٹ سے ملنے سے کتراتا تھا۔

آخر چند سال پیشتر جب آدھی رات کو میری داڑھ میں درد ہوا تو میں ایک اجنبی ڈینٹسٹ ڈاکٹر ملر سے ملنے گیا۔ وہ مجھے پسند آئے کیونکہ وہ بہت خوش مزاج تھے۔ معائنے کے بعد انہوں نے مشورہ دیا کہ میں دونوں عقل داڑھیں نکلوا لوں۔ چنانچہ ایک دن اپنے کلینک جانے سے پہلے میں ان کے کلینک چلا گیا۔

نجانے کیوں انہوں نے میری دائیں عقل داڑھ تو پانچ منٹ میں نکال دی لیکن بائیں عقل داڑھ نکالنے میں ایک گھنٹہ لگا۔

جب وقت زیادہ ہو گیا تو میں نے ایک کاغذ منگوا کر لکھا
DR MILLER I HAVE TO SEE MY PATIENT IN 15 MINUTES
کہنے لگے YOU WILL NOT BE ABLE TO TALK

اور جب میں نے لکھا
AS A PSYCHIATRIST I AM PAID FOR LISTENING
تو وہ بہت ہنسے۔

داڑھ نکلوانے کے بعد میں نے پھر ڈینٹسٹ سے ملنے سے احتراز کیا۔

چند ہفتے پہلے جب میں ایک بڑے مزے سے ایک ہڈی چبانے سے محظوظ ہو رہا تھا تو مجھے کڑاک کی آواز آئی اور اندازہ ہوا کہ ایک دانت کا ایک حصہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس کے بعد بقیہ دانت ایک تیز دھار والا آلہ بن گیا اور میری زبان کو چبھنے لگا۔

اس دن مجھے احساس ہوا جیسے میری زبان ایک ملکہ ہو اور بتیس دانت فوجی ہوں جو اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوں۔

میں ڈاکٹر ملر سے دوبارہ ملنے گیا انہوں نے تیز دھار والے دانت کو ایسے ٹھیک کیا جیسے کوئی ریگ مال سے تیز کونے کو ٹھیک کرتا ہے۔ پھر کہنے لگے آپ میری اسسٹنٹ MARY سے دانت صاف کروا لیں وہ ڈیپ کلیننگ کرتی ہیں۔

میں مے ری سے ملا تو پتہ چلا کہ وہ سعودی عرب میں چند سال کام کرنے کے بعد اب کینیڈا آ گئی ہیں۔

میں نے مے ری کو بتایا کہ میری بہن عنبر بھی چند سال سعودی عرب میں رہ کر آئی ہیں میں ان سے بہت عرصہ پیشتر ایک دفعہ ملنے گیا تو وہاں کی پابندیوں سے اتنا گھبرایا کہ واپس آ کر ایک کہانی لکھی جس کا عنوان تھا۔ مقدس جیل۔ مے ری کہنے لگیں کہ اب حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ پابندیاں کم ہو گئی ہیں اور اب عورتیں اپنی کار خود ڈرائیو کر سکتی ہیں۔

مے ری نے ایک اور ڈاکٹر کو بلایا جن کا نام ڈاکٹر سنگھ تھا انہوں نے میری دانتوں مسوڑھوں اور منہ کو انجکشن لگا کر فریز کیا تا کہ مے ری میرے دانتوں پر جمے کریڑے کو صاف کر سکیں۔ ایسا کریڑا جو مجھے تو آئینے میں بالکل نظر نہ آتا تھا لیکن مے ری کو ایکس رے میں صاف نظر آتا تھا۔

آدھ گھنٹے کی دانتوں کی صفائی کے بعد مجھے درد ہونے لگا تو مے ری نے دوبارہ ڈاکٹر سنگھ کو بلایا اور انہوں نے ایک دفعہ پھر مجھے انجکشن لگایا۔

جب وہ میرے منہ کو بے حس کر رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب بے حسی ایک نعمت اور حساس ہونا ایک زحمت بن جاتی ہے۔

جب ڈاکٹر سنگھ نے دیکھا کہ میں بھی مشرق کا ہوں تو تھوڑی گپ لگانے لگے جاتے ہوئے کہنے لگے
کیا آپ کوئی سوال پوچھنا چاہتے ہیں؟

جی ایک سوال
کیا سوال ہے؟

میں نے کہا کہ میں خودکشی کے موضوع پر ایک مضمون پڑھ رہا تھا اس میں لکھا تھا کہ ڈاکٹروں میں سب سے زیادہ خودکشی یا ماہرین نفسیات کرتے ہیں یا ڈینٹسٹ۔ مجھے ماہرین نفسیات کا خودکشی کرنا تو سمجھ آتا ہے کیونکہ وہ دن بھر لوگوں کی دکھ بھری کہانیاں سنتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ ہمدردی اور ہم احساسی کی وجہ سے خود بھی دکھی ہو جاتے ہیں لیکن ڈینٹسٹ کی خود کشی کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔

ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ یہ سوال ان کے لیے بھی ایک معمہ ہے۔ پھر کہنے لگے کہ پچھلے مہینے ان کے ایک نئے مریض نے انہیں بتایا کہ اس کے پچھلے دو ڈینٹسٹوں نے خود کشی کر لی۔

ڈاکٹر سنگھ کے اس اعتراف کے بعد میں نے سوچا کہ میں اپنی واحد ڈینٹسٹ دوست ڈاکٹر سارہ علی سے درخواست کروں گا کہ وہ اس موضوع پر ایک کالم لکھیں کہ ڈینٹسٹ باقی ڈاکٹروں سے زیادہ تعداد میں خودکشی کیوں کرتے ہیں؟

مے ری نے مجھے سمجھایا کہ مجھے اپنے دانتوں کا ہی نہیں اپنے مسوڑھوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ مسوڑھے ایک بیلٹ کی طرح دانتوں کو باندھ کر رکھتے ہیں۔

میں جب اپنے گھر واپس جا رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ کینیڈا میں ڈینٹسٹ بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور پاکستان میں عوام و خواص ان کی اتنی عزت نہیں کرتے جتنی عزت کے وہ بجا طور پر حقدار ہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ میں یہ سوال بھی ڈاکٹر سارہ علی سے پوچھ سکتا ہوں اور وہ دونوں سوالوں کے جواب اپنے کالم میں شامل کر سکتی ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments