بنام مفتاح اسمعیل


پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ چاہے لولی لنگڑی جمہوریت ہو یا پھر آمریت ہمیشہ اس کی معیشت کو سنبھالنے والا غیر منتخب شخص ہی رہا ہے۔ مستقبل قریب کی ہی مثالیں لے لیجیے، شوکت ترین صاحب ہو یا پھر حفیظ پاشا صاحب، ترین صاحب ہو یا پھر اسحق ڈار صاحب یا پھر موجودہ وزیر موصوف مفتاح اسمعیل صاحب، سب کو کابینہ شامل کرتے ہوئے ان کی ڈگریوں اور بڑے بڑے مالیاتی اداروں میں کی گئی ملازمتوں کا حوالہ دیا جاتا ہے بلکہ یوں سمجھی اس قابلیت کی بھرپور تشہیر کی جاتی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ سب انتہائی قابل شگوفے جب رخصت ہوتے ہیں تو معاشی بحران کا طوفان چھوڑ جاتے ہیں۔ موجودہ وزیرخزانہ جو کہ خود ایک بہت بڑے سرمایہ دار ہیں نے جب وزارت خزانہ سنبھالی تو اس وقت ایک آن لائن پلیٹ فارم پر ان کی گفتگو نظر سے گزری۔ جس میں یہ صاحب ٹھٹھا اڑاتے ہوئے یہ بتا رہے تھے کہ پیٹرول پر سابقہ حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی کے بعد سب سے زیادہ فائدہ سرمایہ داروں کو ہو رہا ہے اور اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے اپنی کمپنی کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق اگر ان کی مصنوعات کا کنٹینر کراچی سے اسلام آباد آتا ہے تو اس پر حکومت پاکستان کی جانب سے ان پر تقریباً ستاون ہزار روپے فی کنٹینر ڈیزل پر سبسڈی کی مد میں خرچے جا رہے ہیں۔

یہ وہی صاحب ہیں کہ جنہوں نے اپنی ایک پراڈکٹ کی مقدار کم ہونے پر ایک انٹرویو کچھ عرصہ قبل ہی فرمایا تھا کہ مقدار اور تعداد کم ہونے کی وجہ سے اس وقت کی حکومت کی پالیسیاں ہیں جس کی وجہ سے مجبوراً انہیں اس مشہور پراڈکٹ کی مقدار اور تعداد کم کرنی پڑی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس وقت ہونے والی مہنگائی کے بوجھ کو انہوں نے اپنے سر لینے کے بجائے خریدار پر ڈال دیا۔ یہی وتیرہ انہی اور ان کے جیسے دیگر سرمایہ کاروں کی جانب سے اپنایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اتنی سبسڈی کے باوجود پیارے مفتاح اسمعیل اور دیگر صنعت کاروں کی جانب سے نہ ہی مزدور طبقہ اور دیگر کم تنخواہوں والے افراد کی تنخواہیں بڑھائی گئیں نہ ہی الاونسز دیے گئے۔

مفتاح صاحب کے پچھلے بیان کی گرد ابھی بیٹھی ہی نہیں تھی کہ دوسرا بیان داغ دیا کہ پیٹرول اور ڈیزل تو استعمال ہی امیر طبقہ کرتا ہے۔ پیارے مفتاح صاحب آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں کئی ایسے سٹارٹ اپس اب دم توڑ رہے ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کا نہ صرف روزگار وابستہ تھا بلکہ مستفید ہونے والے بھی متوسط طبقہ کے لوگ تھے۔ محترم قارئین میں بذات خود اشیائے ضروریہ اور نقل و حرکت کے لئے اوبر، کریم، بائیکیا، سوائیول یا پھر ائر لفٹ کو ترجیح دیتا ہوں۔ موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے نہ صرف ان سٹارٹ اپس کی جانب سے فری ڈیلیوری کی سہولت دی جاتی تھی بلکہ اشیائے ضروریہ کے نرخ بھی عام کریانہ کی دکان سے کم ہوتے تھے۔

محترم قارئین ان سٹارٹ اپس پر کام کرنے والے افراد میں سے ایک بڑی تعداد ان بے روزگار نوجوانوں کی ہے جن کو کسی پرائیویٹ ادارے میں ملازمت نہیں مل سکی۔ بلکہ ایسے بھی کئی نوجوان ہیں جو دوردراز کے علاقوں سے تعلیم کے حصول کے لئے بڑے شہروں میں مقیم ہیں۔ کئی طلباء کلاسز کے بعد ان سروسز پر کام کرنے کے ذریعے باعزت طریقے سے چالیس سے پچاس ہزار روپے ماہانہ تک کما رہے ہیں۔ مگر اس وقت یہ صورتحال ہے کہ محترم مفتاح اسمعیل صاحب آپ کے پیٹرول بڑھانے کے اقدام کے بعد سے سب سے زیادہ متاثر بھی یہی لوگ ہو رہے ہیں۔ مفتاح صاحب آپ کے اس اقدام سے ان کی آمدن اب آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اسی طرح سے اسی پیٹرول کی قیمت بڑھنے کے بعد نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے ہوشربا حد تک بڑھے ہیں بلکہ گھی، کوکنگ آئل، سبزیوں پھلوں کے نرخ بھی بڑھے ہیں۔

مفتاح صاحب اب آپ بے شک آٹھ آٹھ ہزار بھی امداد کے نام پر چند کروڑ خاندانوں کو دے ڈالیں مگر جو آپ کے اس اقدام نے تباہی مچا دی ہے اور اس کے بعد جو مہنگائی کا طوفان آیا ہے اس سے عام آدمی کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے۔ جو مزدور یا نوکری پیشہ فرد ہے اس کی تنخواہیں تو نہیں بڑھیں مگر اس دفعہ گندم چھبیس سو روپے فی من تک پہنچ گئی ہے۔ کوکنگ آئل سات سو روپے تک پہنچا ہوا ہے، ایک چھوٹے سے گھر کی سبزی بھی ایک سو روپے سے کم میں نہیں ملتی ہے۔ اب آپ ہمیں لاکھ تاویلیں دیں کہ یہ سب پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے اور آپ آئی ایم ایف کے ہاتھوں مجبور ہیں مگر ایک عام آدمی کو مطلب ہے تو دو وقت کی روٹی سے، جو آپ سے پہلے والے نے مشکل بنائی تھی تو آپ نے اس کا حصول مشکل ترین بنا دیا ہے۔

مفتاح صاحب آپ نے کون سا ووٹ لینے کے لئے عام آدمی کے پاس جانا ہوتا ہے جو آپ کو ان سب باتوں کا اندازہ بھی ہو۔ آپ نے تو وزارت کے جانے کے بعد جاکر اپنی بزنس ایمپائر سنبھال لینی ہے مگر رل جانا ہے تو کس نے، میں نے اور میرے جیسے عام آدمی نے، تبھی ایک سیاسی جماعت کے ووٹ بینک کا کباڑا کرنے کے بجائے آپ سے التجا ہے کہ آپ جائیں اور اپنا کاروبار سنبھالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments