عورت کا ہی استحصال کیوں؟


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کھیتوں اور بھٹے میں کام کرنے والے خواتین کن مشکلات کا روزانہ سامنا کرتی ہیں؟ یقیناً نہیں سوچا ہو گا کیونکہ اکثر بڑے شہروں میں رہنے والے لوگوں کو صرف دفتروں میں کام کرنے والی خواتین کی مشکلات ہی نظر آتی ہیں۔ خاتون سیاست میں ہو، صحافت ہو، بزنس میں ہو، کھیل کے میدان میں ہو، شوبز انڈسٹری میں ہو یا کھیتوں اور بھٹے پر کام کرتی ہو۔ ہر جگہ عورت کو حقارت کی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ مشرقی معاشرے میں آج بھی دقیانوسی روایات چلتی آ رہی ہیں۔ ہم عورت کو صرف چولہا اور بچے سنبھالنے والی ملازمہ ہی سمجھتے ہیں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی خاتون کسی شعبے میں نمایاں ہو بھی جائے تو ہم اس کو نیچا دکھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور ساتھ میں بی بی خدیجہ، فاطمہ سلام اللہ، بی بی زینب کی مثالیں بھی دیتے ہیں اور ان تین خواتین کو مشعل راہ بھی قرار دیتے ہیں۔ وہ بھی تب جب ہمیں کسی تقریب میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔

یہ عورت سے ہمارا حسد، بغض اور عداوت ہے جو پبلک میں واہ واہ سمیٹنے کے لئے ہمیں عظیم خواتین کی مثالیں دینے پر مجبور کرتا ہے جبکہ چاردیواری میں ہم کبھی راسپوٹین اور کبھی شاہ جہاں بنے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی ماں بہن کے علاوہ باقی تمام خواتین قلوپطرہ نظر آتی ہیں۔ اقتدار کے ایوان سے لے کر میڈیا ہاؤسز تک اور شوبز انڈسٹری سے لے کر دفاتر میں کام کرنے والی خواتین تک ہر جگہ عورت کا ہی استحصال کیوں ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کے چمبہ ہاؤس میں ایک سیاسی ورکر خاتون کا قتل ہوا جو صرف خبروں کی ہی زینت بنا پھر نہ کوئی مقدمہ نہ کوئی گرفتاری اور نہ ہی کوئی دوبارہ خبر آئی۔

مریم نواز کے متعلق سارا دن قومی میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا اور وٹس ایپ گروپوں میں کیا کچھ شیئر نہیں کیا جاتا۔ اگر خواتین صحافیوں کی بات کریں تو عاصمہ شیرازی سے لے کر غریدہ فاروقی تک کے خلاف کس قسم کا گھٹیا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ لیکن مجال ہے اس کا کوئی ازخود نوٹس لے یا اس کردار کشی مہم کا حصہ بننے والوں کو کوئی لگام ڈالے۔ یہ تو دو صحافی خواتین ہیں جن کو صرف سیاسی ایشوز کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ دفاتر میں کام کرنے والے خواتین صحافی بھی اس قسم کے پروپیگنڈے سے محفوظ نہیں ہیں۔

ان کو کبھی انہی کے ساتھی ہراساں کرتے ہیں اور کبھی باس، لیکن یہ خواتین ڈر کے مارے یا اپنے گھر کے حالات کے مارے اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی۔ اگر کوئی صحافی خاتون آواز اٹھائے بھی تو اس کے دفتر سے ہی اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ کیونکہ سب اس کا تماشا دیکھنے والے ہوتے ہیں ساتھ دینے والے نہیں۔ اگر ہم شوبز انڈسٹری کی بات کریں تو میشاء شفیع کا کیس ڈیڑھ سال سے لاہور کی دو عدالتوں میں چل رہا ہے اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو ثابت کرنے کے لئے عدالتوں کے دھکے کھا رہی ہیں۔

دفاتر کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ نجی دفاتر تو دور کی بات گزشتہ دنوں اٹلی کے سفارتخانے میں تعینات ایک پاکستانی خاتون افسر کو سفارتخانے کا افسر ہی ہراساں کرنے میں ملوث پایا جاتا ہے۔ گزشتہ روز لاہور پریس کلب میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ (آئی ایف جے ) کے زیر اہتمام دو روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں میڈم لبنیٰ اور فاطمہ ذاکر نے صحافیوں کو دو دن ٹریننگ دی۔ دو دن اس ورکشاپ میں خواتین اور مرد صحافیوں نے دل کھول کر اپنے مسائل پر روشنی بھی ڈالی اور بے بسی کا اظہار بھی کیا۔

صحافی اپنے حقوق کے لئے تو آواز نہیں اٹھا سکتے لیکن دوسرے کے مسائل کو اجاگر کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یقینی طور پر صحافیوں کے ساتھ ہو بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ تین، تین ماہ تنخواہ نہ ملے، جبری طور پر نوکری سے نکال دیا جائے، تنخواہ میں کٹوتی کردی جائے، ایک ادارہ صحافی کے ساتھ جو مرضی کر لے وہ صرف گدھا بن کر تمام بوجھ اٹھاتا جائے گا اور برداشت کرتا جائے گا۔ میڈیا مالکان کا یہ ظلم و جبر صرف دو صورتوں میں ختم ہو سکتا ہے۔

نمبرون تمام مرد و خواتین صحافی اپنے تمام ایشوز پر یک زباں ہوں اور نمبر دو حکومت تمام سرکاری اشتہارات کی ادائیگی میڈیا ورکرز کی تنخواہوں کی سلپ کے ساتھ منسلک کر دیں اور جو میڈیا ہاؤس اپنے ورکرز کو بروقت تنخواہ نہ دے، اس میں کٹوتی کرے اور بغیر نوٹس کے نوکری سے نکال دے اس میڈیا ہاؤس کے پہلے اشتہار بند کیے جائیں پھر اس کا لائسنس اور ڈکلیریشن ختم کر دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments