بوسنیا کی چشم دید کہانی: پہلی قسط


1995 کے آخر میں امریکی کاوش کے نتیجے میں ہونے والے ڈیٹن معاہدہ امن کے بعد یو این مشن بوسنیا کا آغاز ہوا۔ اس مشن میں دو درجن ممالک سے زائد کی پولیس international police task force ( IPTF) کے نام سے شامل ہوئی۔ پورے بوسنیا میں پچاس کے قریب آئی پی ٹی ایف سٹیشن قائم کیے گئے۔ ہر سٹیشن پہ اوسطاً درجن بھر پولیس افسران تعینات ہوتے تھے اور عمومی طور پر وہاں ایک ملک سے دو افسران بھیجے جاتے تھے۔ انٹر نیشنل پولیس کا کام مقامی پولیس کی نگرانی ( Monitoring) کرنا تھا کہ وہ نسلی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریوں کو ہراساں نہ کرے۔

میں جون 1996 میں بوسنیا جانے والے پاکستان پولیس کے دستے میں شامل تھا۔ میں سات سال قبل پی سی ایس کے امتحان میں کامیاب ہو کر سرحد پولیس ( اب کے پی پولیس ) میں بطور ڈی ایس پی شامل ہوا تھا۔ میں نے بوسنیا میں ایک سال تک پولیس مانیٹر کے طور پر کام کیا۔

بوسنیا نسلی بنیادوں پر تین حصوں میں تقسیم ملک تھا۔ یہ سرب، کروایٹ اور بوسنین ( مسلمان) تھے جن کے اپنے اپنے اکثریتی علاقے تھے۔ میری تعیناتی کروایٹ اکثریتی قصبے سٹولک میں ہوئی۔ ایک سال کے دوران ایسے ایسے درد انگیز اور حیران کن واقعات سامنے آتے رہے کہ جن کا گمان بھی نہ تھا۔ ان یادداشتوں کو میں نے بعنوان ”سب ورق تری یاد کے“ رقم اور 2005 میں پہلی مرتبہ شائع کیا۔

” ہم سب“ کے محترم قارئین تک اس داستان کے چیدہ چیدہ حصے پہنچانے کے لیے مضامین کا یہ ایک سلسلہ ہے۔
___________________________________________________
پہلی قسط

ادھر لاہور ائرپورٹ کی عمارت کے قرب و جوار میں لگے درختوں کی چھتریوں سے راستہ بناتی سورج کی کرنیں ایپرن پہ پھیل رہی تھیں اور ادھر یہ مسافر جہاز کی سیڑھی کے سامنے قطار بنائے کھڑے تھے۔ باری باری جہاز میں سوار ہو کر جس کو جہاں جگہ ملی بیٹھتا گیا۔ آخری مسافر کے جہاز میں داخل ہوتے ہی دروازہ بند ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں انجنوں کے پنکھے پھڑپھڑانے لگے۔ یہ ایک خصوصی طیارہ تھا شاید اسی وجہ سے اس کے عملے کا کیش ترک رسوم ٹھہرا۔

نہ تو دروازے پر کسی سفری میزبان خاتون نے ہونٹوں پہ تکلفاً سجائی گئی مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہا اور نہ ہی پرواز سے قبل دوران سفر حفاظتی تدابیر سے متعلق چلائی جانے والی ٹیپ پہ کسی نے اداکاری کا تکلف ضروری سمجھا۔ ادھر اپنے نزدیک فضائی سفر کی خوشگواری کا باعث کچھ تھا تو اچھے چہرے مہرے والی میزبان خواتین۔ عام طور پر پائے جانے والے تاثر کے برخلاف میں نے اپنے معیار حسن کو ممکنہ حد تک غیر معیاری بنا کے بھی ان خواتین کے حسن کو اہل دل کے لیے سرمایہ جاں کبھی نہیں پایا۔ اب تک کا تجربہ چونکہ ملکی فضائی بیڑوں تک محدود تھا چنانچہ اب غیر ملکی ائر لائن اور وہ بھی طیران المصر، کا معاملہ مختلف ہو سکنے کی خوش فہمی تھی۔

ہمارے سارے دستے کو درجہ دوئم میں بٹھایا گیا تھا۔ ہمارے اور درجہ اول کے درمیان تنے پردے سے ”جھاتیاں مارتی“ نقل و حرکت یہ سندیسہ دے رہی تھی کہ ادھر وہ مسافر نواز موجود ہیں کہ جن کے سامنے کو آنکھیں بے تاب ہیں۔ یہ انتظار جہاز کے فضا میں بلندی کے بعد بھی جاری رہا۔ پھر پردے کے عقب سے ناشتے کی ٹرالیوں کو دھکیلتی جب دو فضائی میزبان سامنے آئیں تو وہ خلاف توقع مصری دوشیزاؤں کی بجائے یورپی ناریاں تھیں۔ ناک نقشہ بھی واجبی تھا اور رنگ روپ گورا ہونے کے باوجود کچھ ایسا بے کشش کہ سارا پنڈ تو کیا ایک آدھ پینڈو کے بھی ویری ہونے کا خطرہ نہیں تھا۔

