جمشید فرشوری: جوۓ شیر لانے کے لۓ ہمہ وقت تیار


عام طور پر یہ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ جب کوئی کسی بھی میدان میں کچھ کر کے دکھانا چاہتا ہے تو وہ، وہاں موجود باقی افراد سے مختلف، متحرک اور ممتاز نظر آتا ہے۔ اس مشاہدے سے اختلاف کی بہ ظاہر کوئی وجہ نہیں لہٰذا اس کی تائید کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یقیناً ایسا ہی ہوتا ہو گا!

اب یہاں سوال یہ ہے کہ جب کوئی اس سے بھی آگے جاکر، کسی بھی میدان میں اگر کچھ غیر معمولی کر کے دکھانا چاہتا ہے جیسا کہ اس مثال میں، جس کا تذکرہ کچھ دیر میں شروع ہونے کو ہے، تو یوں لگتا ہے جیسے کچھ شخصیات واقعتاً اس قدر متنوع اور ایسی خصوصیات سے مالا مال ہوتی ہیں کہ ان کی حقیقی تصویر کشی، الفاظ میں شاید ممکن نہ اور ایسی شخصیات کو سمجھنے کے لئے ایک ہی شرط ضروری نظر آتی ہے کہ آپ خود ان کے عادات و اطوار کے شاید رہے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہونا، ہر جگہ، انسانی سطح پر ممکن نہیں سو یہی الفاظ بالآخر اپنی تمام تر عاجزی کے ساتھ اس کی (مکمل یا ادھوری ) ترجمانی کا وسیلہ بنتے ہیں۔

یہاں بھی اب یہی مشکل درپیش ہے کہ ایک ایسا تیز گام شخص جو ہر لمحہ اس بے تابی کا شکار ہو کہ، ایک کام ختم ہوتے ہی دوسرا کام اس کا منتظر ہو اور پھر تیسرا اور یوں۔ یہ سلسلہ نہ ختم ہونے والا دائرہ بنتا چلا جائے، ایسے شخص کی نقش گری کے لئے موزوں ترین الفاظ، کی تلاش کیوں کر ممکن ہو! یہ الجھن ہمیشہ الجھائے رکھتی ہے۔ پھر یہ تو ابھی شخصیت کے محض ایک پہلو کی بات ہے، خود سوچیئے وہ شخصیت، جو کام اور کام کے تسلسل سے، اتنا نبرد آزما ہونے کا عادی ہو، وہ کتنی پہلو دار شخصیت کا حامل ہو گا۔

پاکستان ٹیلی وژن کی ابتدائی تربیت کے دوران، سینیئرز کے بہ قول، عمومی رجحان ( ڈرامے ) کی بجائے جس نے بچوں کے پروگراموں میں دل چسپی ظاہر کی ہو، یہ میلان درحقیقت اس خصوصی طرزعمل کا اعلان تھا کہ میرا راستہ وہ قطعی نہیں، جس پر سب چلنے پر آمادہ ہوں۔ غالباً یہی وہ انفرادیت کی جستجو تھی جس نے عام ڈگر سے ہٹ کر چلنے پر اکسایا۔ جو سب کرتے ہیں یا کر رہے ہیں ان سے علیحدہ ہو کر سوچنے اور سوچتے رہنے کی ترغیب دی۔ تخیل کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے، ناممکن کا لفظ اپنی لغت سے منہا کیا اور یہ طے ہوا کہ انتہا سے سفر کی ابتدا، ہمیشہ، ہم سفر ہوگی۔ ہدف وہی ہو گا جو دل اور دماغ کی مشاورت سے نمایاں ہوا ہے اور پھر اس کا حصول جس قدر دشوار ہو، اس سے دست کش نہیں ہونا۔

منصوبہ بندی کے ساتھ مقررہ وقت میں تو سبھی کام مکمل کیا کرتے ہیں مگر یہاں، ناگہانی اور ایمرجنسی میں ملے کام کی خوشی دوگنی تھی۔ طبیعت میں موجود چیلنج قبول کرنے کا جذبہ، تب اور مہمیز ہوتا جب سب کچھ کرنے کے لئے، باقی سب کچھ میسر نہ ہو۔ ایسے میں، ایسا محسوس ہوتا جیسے کہیں سے مزید توانائی اور چستی بھر آئی ہے۔ کم ٹیلی وژن پروڈیوسر ہوں گے جو مختصر ترین ٹائم لائن میں پروگرام آن ائر کرنے کا ایسا شاندار ریکارڈ رکھتے ہوں۔ قدرتی آفات کی ٹرانسمیشنز بھی ہنگامی حالات میں بکھری ہوئی چیزوں کو سمیٹ کر بیک وقت مختلف اہداف تک پہنچنے کا نام ہے، پھر اس چیلنج میں کون ان سے آگے نکل سکتا تھا۔ پس ( پی ٹی وی سے ) لائف لائن کی اصطلاح، درحقیقت غیر معمولی حالات میں غیر معمولی پرفارمنس دینے والے کی سرشاری کا مستقل عنوان ہے۔

ڈگر سے ہٹ کر کچھ غیر معمولی اور نیا کر دکھانے کی تڑپ نے یہ حوصلہ اور جرات بھی دی کہ آزمودہ اور جانے پہنچانے چہروں کے ساتھ، کچھ کر دکھایا تو، کیا کمال کیا، سو، اتنے نئے چہرے متعارف کرائے کہ اسلام آباد مرکز، ایسی دوسری مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور شاید یہی نہیں، اس معاملے میں صورت حال ایسی ہے کہ دوسرے مراکز بھی اس انفرادیت کے اعتراف میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرسکیں۔ اسلام آباد کی حد تک تو، اس حوالے سے یہ عمل شاید زیادہ صحیح اور دانشمندانہ ہو کہ فنکاروں کی وہ فہرست بہت آسانی سے تیار کی جا سکتی ہے جس میں ان کے متعارف کردہ افراد نہ ہوں۔ ان متعارف کردہ چہروں کی یہ کثرت دیکھ کر، یوں لگتا ہے کہ ہر نئے پروگرام اور نئے آئیڈیے کے ساتھ، جیسے کسی پو شیدہ ہونہار کو بھی سامنے لانے کا خود سے تہیہ کیا ہو۔

تخلیقی میدان میں، تخلیقی عمل کا پہلا مرحلہ بلاشبہ آئیڈیاز کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو بتدریج مختلف مراحل سے گزر کر ایک مکمل وجود کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ زرخیز ذہن وہی کہلائے جا سکتے ہیں جو اپنے گردونواح میں بکھرے مظاہر یا اپنے تخیل سے جنم لینے والے نئے خیالات اور سوالات کو، کوئی صورت دے سکیں۔ جب یہ طے کر لیا کہ سب، سب سے ہٹ کر کرنا ہے تو اس دوڑ میں پیچھے رہنے کا سوال کیوں۔ سو اس میدان میں بھی ان کا شمار بجا طور پر ان شہ سواروں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ تخلیقی صلاحیت کے صف اول میں موجود رہے۔

روایتی جنرل مینیجرز کانفرنس کا خاص موقع ہو، یا عام دنوں میں کسی موضوع یا صورت حال پر آئیڈیاز کی طلب ہو، اتنے سارے آئیڈیاز اس حصے میں آتے ہیں کہ یہ کہنا محال ہے کہ پاکستان بھر میں قائم تمام مراکز میں کوئی ان کا ہم سر رہا ہو۔ ان آئیڈیاز کا قدر مشترک اگر کچھ ہے تو محض یہ کہ کوئی ایسی بات یا کوئی بات، اس انداز سے کی جائے، جو اس طور، پہلے نہ ہوئی ہو۔

یہیں سے وہ سرحد شروع ہوتی ہے جہاں ایک تخلیق کار اور بجا طور پر، ایسا ہی تخلیق کار اس بات کا آرزومند ہوتا ہے کہ پروگرام کی ڈیزائننگ اور فارمیٹ، تخلیقی دنیا کے بدلتے رجحانات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ مروجہ حدود میں رہ کر تنوع کی خواہش کیوں کر ممکن ہے! تخلیقی سلسلہ تو، خیال سے لے کر، اس پر عمل درآمد کے تمام پہلوؤں پر محیط ہوتا ہے اس لئے ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ ندرت اور نئے پن کا دامن نہ چھوٹے۔

بہت سارے شرکا کو یکجا کر کے اپنی نوعیت کا سماجی موضوعات پر پہلا ٹاک شو، جسے رؤئے سخن کا نام دیا گیا اور جس کی میزبانی کا فریضہ نامور اسکالر پروفیسر لئیق احمد نے انجام دیا۔ ملک کی کسی ممتاز شخصیت ( مثلاً طالش، نثار بزمی، منیر نیازی، فریدہ خانم وغیرہ ) کا مہمان خصوصی بننا اور مختلف حوالوں سے ان کے پسندیدہ مہمانوں کا ان کی خواہش پر ایک پلیٹ فارم پر ملنے کا اہتمام! ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر عنبرین کی میزبانی میں فیملی فورم تلے خاندانی مسائل کا تجزیہ، ایسے منفرد سیٹ کے اعتبار سے پہلا شو جس میں میزبان کی پشت پر بھی حاضرین دکھائی دیے۔ کسب کمال، خود واضح کر رہا ہے کہ باکمال فنکاروں کی باکمال اولاد کی ہنر مندی کا احوال۔ ممتاز شاعروں کے اپنے منتخب ساتھیوں کے ساتھ مکالمے اور اپنی تخلیقات کے تبادلے نے، محفل دوستاں کی صورت پائی۔ اسپورٹس سمیت متعدد لاجواب کوئز پروگراموں کا اگر کوئی صحیح جواب ہے تو وہ بھی اسی نام سے منسوب ہے۔

ان گنت تخلیقات کی نہ ختم ہونے والی کہانی جس میں ہر جگہ محنت، لگن، جنون اور دیوانگی، کی پرچھائیں بہ خوبی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔

نہیں معلوم اس جرات مندی کے ساتھ، اس مشکل پسندی کا انتخاب کرنے میں کون نشان راہ بنا یا یہ خاصیت ہمیشہ سے مزاج کا حصہ تھی تاہم یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اور دوسرے ابتدائی اساتذہ کے، اس حس کو بڑھاوا دینے میں پروفیسر لئیق احمد کی رفاقت نے ضرور اپنا کردار ادا کیا ہو گا جن کے ساتھ مل کے، طویل عرصے تک جاری رہنے والے پروگرام سائنس میگزین میں جستجو و تحقیق کی نئی داستان رقم کی گئی۔ اس کی ایک مثال اس سیریز کا وہ پروگرام ہے جس میں کوڑے کے ڈھیر سے ہڈی چننے والے ایک بچے کے تعاقب میں راولپنڈی اور گجرات سے ہوتے ہوئے کراچی کا سفر کیا گیا اور یہ عقدہ کھلا کہ بہ ظاہر ناکارہ دکھائی دینے والی یہ ہڈیاں بیرون ملک بھیجی جاتی ہیں اور یوں عملاً یہ زرمبادلہ کا ایک روپ ثابت ہوتی ہیں۔ اس تحقیقی تجسس اور اس تخلیقی تعاقب پر، بلاشبہ دونوں کو اپنی اپنی جگہ ایسے شاندار دستاویزی پروگرام بنانے پر جتنا سراہا جائے کم ہے، سو یہی ہوا اور دونوں ہی ایوارڈز سے سرفراز ہوئے۔

یہاں یہ اعتراف بے جا نہ ہو گا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی ہتھیلیوں پر کام، کام اور کام کی جتنی لکیریں کھینچ لی تھیں اس کے پیش نظر، ان کے پیشہ ورانہ ساتھیوں کا یہ متفقہ دعوی، حق بہ جانب دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان ٹیلی وژن میں ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا گر، اگر کوئی جانتا تھا تو وہ کوئی اور نہیں، صرف اور صرف جمشید فرشوری تھے۔

( جون 2015 میں جمشید فرشوری، متعدد بیماریوں سے نبرد آزمائی کرتے، اپنے جونیئرز کے لئے کام سے لگاؤ کی ایک روشن اور منفرد مثال قائم کر کے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments