ڈینٹسٹ اور ماما


مایا انجیلو کی سوانح حیات I KNOW WHY THE CAGED BIRD SINGS
کے ایک باب کا ترجمہ۔

میری گولیاں ٹافیاں اور طرح طرح کی مٹھائیاں کھانے کی عادت آخر ایک دن اپنے نتائج لے کر حاضر ہوئی۔ میرے دو دانتوں میں سوراخ تھے اور میرے مسوڑے بھی متاثر ہو گئے تھے۔ میری والدہ نے اسپرین کی گولیاں پیس کر ڈالیں اور زیتون کا تیل استعمال کیا لیکن درد کچھ زیادہ ہی شدید تھا۔

میرے گاؤں میں ایک بھی سیاہ فام ڈینٹسٹ نہ تھا بلکہ کوئی عام ڈاکٹر بھی نہ تھا۔ اس سے پہلے اگر کسی کے دانت میں ناقابل برداشت درد ہوتا تو ماما ایک مضبوط دھاگے کو دانت کے گرد لپیٹتیں اور دوسرے سرے کو مٹھی میں پکڑ کر اس زور سے کھینچتیں کہ دانت باہر آ جاتا۔ اس کے بعد اسے درد کی گولیاں دیتیں اور اس کی صحت کی دعائیں مانگتیں لیکن اس دفعہ نہ تو دوا نے کام کیا تھا اور نہ اتنا دانت بچا تھا کہ ماما دھاگے سے باندھ کر کھینچ نکالتیں اور نہ ہی دعائیں قبولیت کے فرشتوں تک پہنچی تھیں۔

میرے دن اور رات اس قدر درد میں گزرے کہ میں کنویں میں چھلانگ لگانے کا سوچنے لگی۔ آخر ماما نے فیصلہ صادر کیا کہ ہم ڈینٹسٹ سے ملنے جائیں گے۔ قریب ترین سیاہ فام ڈینٹیسٹ ہمارے گاؤں سے پچیس میل دور تھا اور مجھے یقین تھا کہ اگر ہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا تو میں آدھے راستے میں ہی مر جاؤں گی۔ ماما نے کہا کہ ہم ڈاکٹر لنکن کے پاس جائیں گے جو ہمارے گاؤں میں ہی پریکٹس کرتا تھا۔ وہ میرا علاج کرے گا کیونکہ وہ ماما کا مقروض تھا۔

میں جانتی تھی کہ ہمارے گاؤں میں کئی سفید فام ایسے تھے جو ماما کے مقروض تھے۔ میں نے وہ کتابیں دیکھی تھیں جن میں ان لوگوں کے نام درج تھے جنہوں نے ڈپریشن کے دور میں ماما سے ڈالر قرض لیے تھے اور آج تک واپس نہ کیے تھے۔ لیکن میں نے کبھی ڈاکٹر لنکن کا نام نہ دیکھا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ ڈاکٹر لنکن کالے مریضوں کو بالکل نہ دیکھتا تھا۔ یہ علیحدہ بات کہ ماما مصر تھیں کہ اسی کے پاس جانا ہے۔ ماما نے چولھے پر پانی رکھ دیا۔ میں پہلے کبھی ڈاکٹر کے پاس نہ گئی تھی۔ ماما نے کہا کہ اگر میں نہا لوں تو اس سے میرا درد کم ہو جائے گا اور پھر میں کلف لگے ہوئے استری شدہ کپڑے پہنوں گی۔ جب میرے غسل کرنے سے درد میں افاقہ نہ ہوا تو مجھے درد کی شدت کا احساس ہونے لگا۔

گھر سے نکلنے سے پہلے ماما نے کہا کہ مجھے دانت صاف کرنے چاہئیں اور لسٹرین سے منہ دھونا چاہیے۔ منہ کھولنے کا خیال ہی قیامت تھا لیکن جب ماما نے کہا کہ جسم کا جو حصہ ڈاکٹر کو دکھانا ہو اسے اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے تو میں نے ہمت کر کے منہ کھول ہی لیا۔ ٹھنڈی ہوا منہ کے اندر گئی تو اور بھی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ ٹوتھ برش میرے منہ میں پھنس گیا اور بڑی مشکل سے نکالا گیا۔ ماما مجھے گھر سے لے کر نکلیں اور جلدی جلدی ڈاکٹر کی طرف بڑھنے لگیں۔ وہ راستے میں لوگوں کو ہیلو کہتیں لیکن باتیں کرنے کو نہ رکتیں۔

آخر ہم نہر کے کنارے پہنچے۔ درد کی لہریں چاروں طرف پھیل رہی تھیں۔ ہم نے پل پار کر کے سفید فام لوگوں کی بستی میں جانا تھا۔ اس بستی میں داخل ہوتے ہی مجھے آہ و زاری بند کرنی تھی اور سیدھا اکڑ کر چلنا تھا۔ ماما نے وہ سفید تولیہ درست کیا جو میرے جبڑے پر بندھا ہوا تھا۔ اگر انسان کو مرنا بھی ہو تو سلیقے سے مرے کیونکہ موت گوروں کی بستی میں واقع ہوئی تھی تا کہ شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

پل پار کر کے گوروں کی بستی میں پہنچے تو میرے درد میں قدرے تخفیف ہوئی گویا اس ماحول نے قدرے مرہم کا کام کیا۔ اس بستی کی سڑک بہتر تھی درخت گھنے تھے اور ان کی شاخیں راستے پر سایہ کر رہی تھیں۔ نجانے درد کم تھا یا میں اس ماحول سے مسحور ہو رہی تھی۔

اس بلڈنگ کے پیچھے جس میں ڈینٹسٹ کا دفتر تھا ایک لمبا راستہ تھا۔ اس پر ان غریب ملازمین کے گھر بنے ہوئے تھے جو وہاں کے واحد ریستوران میں کام کرتے تھے۔ ماما اور میں اس راستے سے گزر کر بلڈنگ تک پہنچے۔ جب ہم دوسری منزل پر چڑھ رہے تھے تو دھوپ کی شدت نے اس دن کو کچھ اور سنگین بنا دیا تھا۔

ماما نے دفتر کے پیچھے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک سفید فام لڑکی نکلی اور ہمیں دیکھ کر حیران ہوئی۔ ماما نے لڑکی سے کہا کہ ڈینٹسٹ لنکن سے کہو کہ اینی ان سے ملنا چاہتی ہے۔ لڑکی نے سختی سے دروازہ بند کر دیا۔ میں نے جب ماما کو اپنا فیملی نام نہ بتاتے ہوئے سنا تو مجھے جسمانی درد سے زیادہ ذہنی کوفت ہوئی۔ یہ بے عزتی کی بات تھی۔ یہ کیسا المیہ تھا کہ دانت کے درد اور سر کے درد کے ساتھ کالی جلد کے بھاری بوجھ کا درد بھی برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔

یہ عین ممکن تھا کہ درد تھم جاتا اور دانت خود ہی نکل پڑتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ ماما نے کہا ہم کچھ دیر انتظار کریں گے۔ ہم اس تپتی دھوپ میں ڈاکٹر کی پورچ میں ایک گھنٹہ کھڑے رہے۔

آخر ڈینٹسٹ نے دروازہ کھولا ’ماما کی طرف دیکھا اور پوچھنے لگا‘ اچھا تو اینی میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ ’اس نے میرے چہرے پر بندھے ہوئے تولیے اور سوجے ہوئے منہ کو نظر انداز کر دیا تھا۔

’ڈینٹسٹ لنکن‘ ماما بولیں ’یہ میری نواسی ہے اس کے دانت بہت بری حالت میں ہیں اور اس کا درد سے برا حال ہے‘

ماما نے چند لمحے انتظار کیا لیکن ڈاکٹر نے کوئی توجہ نہ دی۔

’یہ چار دن سے اسی حالت میں ہے آخر آج میں نے اس سے کہا کہ تمہیں ڈاکٹر سے ملنا پڑے گا تا کہ تمہارا علاج ہو سکے‘

’اینی‘
’یس سر ڈاکٹر لنکن‘
وہ چند لمحے رکا جیسے الفاظ کا انتخاب کر رہا ہو ’تم جانتی ہو کہ میں نیگرو لوگوں کا علاج نہیں کرتا‘

’ میں جانتی ہوں ڈینٹیست لنکن لیکن یہ تو میری معصوم نواسی ہے اسے دیکھنے سے آپ کو کسی قسم کے مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا‘

’اینی ہر شخص کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے کچھ پالیسی ہونی چاہیے اور میرا اصول یہ ہے کہ میں نیگرو لوگوں کا علاج نہیں کرتا‘

دھوپ کہ وجہ سے ماما کی جلد اور بالوں پر تیل ابھر آیا تھا۔ وہ ڈینٹسٹ کے سامنے کی طرف لپکیں ’ڈینٹسٹ لنکن! یہ بے ضرر بچی ہے اس کا علاج بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آپ پر ایک دو مہربانیاں ادھار بھی ہیں‘

اس کا چہرہ چند لمحوں کے لیے سرخ ہو گیا۔ ’مہربانی یا نا مہربانی۔ تمہارے پیسے تمہیں واپس مل چکے ہیں۔ بس اب معاف کرو اینی‘ اس نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا ’معاف کرنا‘ اس نے دروازہ بند کرنا چاہا۔

ماما ایک قدم آگے بڑھیں ’میں تمہیں اتنا زور نہ دیتی اگر میری اپنی بات ہوتی لیکن یہ میری نواسی کا معاملہ ہے۔ جب تم مجھ سے قرض لینے آئے تھے تو تمہیں بھیک نہیں مانگنی پڑی تھی۔ تم نے کہا تھا کہ اگر تم نے پیسے نہ دیے تو تمہاری یہ بلڈنگ تم سے چھین لی جائے گی اور میں نے تمہیں فوراٌ رقم دے دی تھی۔ کیا میں نے کہا تھا کہ پیسے قرض دینا میرے اصول کے خلاف ہے‘

’تمہاری رقم ادا ہو چکی ہے اور اب تمہارے شور مچانے سے میں اپنا فیصلہ بدلنے سے رہا۔ میرا اصول۔‘ اس نے دروازہ چھوڑ دیا اور میرے اور میری ماما کے قریب آ گیا۔ اس چھوٹے سے تختے پر ہم تینوں کھڑے تھے ’میرا اصول ہے کہ میں کسی کتے کے منہ میں ہاتھ ڈالوں گا لیکن کسی نیگرو کے منہ میں نہیں۔ ‘

اس نے ایک دفعہ بھی میری طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ وہ مڑا اور دروازے سے ہوتا ہوا سرد برآمدے میں چلا گیا۔ ماما چند لمحوں کے لیے سکڑیں۔ میں نے ماما کو کبھی ایسی حالت میں نہ دیکھا تھا۔ انہوں نے دروازہ کھولا۔ مجھ سے کہنے لگیں ’تم تھوڑی دیر کے لیے نیچے چلی جاؤ میں ابھی آتی ہوں‘

میں نے ماما سے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا۔ میں نیچے چلی گئی۔ میں اتنی خوفزدہ تھی کہ پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی چاہتی تھی اور نہیں بھی۔ دروازہ دھڑام سے بند ہوا اور ماما اندر چلی گئیں۔

ماما کمرے میں ایسے داخل ہوئیں جیسے وہ اس کی مالکہ ہوں۔ انہوں نے ایک ہاتھ سے اس نرس کو راستے سے ہٹایا اور دندناتی ہوئی ڈینٹسٹ کے دفتر میں گھس گئیں۔ وہ اپنے ذلیل اوزاروں کو ٹھیک کر رہا تھا۔ ماما کی آنکھیں دہکتے کوئلوں کی طرح سرخ تھیں اور ان کے بازو دگنے لمبے ہو گئے تھے۔ اس نے ماما کو اس وقت دیکھا جب ماما نے زور سے اس کی سفید جیکٹ کے کالر سے اس کو پکڑا اور کہا ’جب کسی معزز عورت کا سامنا ہو تو ادب سے کھڑے ہو جاتے ہیں او بدمعاش او بد تمیز‘ ماما کا ایک ایک لفظ بجلی بن کر اس پر گرا۔

ڈاکٹر ایک ادنیٰ سپاہی کی طرح کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنا سر جھکایا اور ادب سے بولا ’میں کیا خدمت کر سکتا ہوں مسز اینڈرسن؟‘

’تم بیوقوف آدمی ہو۔ تم میں اتنی تمیز نہیں جو میری نواسی کے سامنے اس طرح کی باتیں کیں‘ ماما نے اسے زور سے پکڑا ہوا تھا۔

’نہیں میڈم اینڈرسن‘ وہ بہت کھسیانا ہو رہا تھا۔
’کیا بکواس کر رہے ہو‘ ماما نے اسے زور سے جھٹکا دیا۔
’میڈم۔ مسز اینڈرسن۔ میں معذرت خواہ ہوں‘
’اب تمہیں معافی مانگتے شرم نہیں آتی۔ میں نے تم سے زیادہ بے شرم ڈینٹسٹ آج تک نہیں دیکھا‘

ماما نے تحکمانہ انداز سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں نے مارگریٹ کے سامنے تمہیں معذرت خواہی کو نہیں کہا۔ میں اسے نہیں بتانا چاہتی کہ میں کس قدر طاقت کی مالک ہوں لیکن میں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ تم سورج غروب ہونے سے پہلے اس گاؤں سے نکل جاؤ‘

’مسز ہنڈرسن! لیکن میں اتنی جلد اپنا سامان۔‘ وہ گھگھیا رہا تھا اور کانپ رہا تھا۔

’دوسری بات یہ ہے کہ جب تم کسی اور گاؤں یا شہر میں دکان کھولو گے تو تمہیں ڈینٹسری کی اجازت نہیں ہوگی تم صرف کتوں بلیوں کا علاج کرو گے‘

ڈینٹسٹ کے منہ سے لعاب دہن بہنے لگا اور آنکھوں سے آنسو۔ ’اچھا میڈم اچھا۔ میں شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے قتل نہیں کر دیا مسز ہنڈرسن۔ شکریہ‘

ماما جو اس وقت دس فٹ لمبی تھیں اور آٹھ فٹ بازو رکھتی تھیں باہر نکلتے ہوئے بولیں ’میں تمہاری شکل سے بھی بیزار ہوں‘ کمرے سے نکلتے ہوئے ماما نے نرس کی طرف رومال ہلایا اور وہ گوبر کا ڈھیر بن گئی۔

ماما جب نیچے پہنچیں تو تھکی تھکی لگ رہی تھیں۔ ایسے حالات کا سامنا کر کے کون نہیں تھکے گا۔ میں نے سوچا۔ وہ میرے قریب آئیں اور بڑی نرمی سے میرا تولیہ درست کیا میری انگلی پکڑی اور بولیں ’چلو بیٹا چلتے ہیں‘

پہلے میں سمجھی گھر لوٹ رہے ہیں لیکن ڈرگ ستور کے پاس پہنچ کر کہنے لگیں ’میں تمہیں شہر لے جا رہی ہوں جہاں ڈینٹسٹ بیکر تمہارا علاج کریں گے‘

ہم گرے ہاؤنڈ بس میں بیٹھ کر سفر پر روانہ ہوئے۔ ماما اور میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے۔ مجھے کتنا فکر تھی کہ میں ماما کی نواسی تھی اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر ان کی شخصیت کا سحر جذب کر رہی تھی۔ ماما نے پوچھا کہ کیا مجھے ڈر لگ رہا تھا اور میں نے ماما کا سڈول بازو زور سے تھام لیا۔ ماما نے کبھی مجھے اتنا قریب نہ رکھا تھا۔

جب ہم سیاہ فام ڈینٹیسٹ کے پاس پہنچے تو وہ بڑی مہربانی سے پیش آیا۔ اس نے مجھے دوا دکھائی پھر انجکشن دکھایا اور میرے مسوڑے سن کر دیے۔ اس کے بعد اس نے درد کرنے والا دانت نکال دیے۔ ماما میرے قریب کھڑی اپنی ہمدرد آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہی تھیں۔ بعد میں ماما نے مجھے آئس کریم کھانے کو دی۔ واپسی کا سفر قدرے پر سکون تھا۔

میں گھر پہنچی تو میں نے نمک کے پانی سے منہ دھویا۔ پھر میں نے اپنے انکل بلی کو اپنا منہ دکھایا۔ میرے دانتوں میں خون جما ہوا تھا انہوں نے مجھے بتایا کہ میں بہت بہادر ہوں۔

اس طرح ہمیں ڈاکٹر کی باتیں کرنے کا موقع ملا۔ یہ تو سچ ہے کہ میں نے ماما اور ڈاکٹر کی گفتگو نہ سنی تھی لیکن میرے خیال میں اور ہو بھی کیا سکتی تھی۔ میں نے جب اپنے انکل کو سنائی تو انہوں نے ہلکے سے سر ہلایا۔ ماما شام کا کھانا تیار کر رہی تھیں۔ انکل منتظر تھے کہ ماما انہیں دن کی روداد سنائیں۔

ماما نے انہیں بتایا ’ڈینٹسٹ لنکن بہت ناراض تھا۔ کہنے لگا میں کتے کے منہ میں ہاتھ ڈال دوں گا لیکن نیگرو کے منہ میں نہیں۔ جب میں نے اسے مہربانی یاد دلائی تو اس نے نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ میں نے بچی کو نیچے بھیجا اور اس کے دفتر میں چلی گئی۔ میں پہلے کبھی اندر نہ گئی تھی۔ میں وہاں کھڑی رہی جب تک ڈاکٹر نے مجھے نہ دیکھ لیا۔ کہنے لگا‘ اینی میں نے تمہیں پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ میں نیگرو کا علاج نہیں کرنے کا ’

’کوئی تو کرے گا‘ میں نے کہا
’اسے شہر لے جائے وہاں کوئی سیاہ فام ڈاکٹر اسے دیکھ لے گا‘
’اگر تم مجھے میری رقم دے دو تو میں لے جانے کے قابل ہو سکوں‘
’لیکن میں تو تمہیں دے چکا ہوں‘

’لیکن تم نے سود ادا نہیں کیا‘
’اس پر کوئی سود نہ تھا‘
’نہیں تھا لیکن اب ہے‘

اس نے نرس سے کہا کہ مجھے دس ڈالر دے کر رسید لے لے کہ ساری رقم ادا کر دی گئی ہے۔ میں نے دل میں سوچا کہ اگر وہ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرے گا تو اسے اس کی قیمت بھی ادا کرنی ہوگی ’

ماما اور انکل ایسی باتیں کر کے کافی دیر تک ہنستے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے اپنی کہانی زیادہ پسند ہے

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments