اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں، اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں دو سوال زیر بحث لانا ہوں گے، پہلا یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ہمیں کیا نقصان ہو گا؟ اور دوسرا یہ کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہو گا؟ ان کے ساتھ ایک ضمنی سوال بھی اگر شامل کر لیا جائے تو انگوٹھی میں نگینہ جڑ جائے گا، کیا ہم بحیثیت قوم اسرائیل کو مذہب کی عینک کے بغیر دیکھ سکتے ہیں؟

دنیا اب گلوبل ولیج بن چکی ہے جس سے کٹ کر ہم نہیں رہ سکتے، مگر ہمارے فیصلہ ساز اس قدر بیدار مغز ہیں کہ وہ دنیا سے کٹنے کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتے۔ جس کے ساتھ خود کو جوڑنے کی ضرورت ہوتی ہے اس سے قطع تعلقی میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی، ایسی صورت حال میں محاورہ کی صداقت پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ اس دنیا میں لوگ ٹخنوں سے بھی سوچتے ہیں۔

کسی ملک کے ساتھ جب آپ جڑتے ہیں یا سفارتی الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ کسی ملک کے ساتھ تعلقات استوار کیے جاتے ہیں تو فقط اپنے ملک کے لوگوں کا فائدہ منظور ہوتا ہے۔ یہ تعلقات عارضی ہو سکتے ہیں اور مستقل بھی۔ جیسے ہی کسی ملک کو لگتا ہے کہ اب دوسرے ملک سے فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا تو تعلقات سرد مہری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ کسی ملک کے ساتھ آپ سفارتی تعلقات فقط اس بنیاد پر استوار نہ کریں کہ بابائے قوم بھی اس ملک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا نہیں چاہتے تھے۔

اسرائیل کے معاملے میں پہلی دلیل یہی ہوتی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے قائد اعظم کو ایک خط لکھا تھا، جس کا قائد نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کیوں کہ قائد اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ راوی اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ قائد اسرائیل سے تعلقات کیوں نہیں قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ ممکن ہے کہ قائد کو اس وقت یہ لگا ہو کہ اسرائیلی ریاست ابھی نئی نئی قائم ہوئی ہے، اس لیے عربوں سے پہلے اسے تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ چوں کہ ہمیں ہر معاملے میں مذہب کا تڑکا لگانے کی عادت ہے، اس لیے قائد کا یہ قدم بھی مذہبی شکل اختیار کر گیا۔

قائد کے دور میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا شاید پاکستان کے حق میں مفید نہ تھا، لیکن آج اگر اس ملک کو بطور ریاست تسلیم کر لیا جائے تو اس سے ہمیں صرف فائدہ ہو گا۔ اس خطے میں تجارتی تعلقات قائم کرنا اسرائیل کے لیے ناگزیر ہے۔ جب ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے تو وہ ہندوستان جیسے ممالک کے ساتھ بلین ڈالر کے تجارتی معاہدے کرتا ہے اور ہم تجاہل عارفانہ کے ساتھ آسمان کو تکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت صحرا کو سیراب کرنے والی ٹیکنالوجی صرف اسرائیل کے پاس ہے، جسے ہم چرا بھی نہیں سکتے۔ صرف حاصل کر سکتے ہیں اور وہ بھی سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد ۔

آپ کے نیاز مند کا تعلق دیہات سے ہے اور خاندان زراعت کے پیشے سے منسلک ہے۔ دھان کی فصل جب کاشت کی جاتی ہے تو پورے چار ماہ تک اس میں برابر پانی رکھنا ہوتا ہے کہ زمین اگر ذرا بھی سوکھ جائے تو فصل بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس طرح نہ جانے کتنے ٹریلین لیٹر پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کے اس ضیاع سے بچنے کے لیے اسرائیل نے یہ ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے کہ جس پودے کو پانی کی جتنی ضرورت ہو اسے اتنا پانی فراہم کر دیا جائے۔ اسی وجہ سے وہاں صحرا بھی آباد ہو رہے ہیں جب کہ ہمارے ہاں پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے لاکھوں ایکڑ صحرا کی زمین بنجر پڑی ہے، سوچیئے اگر اسرائیلی ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ زمین آباد ہو جائے تو زراعت کے شعبے میں کس قدر انقلاب آئے گا اور لوگوں کا معیار زندگی کتنا بہتر ہو گا۔

پہلے سوال کا جواب پھر یہ ہوا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے ہمیں نقصان کے بجائے صرف فائدہ ہو گا۔ تجارتی معاہدے ہوں گے، ٹیکنالوجی حاصل ہو گی، اور اسرائیل اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں بھی نہیں ڈالے گا۔

اب دوسرے سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہو گا۔ 1947 ء سے لے کر آج تک ہمارے نہ تسلیم کرنے سے کیا فلسطینی حریت پسندی کی جنگ جیت گئے؟ کیا ان کا معیار زندگی بہتر ہو گیا؟ کیا عالمی سطح پر ان کے موقف کو پذیرائی ملی؟ سوالات کا سلسلہ دراز ہوتا جائے گا اور ہر سوال کا جواب نفی میں ہو گا۔ ہم اسرائیل کو تسلیم کریں یا نہ کریں، فلسطینیوں کی حالت پر کچھ فرق نہ پڑے گا۔ لہذا اس معاملے میں ہمیں جذبات کی قبا اتار کر سوچنا ہو گا کہ فلسطینیوں کی مدد کا بہترین طریقہ کون سا ہے، نہ کہ جذبات کی شراب سے مدہوش ہو کر فقط یہ نعرہ مستانہ بلند کر دیا جائے کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کر کے ہم فلسطینیوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔

آخر میں ضمنی سوال کا جواب یوں ہے کہ جس ملک میں ہر جمعے کی نماز کے بعد یہ دعا کی جائے کہ یا اللہ! یہود و نصاری کی سازشوں کو ناکام فرما اور ہمیں ان کے مقابلے میں فتح نصیب فرما تو کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہم اسرائیل کے معاملے کو مذہب کی آنکھ کے بغیر دیکھیں گے۔ اس کے ساتھ جب دائیں بازو کے کالم نگار غزوہ ہند کا نقشہ کھینچتے ہیں اور یہودیوں کا مسلمانوں کا ازلی دشمن بتاتے تو گرم لوہے پر ضرب پڑتی ہے۔ اور ہمارا خمیر ویسے ہی جذبات سے گندھا ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل کے ذکر پر ہم مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