قاہرہ سے ہوتا ہوا ہمارا جہاز زغرب کے چھوٹے سے صاف ستھرے ائرپورٹ پر اترا تو اس وقت شام کے چار بجے تھے۔ یو این کی طرف سے ایک مرد اور ایک خاتون پولیس افسر ہمارے استقبال اور راہنمائی کے لیے ائر پورٹ پر موجود تھے۔ ہم ائر پورٹ سے باہر آئے تو ہمیں ہوٹل لے جانے کے لیے کوچز ایک قطار میں کھڑی ہماری منتظر تھیں۔ ائرپورٹ کی عمارت کے بالکل سامنے کشیدہ قامت سرسبز درختوں سے گھرا ایک نہایت خوبصورت پارک تھا جس کے عقب سے آبادی کے کچھ آثار بھی جھانک رہے تھے۔

اس وقت شام ساڑھے پانچ کا وقت تھا لیکن سورج کی چمک میں دوپہر کی سی آب و تاب ابھی بھی قائم تھی۔ چند پاکستانی ساتھی جو تین ماہ پہلے سے یہاں موجود تھے اپنے اپنے دوستوں کے استقبال کے لیے باہر کھڑے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان دنوں زغرب میں سورج نو بجے غروب ہوتا ہے اور ابھی عصر میں بھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے۔ ہم اگرچہ پہلے ہی ذہنی طور پر تیار تھے کہ یورپ میں ہمیں حیران کرنے کو بہت کچھ ہو گا لیکن ایسا نہ سوچا تھا کہ یہاں دن کی طوالت کا ذکر نشتر میر کی یاد دلا دے گا۔

حدیث زلف دراز اس کے منہ کی بات بڑی
کبھو کے دن ہیں بڑے اور کبھو کی رات بڑی

کوچوں میں سوار ہونے سے قبل ہمارے راہنما پولیس افسران نے بتایا کہ اگلے پانچ دن ہمارا قیام زغرب میں ہو گا۔ ہمارے قیام و طعام کا انتظام اخپل خرچ ( اپنے خرچ) پہ ہوٹل نووے گرادا میں کیا گیا ہے۔ ہم وہاں پہنچ کر آرام کریں۔ کل سے روزانہ صبح آٹھ بجے ہمیں یہی کوچز اسی ائرپورٹ کے قریب واقع سپورٹ یونٹ میں ٹریننگ کے لیے لایا کریں گی جو شام پانچ بجے تک جاری رہا کرے گی۔ ہاں اتنا یاد رہے کہ صبح آٹھ بجے سے مراد آٹھ بجے ہی ہے، آٹھ بجکر پانچ منٹ ہر گز نہیں۔

اگلی صبح ٹھیک آٹھ بجے کوچیں ہوٹل پہنچ گئیں۔ آج ٹریننگ کے آغاز کی بجائے یو این کے شناختی کارڈوں کے اجراء کا دن تھا۔ یہ کام شام کو مکمل ہوا اور پھر ہمیں واپس ہوٹل پہنچا دیا گیا۔ سات بجے ڈنر تیار تھا جس کے بعد میرے ساتھی اقبال اور میں نے زغرب کی سیر کا ارادہ کیا۔ ہم ہوٹل سے ذرا دور ایک سٹور والے سے شہر کے مرکزی حصے تک پہنچنے کے لیے معلومات کر رہے تھے کہ وہاں موجود دو لڑکوں نے جو اتفاق سے اسی سمت جا رہے تھے ہمیں ساتھ لے جانے کی پیشکش کی۔

ہم بخوشی ان نوجوانوں کی پرانی سی کار میں سوار ہو گئے۔ راستے میں شہر سے گزرتے ہوئے میں نے کہا آپ کا شہر تو بہت خوبصورت ہے۔ اگلی سیٹ پر براجمان نوجوان جو سگریٹ کے کش پہ کش لگا رہا تھا بولا۔ یہاں کی لڑکیاں اس شہر سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں۔ کاش وہ کچھ کم خوبصورت ہوتے ہوئے زیادہ مہربان ہوتیں تو ہم جیسے چھڑوں کی زندگی کچھ ایسی روکھی نہ ہوتی۔

زغرب کا سینٹر ایک وسیع مستطیل پلیٹ فارم کی صورت تھا جس کی چاروں اور مناسب حد تک اونچی عمارتیں پھیلی ہوئی تھیں۔ پلیٹ فارم کے تقریباً مرکز میں ایک اونچے چبوترے پر ایک شہ سوار کا مجسمہ نصب تھا جس کا نام اور عہد چبوترے پر جلی حروف میں کنداں تھے۔ اس مجسمے کی نسبت سے ہمارے لاہوری ساتھیوں نے اس جگہ کا نام گھوڑے شاہ رکھا تھا جو جلد ہی زباں زد عام ہو گیا۔ اس مجسمے کے بالکل سامنے ٹرام سٹیشن تھا جہاں شہر سے مختلف سمتوں سے آنے والی ٹرامیں تھوڑی دیر کے لیے رکتی تھیں۔ ٹرام سٹیشن کے عقب میں مختلف سمتوں کو نکلتی کشادہ گلیاں تھیں جہاں ان گنت کیفے بار تھے۔ شام کو یہ کیفے بار باہر تک پھیل جاتے اور کھلی فضا میں سلیقے سے لگی میز اور کرسیاں زغرب کے نوجوان جوڑوں کے لیے گوشہ فراغت ثابت ہوتے۔

ایک آدھ دن میں اس جگہ کی شہرت ہوٹل نووے گرادا کے ہر مکیں تک پہنچ گئی اور اب ہر شام یہاں زغرب کی شمشاد قدوں کو گھورنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments