غریبوں کے سوداگر


موجودہ معاشی بدحالی اور سیاسی افراتفری غریبوں کی سسکیوں اور آہوں میں مسلسل اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔ ایک ہی مہینے میں تقریباً ساٹھ روپے کا پیٹرول مہنگا کر دیا گیا، غریب پر تو جیسے کوئی قدرتی آفت ٹوٹ پڑی ہے۔ ایک غریب مزدور سارا دن گرمی میں محنت مشقت کر کے جب ایک ہزار روپے اجرت لے کر شام ڈھلے گھر پہنچتا ہے، تو اس سے وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت تو درکنار پیٹ پالنے کے بھی قابل نہیں ہوتا۔ غریب کے لیے جینا محال ہو گیا ہے۔

بلکہ اس دور مہنگائی میں اس کے لیے جینا موت سے بھی بدتر ہے۔ کوئی غریب ماں کیسے اپنے بھوک سے بلکتے بچوں کو دلاسا دے سکتی ہے اور مزدور باپ کس طرح بھوک سے نڈھال بچوں کو تڑپتا ہوا دیکھ سکتا ہے؟ یہ قیامت سے پہلے قیامت ہے۔ یہ قیامت پاکستان کی 23.8 فی صد آبادی جو کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، پر نہ صرف ہر روز ٹوٹتی ہے بلکہ پل پل ٹوٹتی ہے۔ کوئی ہے جو ان کی داد رسی کرے؟ کون ہے جو ان کے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے؟

بدقسمتی سے ملک کی نمائندگی تو اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ انہیں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے مسائل کے ساتھ کیا سروکار۔ انہیں پیٹرول کے 210 روپے فی لیٹر ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ان کے لیے 210 روپے ہو یا 310 روپے۔ ایک برابر ہے۔ ہماری اشرافیہ تو پہلے ہی ڈالرز میں کماتی اور ڈالرز میں خرچ کرتی ہے۔

گنتی کے چند ایک خاندان ساری سیاسی جماعتوں کو اپنے قبضے میں لیے ہوئے ہیں۔ کوئی خود ایک جماعت میں اور اس کا سگا بھائی دوسری جماعت میں ہے۔ کسی کا عزیز رشتہ دار ادھر اور بیٹا ادھر ہے۔ الغرض انہوں نے عوام کو ایک دوسرے سے لڑوا کر بے وقوف بنایا ہوا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت بشمول عسکری قیادت حکومت تشکیل کر لے، غریبوں کی حالت زار پھر بھی نہیں بدلنے والی۔ جو بھی تختہ سلطنت پر براجمان ہوتا ہے، ملکی وسائل کو بے دریغ لوٹ کر باہر فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ ان سب کے بچے، کاروبار اور جائیدادیں باہر کے ممالک میں ہیں۔ یہ لوگ یہاں صرف حکومت کرنے اور عوام کو لوٹنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا مقصد کبھی بھی غریبوں کی فلاح و بہبود کرنا نہیں رہا۔

اگر ایسا نہیں ہے، تو بتائیے پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ملک سے بے روزگاری اور غربت ختم کرنے کے لیے کس نے خاطر خواہ اقدامات کیے؟ بڑھتی ہوئی آبادی اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کون آگے بڑھا؟ بجلی کی قیمتیں دن بدن آسمان کو چھوتی جا رہی ہیں۔ اس کی زیادہ تر پیداوار مہنگے درآمد شدہ تیل سے کیوں کی جا رہی ہے؟ کیوں اشرافیہ کو بجلی پیدا کرنے کے لیے ہمارے دریا، کوئلے کے ذخیرے، ساحلی پٹی اور شمسی توانائی نظر نہیں آتیں؟

تعلیم کے میدان میں اتنی پسماندگی کیوں ہے؟ آج بھی سرکاری سکولوں میں رٹا کلچر عام ہے۔ زراعت کی صورتحال اتنی بری کیوں ہے؟ کس نے کسانوں کو اعلیٰ کوالٹی بیج اور سستی کھاد مہیا کرنی ہے؟ کس نے صنعتی پالیسی کو ہمارے ملک کے ماحول اور ثقافت کے مطابق ڈھالنا ہے؟ کس نے جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ سمیت ملک کی خواتین کو ان کے جائز حقوق دلوانے ہیں؟ اقلیتوں کو تحفظ دینا کس کا کام ہے؟ لوگوں کے جان مال کی حفاظت کون کرے گا؟ امن عامہ کی صورتحال کو برقرار رکھنا کس کا فرض ہے؟ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے آج تک کس نے اقدامات کیے ہیں؟ المختصر، انسانی ترقی کے سارے پیمانوں کے لحاظ سے ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

پاکستان کا کوئی بھی نظام خواہ وہ سیاسی، معاشی، معاشرتی، انتظامی یا مذہبی ہو، آپ اس کو صحیح طرح پرکھ کر اس کی جانچ پڑتال کر لیجیے، آپ سمجھ جائیں گے کہ اس کے سارے تانے بانے اس ملک کی اشرافیہ کے ساتھ جا کر ملتے ہیں۔ اور اس اشرافیہ نے ہر لحاظ سے غریبوں کو اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ وہ ساری زندگی محنت و مشقت کے باوجود ترقی و خوشحالی حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے ترقی کے سارے جائز راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اگر وہ زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنا چاہتے ہیں تو انہیں کسی نا کسی غلط راستے کا انتخاب کرنا پڑے گا۔

ورنہ غربت اور اس کے بدترین اثرات انہیں اس طرح گول چکر میں گھمائیں گے کہ وہ ان کی نسلوں سمیت غریب پیدا ہوں گے، غریب جواں ہوں گے اور غریب ہی مر جائیں گے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ غریبوں کو جاگنا پڑے گا۔ اپنے حقوق کے لیے اٹھنا پڑے گا۔ زندگی کی چوبیس گھنٹے کے لیے دال روٹی کی دوڑ سے باہر نکل کر قومی سوچ کو اپنانا پڑے گا۔ اپنے وطن، اپنی پاک سر زمین کے لئے ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ اپنے جیسے لوگوں کو اپنا لیڈر بنانا پڑے گا۔

بقول علامہ اقبال
اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
نہیں تو پھر ایسے ہی جیتے رہو، غربت و مہنگائی میں پستے رہو اور یہ زہر آشوب صبح و شام پیتے رہو۔

عاصم پرویز گورسی
Latest posts by عاصم پرویز گورسی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments