صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی یافتہ گلوکار اور کمپیئر سلمان علوی


اس وقت خوشی کا عالم کیا ہو گا جب آپ کسی ایسی شخصیت کا انٹرویو کریں جس کا اور آپ کا بچپن ساتھ گزرا۔ بچپن میں محلے میں بچوں کے فنکشن اکٹھے کیے۔ ریڈیو پاکستان کراچی کے گہوارے میں بھی ساتھ رہا۔ پھر جامعہ کراچی اور دیگر پروگراموں میں ان کے گروپ ”رین ڈراپس“ میں کبھی کبھار گانے سنانے کا بھی اتفاق ہوا۔ اور یہ دوستی اب تک قائم ہو! جی ہاں سلمان علوی المعروف سلمان میاں کراچی ائرپورٹ میں میرے والد صاحب کے سرکاری مکان کے پڑوسی نجیب، مجیب، حسیب کے قریبی عزیز تھے۔

نجیب وغیرہ کے کزن عدنان، جناب شان الحق حقی اور جناب سلمیٰ حقی کے بیٹے ہیں۔ ہم سب کا تب سے ساتھ ہے جو ماشاء اللہ اب تک قائم ہے۔ سلمان میاں کا فنی سفر ماؤتھ آرگن، بینجو اور اکارڈین سے ہوتا ہوا غزل کے گلوکار تک آ پہنچا۔ دوستی، فن اور مہارت اپنی جگہ لیکن یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ سلمان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی قدرتی مسکراہٹ اور ملکی اور بین الاقوامی شہرت ملنے کے باوجود زمین پر رہنا ہے۔ 27 دسمبر 2021 کو کراچی میں سلمان کے ہاں عرصے بعد ایک طویل نشست ہوئی۔ مزے کی بات

انٹرویو تو ایک بہانہ تھا میں دراصل اس کی لکھی اور کمپوز کردہ لوری سننے گیا تھا۔ جو اس نے اپنے نواسے کے لئے لکھی تھی۔ جب اس نے مجھے واٹس ایپ پر اپنی آواز اور اپنے میوزک میں بھیجی تو ایک بھرپور تاثر دے گئی۔ پھر انٹر ویو کے بعد نہ جانے کتنی صدیاں ہم نے باتیں کیں۔ بہر حال یہ سب روداد شاید ایک مضمون میں سما بھی نہ سکے۔ میں شائقین کے لئے چیدہ چیدہ باتیں پیش کرتا ہوں :

شروعات:
” آج آپ جس مقام پر ہیں اس کی شروعات کیسے ہوئیں؟“ ۔

” شاہد! پہلے تو یہ کہ میری اور تمہاری دوستی بہت پرانی ہے جس کا مجھے فخر بھی ہے اور اس حوالے سے ملنا اچھا لگا کہ شاہد لطیف میرے لئے لکھیں گے! میرے لئے اعزاز ہے۔ بہرحال بات بچپن سے شروع کرنا پڑے گی کیوں کہ یہ شوق تو بچپن کا ہی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ خالی موسیقی ہی نہیں کوئی بھی آرٹ بچے کی جین میں موجود ہوتا ہے وہ اگر پینٹر ہو گا تو اس میں آپ کو ’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘ نظر آ جائے گا۔ وہ لکیریں کھینچے گا، تصویریں اچھی بنا لے گا۔

گلو کار ہو گا تو کچھ نہ کچھ گنگنائے گا۔ موسیقی سے شغف ہو گا تو ردھم پر ہلے گا اور گانے کا مزہ لے گا۔ جو گھرانے موسیقی کو وراثت میں لے کر آتے ہیں انہیں پتا ہوتا ہے کہ گھرانے کی روایت ہمیں لے کر چلنی ہے۔ وہ پہلے دن سے اپنے بچے کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جن لوگوں میں یہ وراثت کا معاملہ نہیں وہاں بچے کے والدین بعض دفعہ اس بات کو پکڑ ہی نہیں پاتے کہ بچے میں کیا صلاحیت ہے۔ وہ تو اس میں لگے ہوتے ہیں کہ بچے کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانا ہے، ایم بی اے کرانا ہے۔

بچہ ابھی پیدا ہی ہوتا ہے تو یہ سوچا جاتا ہے کہ اس کو کون سے اسکول میں داخل کرانا ہے؟ کس کالج میں جائے گا؟ اور کیا کرے گا؟ اس طرح بہت سارے ممکنہ سپر فنکار وہیں پر کچل دیے جاتے ہیں یا اس صلاحیت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ بچہ میوزک میں زیادہ گیا تو بگڑ جائے گا! میرا سوال ہے کہ بگڑ کیسے جائے گا؟ آخر والدین کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو وہ کھیلنا چاہتا ہے، ٹی وی بھی دیکھنا چاہتا ہے کمپیوٹر اور دوستوں میں بھی وقت گزارنا چاہتا ہے۔

آپ بحیثیت والدین یا سرپرست اس کے وقت کا تعین کرتے ہیں نا! کہ بیٹا یہ وقت تمہارے پڑھنے کا ہے۔ اس وقت تم ٹی وی دیکھو گے۔ تو بھئی آپ فن کے لئے وقت کیوں نہیں نکال سکتے؟ کہ بیٹا اب تمہارا موسیقی کا وقت ہے یا پینٹنگ کا وقت ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ معذرت کے ساتھ ہم ہر ایک فن کے ساتھ تھوڑی سی منافقت کرتے ہیں۔ اس لئے ہمارے بڑے بڑے لوگ جیسے مصور اور خطاط شاکر علی اور صادقین صاحب وغیرہ کو ہم نے وہ نہیں دیا جو انہیں ملنا چاہیے تھا۔ اسی طرح موسیقی اور دیگر فنون میں بھی ہیں۔ نامور فنکار کو سن کر واہ واہ کرنے کے بعد یہ سوال کیا جاتا ہے کہ صاحب آپ اور کیا کرتے ہیں؟ ”۔

” واقعی یہ بہت تکلیف دہ بات ہے! “ ۔ میں نے کہا۔

” بھئی یہ تو خدا کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ سکھانے سے فن نہیں آ سکتا۔ اس کی ’جین‘ ہونی چاہئیں۔ ایک میوزیشن جو کر رہا ہے وہ ہی تو اس کا کام اور رزق ہے“ ۔

” میرے والدین شعبہ تدریس سے متعلق تھے۔ دونوں کا اس شعبہ میں الحمدللہ بڑا نام ہے۔ تو ایسے گھر میں ایک تین برس کا بچہ جس کو موسیقی کا شوق ہے اس زمانے میں بڑی عجیب بات تھی کہ دیکھو! علوی صاحب کا بچہ موسیقی کے شوق میں پڑنے والا ہے۔ یہاں میں اپنی والدہ کا مرہون منت ہوں کہ جب انہوں نے دیکھا کہ اس بچے کو میوزک سے شغف ہے تو مجھے میرا پہلا ساز ماؤتھ آرگن دلایا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد بینجو اور ایک چھوٹا ڈھول بھی لا کر رکھ دیا کہ بجاؤ!

میرے والد صاحب جن کا علی گڑھ سے تعلق ہے ان کو بھی شوق تھا میرے دادا جج تھے۔ میرے والد کہتے ہیں کہ ہم جب چھوٹے تھے تو ہمارے والد اپنے وقت کے بڑے اساتذہ کو بلا کر موسیقی کی محفلیں کراتے تھے۔ اور ہمیں زبردستی بٹھایا جاتا اور آداب سکھائے جاتے تھے۔ جب کہ اس وقت والد صاحب کو کلاسیکی گانوں کی کچھ سمجھ نہیں تھی۔ اسی طرح مشاعرے ہوتے جن میں ہمیں بٹھا دیا جاتا تھا جب کہ ایک لفظ نہیں سمجھ آتا تھا۔ کہا جاتا کہ بیٹا چلو پوری محفل میں نہیں، بس دو گھنٹے بیٹھ لو! دیکھو کس طرح لوگ داد دے رہے ہیں۔ آداب کیا ہیں۔ یہ سب آج کل ہوتا ہی نہیں۔ بہر حال میرے والد صاحب نے کہا کہ اس بچے کو موسیقی کا شوق ہے تو کوئی بات نہیں مجھے بھی تو میرے والد نے محفلوں میں بٹھایا ہے! بھلا اس میں کیا برائی ہے! ہاں اس کو پیشہ بنانا ہے یا نہیں یہ بعد کی باتیں ہیں ”۔

” جب میں نے ان سازوں پر ایک آدھ دھن نکال لی۔ تب میرے والد نے کہا کہ میں تو اس کو ریڈیو پر لے کر جاؤں گا۔ اس طرح وہ مجھے بچوں کے پروگرام ’نونہال‘ میں خود لے کر جا نے لگے۔ وہ پروگرام کے دوران بیٹھے رہتے۔ ہر اتوار کو یہ پروگرام نشر ہوتا تھا۔ میں نے ماؤتھ آرگن بجایا، بینجو بجایا۔ میری عمر لگ بھگ چار سال ہو گی۔ وہ ہی ایک عجیب بات تھی کہ چار سال کا ایک بچہ گانا بجا لیتا ہے۔ مجھے نہیں پتا شاید ٹوٹا پھوٹا ہی بجاتا ہوں گا! مگر ایک بچے کے ہاتھ سے اتنا سن لینا بڑی بات تھی۔ یوں میں سلمان میاں کے نام سے مشہور ہو گیا“ ۔

مہدی حسن کی حوصلہ افزائی:

” مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے باقی تو لوگوں نے بتایا کہ 1965 کی جنگ میں جب میری عمر 9 برس ہو گی میں نے مہدی صاحب کا ایک ملی نغمہ بجایا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مہدی صاحب برابر میں اسٹوڈیو نمبر 9 میں سن رہے تھے۔ جب پروگرام ختم ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ بچہ کون ہے اسے بلاؤ۔ یہ بات مجھے والد صاحب بتاتے تھے کہ وہ مجھے خان صاحب کے پاس لے کر گئے۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے کہا کہ بجاؤ اور مجھے سامنے بٹھا کر سنا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ خان صاحب نے ایک آدھ ’نوٹ‘ بھی درست کروایا کہ بیٹا اس کو ایسے نہیں یوں بجاؤ۔ یہ میرے لئے تو بڑا اعزاز تھا“ ۔

” خیر یہ سفر چلتا رہا۔ مجھے ساز بجانے کا شوق تھا، گاتا واتا نہیں تھا۔ پھر میں نے تیسرا ساز بانسری بجایا۔ اس کے بعد اکارڈین بجانے کا شوق چڑھا اور وہ لے لیا۔ اس دوران 1960 کی دہائی کے اواخر میں کراچی میں ٹیلی وژن آ گیا۔ یہ بھی ایک شجر ممنوعہ تھا۔ ارے ٹی وی آ گیا۔ کیسا ماحول ہوتا ہو گا! حالاں کہ میں بتاؤں شاہد! تم نے بھی اور میں نے وہ ماحول دیکھا ہوا ہے۔ اس جیسا ماحول اس زمانے میں ہمارے پچاس ماحولوں سے بہتر بالکل گھر کی طرح کا تھا!

پیشہ ور لوگ کام کرتے تھے۔ سب بہت محبت، تمیز اور ادب والے لوگ تھے۔ یہاں تو تمام ریڈیو والے لوگ ہی تھے۔ تو والد صاحب ہمیں لے کر گئے۔ انہوں نے کہا کہ ماحول تو بہت اچھا ہے! بہت اچھے لوگ ہیں۔ اس زمانے کے پروڈیوسر بھی اسلم اظہر صاحب، محسن علی صاحب، آفتاب عظیم صاحب جیسے تھے! کیا کمال کے لوگ تھے۔ ایک سے ایک بڑا نام تھا۔ میں نے پہلا کام جو کیا وہ اداکاری تھی۔ بہروز سبزواری اور میرا ٹی وی پر پہلا دن ایک ساتھ تھا۔

وہ بچوں کا پروگرام تھا۔ ہمارے ساتھ ماسٹر روفی بھی تھے جو بعد میں فلموں میں چلے گئے۔ ہم تینوں چائلڈ اسٹار بچوں کے پروگرام سے مشہور گئے۔ پھر سہیل رعنا ؔ صاحب کا پروگرام شروع ہوا۔ موسیقی کے جراثیم تو تھے ہی لہٰذا ڈرامے کے ساتھ وہاں بھی بیٹھنے لگا۔ سہیل صاحب بہت اچھا اکارڈین بجاتے تھے۔ جب میں نے ان کے سامنے یہ ساز بجایا تو انہوں نے مجھے اپنے پاس بلوایا اور بتایا کہ یہ صحیح نہیں۔ تمہارا دایاں ہاتھ بیس پر کیوں نہیں چل رہا۔

میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو کچھ پتا ہی نہیں۔ بس بجا لیتا ہوں! تو انہوں نے پھر مجھے تھوڑا بہت بتانے کی کوشش کی۔ یہ بات دوسری ہے کہ وہ مجھ سے بجا نہیں۔ ( قہقہے ) خیر! اس سب کے ساتھ پڑھائی بھی جاری رہی۔ والد صاحب نے کہا کہ پہلے پڑھائی مکمل کر لو وہ ضروری ہے۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ تم نے موسیقی کو پیشہ بنانا ہے۔ موسیقی کو پڑھائی پر حاوی مت ہونے دینا ”۔

” میرا ایک ڈرامہ“ حج اکبر ”ابھی نشر مکرر ہوا ہے۔ اس میں ذہین طاہرہ تھیں۔ بتانا مقصود تھا کہ میں نے پی ٹی وی میں ڈراموں میں اداکاری ( چائلڈ اسٹار ) زیادہ کی۔ صرف سہیل رعنا صاحب کے موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیا۔ ان کے بچوں کے پروگرام میں بھی میں نے ساز بجائے۔ گایا نہیں! “ ۔

” پھر اسکول ختم ہوا۔ جب کالج شروع ہو رہا تھا تو میرا رجحان پاپولر میوزک کی جانب تھا۔ میں نے گٹار لے لیا۔ گوگل کا زمانہ نہیں تھا لہٰذا اس کو دیکھ اس سے پوچھ۔ گٹار پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ پھر کالج سے نکلے تو ہم خیال مل گئے اور دوستوں کا ایک گروپ بن گیا۔ جامعہ کراچی کے سہیل محمود لائبریری سائنس والے اور طاہر صاحب گٹارسٹ مل گئے۔ پھر ہمارے ساتھ ایک ڈرمر (مرحوم) عارف شامل ہو گیا۔ گروپ ’رین ڈراپس‘ میں ہم یہ چار تھے۔

اس زمانے میں گروپس بہت کم ہوتے تھے۔ وسائل بھی کم تھے۔ کرایہ پر موسیقی کے ساز اور ساؤنڈ سسٹم بھی کم کم اور کافی مشکل سے دستیاب ہوتا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ گروپ جامعہ کراچی میں مقبول ہو گیا۔ ہمارے گروپ کی دیگر کالجوں کے پروگراموں میں بھی شرکت ہونے لگی۔ اس رین ڈراپس گروپ سے میں نے گانا شروع کیا۔ اور وہ بھی حادثہ ”۔

” ارے! وہ کیسے؟“ ۔ میں نے بے ساختہ سوال کیا۔

” وہ ایسے کہ ہم چار تو میوزیشن تھے۔ میں بیس گٹار، طاہر صاحب لیڈ گٹار، سہیل صاحب گٹار پر کورڈ اور عارف ڈرم بجاتا تھا۔ ہمارے ساتھ لیڈ سنگر علیحدہ ہوتا تھا۔ ایک ایک گھنٹہ سازینہ بج رہا ہے پھر لیڈ سنگر گاتا تھا۔ ایک مرتبہ جامعہ کراچی کے ایک فنکشن میں ہمارا لیڈ سنگر نہیں پہنچ پایا۔ موبائل کا تو زمانہ ہی نہیں تھا۔ کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ کب پہنچے! مجھے طاہر صاحب نے کہا کہ پریکٹس میں تو تم گاتے ہی ہو تم گانا سناؤ تا کہ پبلک کو مصروف رکھا جا سکے۔

تو میں نے پہلا گانا بھارتی فلم ”جولی“ ( 1975 ) ”دل کیا کرے جب کسی کو کسی سے پیار ہو جائے۔ “ گٹار کے ساتھ گایا۔ گانے میں سیٹی کے پیس کی طرح سیٹی بھی بجائی جس پر تالیاں بج گئیں۔ دل بڑا ہو گیا۔ طاہر نے کہا کہ گاتے رہو جب تک مین سنگر نہیں آتا۔ ظاہر ہے گانے تو بہت یاد تھے۔ کوئی آدھ پون گھنٹا گانے گائے جب تک لیڈ سنگر بھی آ گیا اور پھر اس نے شروع کر دیا۔ تو سب دوستوں نے کہا کہ تم اچھا خاصا تو گا رہے تھے اب تم بھی شہزاد علیم لیڈ سنگر کے ساتھ گایا کرو۔ پھر ہم دونوں مل کر گانے لگے۔ ایک میں نے سنا دیا دو اس نے گا دیے۔ میں نے تھوڑا بہت انگریزی گانا بھی شروع کر دیا ”۔

” 1973 یا 1974 میں اس دور کے فلمی گیت گانے شروع کر دیے۔ میرے والد صاحب کے کزن مسلم عباسی صاحب جو ای ایم آئی کراچی اسٹوڈیوز میں فیکٹری منیجر تھے انہوں نے انور مقصود صاحب سے میری ملاقات کرائی جو یہاں ٹیلنٹ منیجر تھے۔ اسی طرح ارشد محمود صاحب سے بھی ملوایا جو اے اینڈ آر منیجر تھے۔ انور مقصود صاحب نے کہا کہ میں تمہارا فلمی گانوں کا کیسٹ ای ایم آئی سے ریکارڈ کرتا ہوں جو اس وقت ایک بڑی بات تھی۔ البتہ بینڈ پروفیشنل تھا۔

اس میں اختر اللہ دتہ، قمر اللہ دتہ، شہزاد اللہ دتہ اور ڈرم پر مرحوم لالہ صدرالدین اور نال پر اسرار صاحب تھے۔ اس میں ایک مکیش کا گانا ”چندن سا بدن۔“ واحد ٹھہرا ہوا گانا تھا باقی سب تیز گانے تھے۔ مجھے بہت سے سننے والوں نے کہا کہ تم پر یہ ’سلو‘ گانا سوٹ کرتا ہے۔ مجھے انور مقصود صاحب نے بھی کہا کہ تم مکیش اور طلعت محمود کے سلو گانے نکالو۔ تیز گانے تم پر نہیں جچتے! یہ حقیقت ہے کہ انور مقصود صاحب نے میری ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے اپنے مزاحیہ پروگرام ”کمرشل ٹائم“ اور ”شو شا“ میں بھی میری غزلوں کو شامل کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسٹیج شوز میں میری رہنمائی بھی کی۔ میں انور بھائی کا بہت ممنون ہوں ”۔

” پھر میں آئی بی اے میں آ گیا۔ یہاں پڑھائی بے حد وقت مانگتی تھی جو آج بھی ہے لیکن اس وقت کہا جاتا تھا کہ جو یہاں آ گیا وہ دنیا جہاں سے کٹ گیا۔ یہ مجھے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ شروع میں تو ڈرا لیکن پھر سوچا کہ اب ایسا بھی نہیں ہے۔ والد صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے کا کہ وقت کی صحیح تقسیم کر لو کیوں کہ نہ تم چوبیس گھنٹے پڑھ سکتے ہو نہ میوزک کر سکتے ہو۔ اس طرح آئی بی اے میں پہلا میوزک سیشن ہمارے بیچ نے ہی کرایا۔ لائبریری کی فنڈ ریزنگ کے لئے آڈیٹوریم میں فنکشن کرایا تھا۔ وہ بہت کامیاب رہا۔ آئی بی سے نکلے تو پی پی ایل میں نوکری میں آ گئے۔ پھر ہمارا گروپ بھی تھوڑا سا بکھرا۔ سہیل محمود پیرس اور عارف دوہا چلا گیا۔ میرا تبادلہ سوئی، بلوچستان ہو گیا۔ یہ نوکری چھوڑ کر میں کراچی واپس آ گیا“ ۔

” اس دوران میرے والد صاحب سمیت اور لوگوں نے بھی کہا کہ غزل کیوں نہیں گاتے؟ یوں میں نے مہدی صاحب، اقبال بانو صاحبہ، غلام علی صاحب کی غزلیں گانا شروع کر دیں۔ 1980 کی دہائی میں فریدہ خانم صاحبہ سمیت بڑے بڑے غزل گانے والے تھے۔ میری تو اس کہکشاں میں کوئی گنجائش بنتی ہی نہیں تھی۔ پھر میرا کسی گھرانے سے تعلق بھی نہیں تھا۔ مغربی موسیقی کی تو تھوڑی بہت الف ب معلوم تھی لیکن اس وقت تک اپنی کلاسیکی موسیقی کا کچھ بھی نہیں پتا تھا۔ جو لوگ میرے قریب تھے وہ کہتے کہ میاں! سوچ سمجھ کر اس میدان ( موسیقی ) میں آنا کیوں کہ غزل میں تمہاری جگہ نہیں بنتی ہے۔ میں تو ان ناموں کے قدموں میں جگہ بنانے جا رہا تھا نہ کہ ان کے درمیان! اللہ تعالیٰ کا کرم یہ ہو کہ غزلوں میں میری مشہوری ہونے لگی“ ۔

ایک عجیب معاملہ:

یہ 1980 یا 1981 کی بات ہو گی۔ میں ایک محفل میں میں غزل گا رہا تھا۔ میرے سامنے ایک صاحب بیٹھے تھے۔ محسوس ہو تا کہ غزل گائیکی کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ میرے گانے پر کبھی برا سا منہ بھی بناتے تھے ( قہقہے ) ۔ پروگرام کے خاتمے پر وہ خود میرے پاس اٹھ کر آئے۔ کہا کہ بیٹا اچھا گاتے ہو مگر تمہیں تھوڑی سی تربیت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم کچھ راستہ چل چکے ہو اس لئے تم پر محنت کم ہو گی۔ اگر برا نہ لگے تو میں تمہیں سکھانا چاہتا ہوں جس کا میں کوئی معاوضہ نہیں لوں گا۔

یہ استاد چاند امروہوی صاحب المعروف چندا خان تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں ٹینا ثانی کا بھی استاد ہوں اور تم میں صلاحیت دیکھ رہا ہوں جو بہتر ہو سکتی ہے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ میں بالکل ہی بے استادا تھا۔ کبھی کسی کے پاس بیٹھ گیا۔ سنتا تھا اور پوچھتا تھا۔ طے ہوا کہ اتوار کو دو گھنٹے وہ میرے گھر آئیں گے۔ 1985 میں میری شادی ہو گئی۔ کئی سال استاد چندا خان آتے رہے۔ میری بیوی کو بھی آفریں ہے کہ اس نے میرے شوق کا ساتھ دیا۔

استاد صاحب اب ہفتے میں چار روز آنے لگے! اس میں کوئی شک نہیں کہ میری کلاسیکل کی بنیاد انہوں نے ہی بنائی۔ بنیادی راگ کیا ہیں؟ ان کا آپس کا فرق کیسے معلوم ہوتا ہے؟ سا رے گا ما۔ کیا چیز ہے؟ ٹھاٹھ کیا ہے؟ راگوں کا چلن کیا ہے؟ یہ انہوں نے بتایا۔ پھر انہیں غزل میں استعمال کرنا شروع کروایا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کہہ دینا کہ مجھے دو سو راگ آتے ہیں کوئی بڑی بات نہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ تمہیں دس راگ اچھی طرح آتے ہیں اور تم انہیں اپنی غزل میں استعمال کر سکتے ہو! ریاضت سے میرا گلا اور گانا بہتر ہوا جو سننے والوں کو بھی محسوس ہونے لگا۔ اب مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ راگ چل رہا ہے جس کی کیا حدود ہیں۔ صحیح معنوں میں میری غزل کا سفر یہاں سے شروع ہوا ”۔

قتیل ؔ شفائی سے اجازت ملنا:

” جب ابن انشاء کا انتقال ہوا تب استاد امانت علی خان کی آواز میں ان کا لکھا گیت“ انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو۔ ”بہت چلتا تھا۔ میں بھی گاتا تھا۔ اس پر قتیلؔ شفائی صاحب نے اپنے دوست کے گیت پر جواب لکھا :“ یہ کس نے کہا تم کوچ کرو باتیں نہ بناؤ انشاء جی ”۔ یہ روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ میں نے اس کی دھن بنائی اور گانا شروع کیا۔ مجھے کسی نے بتایا کہ قتیلؔ صاحب سے اجازت لے لینا۔ وہ ایک روز پی ٹی وی میں مجھے ملے۔

میں نے کہا کہ آپ کی اجازت درکار ہے۔ میں نے انشاء جی اٹھو۔ پر آپ کے لکھے ہوئے جواب کی دھن بنائی ہے۔ اجازت ہو تو گا لوں؟ انہوں نے ہنس کر اجازت دے دی۔ اسی دوران طارق عزیز کے نیلام گھر میں اس غزل کو براہ راست گانے کا موقع ملا جو اپنے وقت کا ایک مقبول ترین پروگرام تھا۔ موسیقار نیاز احمد صاحب اس کے کنڈکٹر تھے۔ طارق عزیز صاحب نے بڑی داد دی۔ یہ پروگرام جب نشر ہوا تو اس کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ تب پی ایم سی ( پاکستان میوزک کارپوریشن) جو آڈیو کیسٹ ریلیز کرنے والا ایک نامور ادارہ تھا، اس نے موسیقار نیاز صاحب سے رابطہ کیا کہ جس لڑکے نے نیلام گھر میں آپ کی موسیقی میں غزل گائی تھی اس کو لائیں۔

نیاز صاحب سے میری بہت نیاز مندی تھی۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ پی ایم سی والے تمہارا پوچھ رہے ہیں۔ کیا ان کے لئے ریکارڈ کرنا چاہو گے؟ میں نے کہا کہ کرنا کیا ہو گا؟ کہنے لگے کہ غزلیں کریں گے۔ پوچھا کہ کون کون سی؟ نیاز صاحب کہنے لگے کہ جو تم نے نیلام گھر میں ”یہ کس نے کہا تم کوچ کرو۔“ گائی تھی یہ کیسٹ اس پر بکے گی۔ اس کے ساتھ جو چاہو گا لو! ”۔ (قہقہے)۔

” نیاز صاحب نے صحیح کہا تھا“ ۔ میں نے کہا۔

” پی ایم سی کو بھی اسی قتیلؔ شفائی والے آئٹم سے دلچسپی تھی۔ نیاز صاحب نے غزلوں کی دھنیں بنائیں۔ یہ شاداب اسٹوڈیو میں خود مشکور صاحب نے ریکارڈ کیں۔ اس غزل کی وجہ سے وہ کیسٹ ہٹ ہو گیا۔ یہ مجھے غزل کی دنیا میں منظر عام پر لانے والا پہلا ذریعہ ثابت ہوئی“ ۔

” اس کے بعد میں نے غزل پر توجہ مرکوز کر لی۔ میری والدہ اردو کی ہی استاد تھیں۔ میری غلطیاں اور تلفظ کی تصحیح کیا کرتیں۔ والد صاحب کہتے کہ یہ غزل ہے اس میں ش قاف کی ادائیگی بالکل ٹھیک ہونا چاہیے۔ پھر غزل گاتے ہوئے ہر شعر کا مطلب بھی واضح ہونا چاہیے تب آپ گا سکیں گے! “ ۔

” پھر این ٹی ایم آ گیا۔ یہاں میری ایک لائیو محفل، پروگرام“ انداز ”میں ریکارڈ ہوئی۔ مجھے کہا گیا کہ آپ گاتے رہیے گا ہم اس میں سے 25 : 00 منٹ کا پروگرام نکال لیں گے۔ میں نے انور مقصود صاحب کو بلوایا تھا۔ ان کا بڑا پن ہے کہ وہ تھوڑی دیر کے لئے آ گئے۔ پی ایم سی نے میرا دوسرا کیسٹ“ لیجنڈ آف غزل ”نکالا۔ اسی دوران ساؤنڈ ماسٹر نیا شروع ہوا تھا۔ اس کے مشتاق آ گئے اور کہا کہ سلمان بھائی آپ کا ایک کیسٹ ہم نے بھی نکالنا ہے۔ آپ کا پروگرام ہو رہا ہے کیا میں اس کی آڈیو ریکارڈ کر لوں؟ میری اجازت کے بعد وہ اپنے اسٹوڈیو سے ضروری ساز و سامان اٹھا لائے اور لائیو ریکارڈ کیا۔ جب کہ این ٹی ایم والوں نے ویڈیو“ ۔

” اس پروگرام میں کون کون سے آلات موسیقی استعمال ہوئے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔
” اس میں دو طبلہ نواز تھے۔ شہزاد جو میرے ساتھ بجاتا تھا اور دوسرے ارشد صاحب“ ۔
” واہ واہ! کیا بات تھی ارشد صاحب کی“ ۔ میں نے بے ساختہ کہا۔

” دو وائلن نواز تھے۔ سعید اور منظور (م) ۔ کی بورڈ پر خورشید صاحب تھے۔ ( ارشاد علی (م) کے چھوٹے بھائی ) ۔ قمر اللہ دتہ ( شہید ) گٹار پر۔ ستار امداد حسین نے بجایا اور بیس گٹار صابر حسین (م) نے بجایا“ ۔

اجنبی شہر کے اجنبی راستے :

” ریکارڈنگ کے کچھ دن بعد این ٹی ایم نے مجھ سے رابطہ کیا کہ کوئی اعتراض تو نہیں کہ ہم ایک کے بجائے اس سے آدھے گھنٹے کے چار پروگرام نکال لیں۔ میری اجازت کے بعد انہوں نے ہر ہفتہ پروگرام“ انداز ”میں یکے بعد دیگرے چار پروگرام چلائے۔ جب کہ ساؤنڈ ماسٹر نے اس صدا بندی سے“ انداز ”ہی کے نام سے ایک کیسٹ ریلیز کی۔ اس البم میں شاعر راہیؔ معصوم رضا کی لکھی ہوئی یہ غزل تھی“ اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے ”جسے گا تو میں بہت عرصے سے رہا تھا مگر غزل عوام میں یوں پہلی مرتبہ آئی تھی۔ وہ بھی ہٹ ہو گئی۔ بلکہ آج تک یہ لوگوں کو یاد ہے“ ۔

” پھر پی ٹی وی پروڈیوسر عفیفہ صوفیہ الحسینی (م) کو میں نے راگوں پر بننے والے گانوں کے پروگرام“ سروں کی مالا ”کا آئیڈیا دیا۔ عفیفہ نے مجھے اس پروگرام کی میزبانی کی پیشکش کی۔ یہ پی ٹی وی پر میری اولین کمپیئرنگ ہے۔ ہم نے 13 راگوں پر 13 پروگرام ریکارڈ کیے۔ ہر ایک پروگرام میں ایک نئی کمپوزیشن بھی ہوتی تھی۔ اس میں راگ کو سامنے رکھ کر پاپ میوزک پر گانا بنانے کا تجربہ بھی کیا“ ۔

” پہلا پروگرام کس راگ پر کیا؟“ ۔
” راگ ایمن پر“ ۔

” اس کے بعد پروگرام“ بزم غزل ”شروع ہوا۔ جس کا آغاز تو عفیفہ نے کیا لیکن بعد میں اس پروگرام کو تسلیم اسلم اور شاہین انصاری نے پیش کیا۔ یہ پروگرام سات سال چلا“ ۔

” سات سال“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” اس میں مہدی حسن صاحب، غلام علی صاحب، استاد رئیس خان صاحب کے ساتھ نئے بچے بھی آئے۔ پھر میں نے“ راگ رنگ ”بھی کیا۔“ ہم ٹی وی ”سے بھی ایک پروگرام“ سروں کے رنگ ”کیا جس میں پہلی دفعہ سارہ رضا خان کو بلوایا گیا۔ یوں مجھے لوگ ہوسٹ کی حیثیت سے بھی جاننے لگے۔ مگر میں نے ٹی وی پر صرف موسیقی کے پروگراموں کی میزبانی کی ہے“ ۔

اعزازات:

1990 کی دہائی میں مجھے ”بزم غزل“ پر پی ٹی وی ایوارڈ حاصل ہوا۔ پھر اداکار وحید مراد کی بیگم وحیدی ایسوسی ایشن چلاتی تھیں۔ انہوں نے مجھے غزل گانے پر ایوارڈ دیا۔ اس کے ساتھ ساؤنڈ ماسٹر ”گولڈ ڈسک“ ایوارڈ کرتے تھے کہ اتنی البم بک جائیں تو ایوارڈ دیا جائے گا۔ الحمدللہ مجھے بھی یہ ایوارڈ حاصل ہوا جسے معین اختر صاحب نے ہوسٹ کیا تھا۔ پھر مجھے نثار بزمی صاحب کے نام سے منصوب ایوارڈ ملا۔ یونس ہمدمؔ صاحب نے میرے بچپن کا پہلا انٹرویو ’بچوں کے اخبار‘ کے لئے کیا تھا جب میں پانچ چھ سال کا تھا۔

میں نے یونس بھائی کو وہ اخبار بھجوایا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ ان کا ”کیسٹ میلو ڈی ایوارڈ“ ہوتا تھا۔ مجھے دو مختلف سالوں میں یہ ایوارڈ دیا گیا۔ 2018 میں الحمدللہ مجھے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا ہوا ہے۔ میں یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا کہ پاکستان کے اس اعلیٰ ترین سول ایوارڈ کے مجھ سے زیادہ بہتر لوگ موجود تھے۔ نیز ایوارڈ کا ملنا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ ہی اپنے ہم عصروں سے بہتر ہیں۔ نہ ہی شہرت حاصل ہونا غمازی کرتا ہے کہ آپ بہترین ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ بہت مشہور ہیں تو آپ بہت زیادہ کام بھی جانتے ہیں! اللہ جب آپ کو عروج دے تو اپنے آپ کو زمین پر رکھنا سب سے بڑی بات ہے جو میں ہر ایک نئے آرٹسٹ سے کہتا ہوں ”۔

رحیم شاہ کے ”پہلے تو کبھی کبھی غم تھا۔“ کا قصہ:

” یہ ملیر میں رہتا تھا۔ کوئی انہیں میرے پاس لایا کہ اس بچے کو گانے کا بہت شوق ہے۔ وہ میرے پاس آیا اور میز بجا کر گانا سنایا۔ آواز بڑی جان دار تھی۔ میں اسے اپنے ساتھ پروگراموں میں لے جانے لگا تا کہ لوگ اسے اور اس کے گانے کو پہچانیں۔ میں اپنی محفل رحیم شاہ سے شروع کراتا تھا۔ اس زمانے میں میری محفلیں مہینے میں کم از کم چار سے آٹھ ہوتیں۔ ویک اینڈ مہینوں پہلے بک ہو جاتے۔ تین سال یہ میرے ساتھ رہا۔ پھر میں نے ساؤنڈ ماسٹر کے مشتاق سے بات کی کہ ایک گانا اس بچے کا ریکارڈ کر لو۔

اس زمانے میں آڈیو کیسٹ میں ایک بونس گانا بھی ڈالا جاتا تھا۔ مشتاق نے کہا کہ وہ بونس گانا رحیم شاہ کا ڈال دے گا۔ میں نے کہا کہ پشتو لوک موسیقی کافی کم سنی ہے چلو اس پر کام کرتے ہیں۔ رحیم نے مجھے آٹھ دس پشتو کے گیت سنائے۔ ایک دھن مجھے مزے دار لگی۔ ایک دوست کو بلا کر اس پر اردو کے بول لکھو آئے : ”پہلے تو کبھی کبھی غم تھا۔“ ۔ میں نے ’سیکوئنس‘ کیا اور مشتاق کے پاس لے گیا۔ رحیم کی آواز میں گیت ریکارڈ کرا لیا۔

مشتاق برابر کے کمرے میں سو رہا تھا۔ اتنے میں وکی (گلوکار سجاد علی کا بھائی) آ گیا۔ وکی نے کہا آواز تو جان دار ہے مگر میوزک ہلکا ہے۔ میں نے کہا تم بجا دو۔ اس نے میوزک میں کچھ رنگ بھرے اور چلا گیا۔ اب دیکھا کہ قمر اللہ دتہ (شہید) گٹار اٹھائے چلے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے اسٹوڈیو تھا یہاں آنا جانا تو لگا رہتا تھا۔ یہ گانا سن کر کہنے لگے کہ اس میں اسپینش گٹار ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ لگا دیجئے۔ انہوں نے اس کے ساتھ بیس گٹار بھی بجا دیا۔ مزے کی بات کسی نے کوئی پیسوں کا تقاضا نہیں کیا۔ اب مشتاق نکل کر آیا۔ سن کر کہنے لگا کہ ردھم تو ڈالنا پڑے گا۔ اب ارشد بھائی طبلے والے کو فون کیا۔ ان کے ردھم سے گانے میں جان پڑ گئی۔ سن کر مشتاق نے کہا کہ یہ گانا میں بونس میں ضائع نہیں کروں گا بلکہ خطرہ مول کر پورا البم ریلیز کروں گا ”۔

” غیر ملکی دوروں کا بتاؤ!“ ۔

” یہ بیچ بیچ میں ہوتے رہے۔ شروع میں میوزیشن ان ممالک کے ہی دستیاب ہوتے۔ کبھی اچھے ملتے کبھی ہلکے۔ جب اللہ نے تھوڑا سا نام دیا تو میں نے کہا کہ میوزیشن اپنے لے کے آؤں گا۔ اس کے بعد سے آج تک میں اپنے میوزیشن لے جاتا ہوں“ ۔

اسٹیج پر 45 اور 25 پیس آرکسٹرا:

” میری خواہش تھی کہ اصل ساز اسٹیج پر بجیں۔ لہٰذا عرصے بعد میں واحد آدمی ہوں جس نے اسٹیج پر 45 پیس آرکسٹرا بجایا۔ اس وقت کراچی کا کوئی ایک ایسا میوزیشن نہیں تھا جو اس میں شامل نہ ہو! اس کے مہمان خصوصی بزمی صاحب اور نیاز صاحب تھے۔ میں 25 میوزیشن کے ساتھ تو ایسے پانچ پروگرام کر چکا ہوں“ ۔

” یہ کس کا آئیڈیا تھا؟“ ۔

” یہ میرا آئیڈیا تھا۔ قمر میرے ساتھ تھا۔ تان بجٹ پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ جیب سے بھی لگیں تو میں یہ پروگرام ضرور کرواؤں گا۔ ان پروگراموں میں تمام ہی پاکستانی گانے تھے۔ پھر مجھے کارپوریٹ پروگرام ملنے لگے۔ پھر مہاٹا پیلیس میں آئی سی آئی کے لئے 30 میوزیشن کا پروگرام کیا۔ میری ٹائم میوزیم والے پروگرام میں تین تین ساؤنڈ ریکارڈسٹ مشتاق، اشفاق اور اشتیاق تھے جو لائیو ریکارڈ کیا گیا اس کی کمپیئرنگ میں نے کی۔ میوزیشنوں کو خود اس کام کا بہت مزہ آیا۔ میں نے ایک ایک میوزیشن کا نام لے کر اسٹیج پر تعارف کرایا۔ بعض سینئیر میوزیشن آنسوؤں سے رو رہے تھے۔ دوبئی میں بھی میں 15 میوزیشن لے کر گیا“ ۔

لکھنا لوری کا :

” میری بیٹی سنگاپور میں ہوتی ہے۔ جب میں نانا بنا تو کورونا کی وجہ سے ہم میاں بیوی جا نہیں سکے۔ ویڈیو میں دیکھنا اور چیز ہے اور نواسے کو گود میں لینا ایک دوسری۔ سوچا ایک لوری لکھ کر ریکارڈ کرتا ہوں کہ بچے کو سناؤ۔ یہ مشورہ میری بیگم کا تھا کہ اگر لوری بھیجنا ہے تو وہ بالکل نئی اور اصل ہو۔ تا کہ اسے بڑے ہو کر یاد رہے کہ نانا نے میرے لئے لکھی تھی۔ میں کہاں لکھ سکتا ہوں۔ بس دل سے نکلتا، میں گنگناتا۔ بول اور دھن بنتی چلی گئی۔

میں نے سعید کو بلوایا کہ آؤ وائلن بجاؤ۔ میں نے دیکھا کہ جب سعید ہیڈ فون لگائے بجا رہا تھا تو رو رہا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ آپ تو نواسے کے لئے تڑپ رہے ہو میں نے تو اس بچے کی ماں کو چھوٹا دیکھا ہے! پھر میں نے اس کا ٹریک بنا کر ساجد فلوٹ والے کو لاہور بھیجا۔ پھر جب مکمل ہوئی تو لوگوں کو اور سنگاپور بھیجی۔ تمہیں شامل کر کے جس جس نے سنا سب ہی نے کہا کہ اس میں ایک عجیب سا تاثر ہے ”۔

” غالباً یہ لوری تمہارا پہلا مکمل پراجیکٹ ہے جو تم نے سوچا، لکھا، دھن بنائی، خود گایا اور سنوارا“ ۔
” ہاں صحیح کہا! سیکوئنس بھی میں نے کیا۔ بانسری، طبلہ، وائلن علیحدہ سے بھجوایا۔ البتہ سوچ میری ہے“ ۔
” آخری سوال کرتا ہوں۔ اس تمام بھاگ دوڑ میں تمہارے بچوں کی تعلیم و تربیت کس طرح سے کی گئی؟“ ۔
” شاہد! اس کا تمام سہرا میری بیگم اور بچوں کو جاتا ہے“ ۔

” نئے آنے والوں کے لئے پیغام ہے کہ زندگی کے راستے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں! وقت تو لگے گا۔ ضروری نہیں کہ دنوں میں کامیابی قدم چومے۔ رحیم شاہ یہاں آنے سے دس سال پہلے سے کوشش کر رہا تھا۔ میرے پاس تین سال لگا دیے۔ تب کہیں جا کر ایک گانا کلک ہوا۔ دیکھنے والوں اور ناقدوں کو اس کا بس وہ ایک ہی گانا نظر آتا ہے۔ آخری بات یہ کہ نئے گانے والے ہر طرح کا میوزک اور بڑے فنکاروں کو سنیں۔ اس سے سیکھنے کو ملے گا۔ گیت نگار کو گیت لکھنے دیں، میوزیشن کو میوزک بجانے دیں۔ ہر شعبہ کی مہارت حاصل کرنا چھوڑیں کہ سب کام کمپیوٹر پر ہو سکتا ہے“ ۔

سلمان، جو بچپن میں سلمان میاں، جامعہ کراچی میں سلمان علوی، میرے لئے صرف سلمان اور ان سب سے پیارا نام نانا جان۔ تم سدا خوش و خرم رہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).