شہباز حکومت کے ابتدائی پچاس دن، کیا کھویا، کیا پایا!


وطن عزیز میں پی ڈی ایم کے اقتدار کے پچاس دن مکمل ہوچکے ہیں، ان پچاس دنوں میں جہاں ایک جانب پاکستان کے معاشی زوال اور عالمی دنیا میں پاکستان کے تاثر کو خاک میں ملانے کی افسوسناک کہانی لکھی جا رہی ہے، شہباز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مفتاح اسماعیل کے ہاتھ خزانے کی کنجی دی، مفتاح اسماعیل جو کہ ماضی میں بجلی کی قیمتوں میں کمی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کرچکے تھے، جیسے ہی مسند اقتدار پر آئے تو بقول حامد میر جو کہا اس سے الٹ کیا، جبکہ وزارت خارجہ کا قلمدان بلاول بھٹو کو ملا جن کی اس عہدے کے لئے حنا ربانی کھر کے ذریعے انٹرن شپ جاری ہے۔

پنجاب کی وزارت اعلیٰ حمزہ شہباز کے سپرد ہے جبکہ وہ بھی انٹرن شپ پروگرام پر ہی ہیں، ماضی میں عثمان بزدار کے بارے میں یہی کہا گیا کہ انہیں تجربہ نہیں، انہیں تحصیل ناظم کا تجربہ تو تھا، موصوف کے پاس وہ بھی نہیں، لیکن سب سے بڑے صوبے پر نہلے پہ دہلے کی طرح سوار ہوچکے ہیں۔ دیگر وزارتیں زیادہ تر انہی افراد کو سونپی گئی ہیں جنہیں ماضی میں ان وزارتوں پر تجربہ رہا ہے، لیکن یاد رہے کہ پی ڈی ایم کے تیسرے رہنما مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے کی بھی انٹرن شپ جاری ہے، کیونکہ جہاں شہباز و زرداری کے بیٹے فیض یاب ہوں وہاں پر مولانا کے بیٹے کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنا ممکن نہ تھا۔ آئیے تین بڑی اور درجن بھر چھوٹی جماعتوں کی حکومت کی چھ ہفتوں کی کارکردگی کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

قانون سازی:

موجودہ حکومت نے اسمبلی کے پہلے سیشن اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم کیا گیا جبکہ دھاندلی کا راستہ روکنے کے لئے بنائی گئی الیکٹرانک مشینوں کا انتخابات میں استعمال کا بل واپس لیا گیا، واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نواز شریف بھی اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق میں تھے۔ اس کے علاوہ چیئرمین نیب کی تقرری اور نیب کے دائرہ اختیار سمیت متعدد ترامیم منظور کی گئی ہیں۔ بل کے مطابق وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں جبکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔ کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا سکیم میں بے قاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی جبکہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا جب تک بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فوائد کا حصول موجود نہ ہو۔

بیرونی دورے :

بحیثیت وزیراعظم شہباز شریف نے سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا، جس کے لئے 13 رکنی وفد وزیراعظم کے ہمراہ تھا، جہاں انہوں نے گزشتہ دور حکومت میں سٹیٹ بینک میں ڈپازٹ کی گئی رقم میں توسیع کا مطالبہ کیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک سعودی حکومت نے اس حوالے سے واضح موقف نہیں دیا۔ اس کے بعد انہوں نے متحدہ عرب امارات کا لاحاصل دورہ کیا، جہاں ان کے ساتھ اماراتی سرکار کا رویہ سوتیلوں جیسا ہی رہا، ملک کے ”وسیع تر مفاد“ میں مشاورت کے لئے شہباز شریف درجن بھر کابینہ کے ساتھ لندن بھی روانہ ہوئے جسے غیر سرکاری نجی دورے کا نام دیا گیا۔ لندن میں قیام کے دوران شہباز شریف نے نواز شریف سے ملکی صورتحال او ر آئندہ سیاسی معاملات پر سیر حاصل لیکچر لیے، کہا جانے لگا کہ شہباز شریف کو نواز شریف نے اقتدار چھوڑنے کا مشورہ دیا، مریم نواز کی تقریروں سے بھی یہ تاثر دیا گیا لیکن معاملہ برعکس رہا، ایک بار پھر وہ متحدہ عرب امارات پہنچے جہاں انہوں نے زائد النہیان کی تعزیت کی، حکومت کے چھٹے ہفتے شہباز شریف نے ترکی کا دورہ کیا جہاں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے دو طرفہ معاملات پر بات کی، اپنے ہی دوروں کا مختصر احوال شہباز شریف نے ایک تقریر میں بتایا کہ ”میں سعودی عرب سے ہو کر آیا ہوں، یو اے ای سے، ابھی ترکی سے ہو کر آیا ہوں اور میں نے ان بھائیوں کو کہا کہ آپ ہمارے عظیم بھائی ہیں، آپ نے ہمیشہ ہماری مدد کی اور میں نے یہی کہا کہ جب میں آیا ہوں تو آپ سمجھیں کہ شاید مانگنے آیا ہے، میں مانگنے نہیں آیا ہوں، لیکن مجبوری ہے، ماضی میں 75 سال سے آپ نے ساتھ دیا، کچھ عرصہ اور ساتھ دیں، میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہم پوری قوم اپنا خون پسینہ گرا کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے“ ، یعنی کہ دورے کا مقصد واضح کیا اور بے بسی ظاہر کی جبکہ خبریں ہیں کہ کسی دورے سے حاصل حصول کچھ نہ ہوسکا۔

اپنی حکومت کے پچاس دنوں میں سے 15 دن بیرون ملک رہے، دوسری جانب وزیر خارجہ ان دوروں میں آپ کے ہمراہ رہے، اس کے علاوہ بھی ان پچاس دنوں میں وہ پاکستان پانچ سے چھ دن ہی رہے، وہ امریکہ کے دورے پر گئے، بعد ازاں چین گئے، اس کے علاوہ وہ کہاں تھے شاید اس کی خبر وزارت خارجہ ہی دے سکے گا۔ وزیر خزانہ نے ان چھ ہفتوں میں دو غیرملکی دورے کیے، جن میں امریکہ کا سرکاری اور لندن کا نجی دورہ شامل ہے، ان دوروں کا مقصد آئی ایم ایف کو قرض کی قسط دینے کے لئے راضی کرنا تھا جس میں تاحال ناکامی دیکھنے کو مل رہی ہے، اس کے علاوہ وزارت خزانہ کے حکام نے قطر کا دورہ کیا جبکہ عسکری حکام نے بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے دورے کیے۔

معاشی بدحالی اور بے قابو مہنگائی:

شہباز شریف حکومت کے آتے ہیں سیاسی عدم استحکام نے سب سے پہلا وار اسٹاک ایکسچینج پر کیا، جو کہ ان پچاس دنوں میں تنزلی کا شکار ہی رہی، سٹاک ایکس چینج کا 100 انڈیکس ایک سال بعد 42 ہزار پوائنٹس سے نیچے آیا، سرمایہ کاروں کے 80 ارب 37 کروڑ ڈوب گئے، دوسری جانب روپے کی گراوٹ اور ڈالر کی پرواز دیکھنے کو ملی، تجربہ کار حکومت کے آتے ہی ڈالر نے اڑان بھری، تاریخ میں پہلی بار 200 کی حد پار کر گیا، روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے مہنگائی کا جن بے قابو دکھائی دیا، دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات میں وعدوں کے برعکس اضافہ کیا گیا، پٹرول میں اضافے کی 30، 30 روپے کی دو ڈوز دی گئیں جبکہ کہا جا رہا ہے کہ ابھی بوسٹر ڈوز باقی ہے، معیشت کا جنازہ بھی دھوم دھام سے نکالا جا رہا ہے، پاکستان کے فارن ریزروز تیزی سے کم ہو رہے ہیں، امپورٹس پر پابندی کی وجہ سے ایکسپورٹس کو نقصان پہنچایا گیا ہے جبکہ تیل اور بجلی کی فراہمی کے حوالے سے نا اہلی برتنے سے عروج پر جاتی انڈسٹری زوال کی جانب گامزن ہو گئی ہے۔

عام آدمی کی زندگی مزید ایسے دشوار ہوئی کہ ٹرانسپورٹ کے کرائے میں دوگنا اضافہ دیکھنے کو ملا 10 کلومیٹر سفر کا ٹرانسپورٹر 40 سے 50 روپے چارج کرنے لگے ہیں۔ عام سائیکل 17 ہزار سے 25 ہزار میں ملنے لگی ہے، غریب کی سواری سی ڈی 70 موٹرسائیکل کی قیمت میں 6 ہزار کا اضافہ دیکھنے کو ملا، اشیائے خورد و نوش کی بات کریں تو گھی اور کوکنگ آئل میں 200 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا، 20 کلو آٹے کا تھیلا 1700 سے 2000 ہزار میں دستیاب ہے، جس کے لئے شہباز شریف نے جوش خطابت میں اپنے کپڑے بیچنے کا اعلان کر ڈالا تھا۔

بجلی کی قیمت میں 12 روپے فی یونٹ اضافہ کر کے عوام پر اضافی بوجھ ڈالا گیا، بجلی اور پٹرول مہنگا ہونے کے بعد اوگرا نے جولائی سے سوئی ناردرن کے لئے نرخوں میں 45 اور سوئی سدرن کے لئے 44 فیصد اضافے کی منظوری دے دی۔ اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح 14 فیصد جبکہ صرف اشیا خورد و نوش سے متعلق مہنگائی کی شرح 20 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

ریلیف پیکج کا اعلان:

قوم سے اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے 28 ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا اور کہا کہ فوری طور پر ایک کروڑ 40 لاکھ غریب خاندان کو 2 ہزار روپے دیے جا رہے ہیں، بتایا گیا کہ یہ امداد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام مالی امداد کے علاوہ ہے، حکومت نے اعلان کیا کہ آئندہ مالی سال کے لیے اس ریلیف پیکج کو بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔ یوٹیلٹی اسٹورز کو حکم نامہ جاری کیا گیا کہ آٹے کا 10 کلو کا تھیلا 400 روپے کا دیا جائے، تاہم اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔

لوڈ شیڈنگ ’دعوے اور حقیقت:

موجودہ حکومت نے عدم اعتماد کے بعد جیسے ہی اقتدار سنبھالا، بجلی اور گیس نے بھی ہچکولے کھانا شروع کر دیے، لوڈشیڈنگ کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں 12 گھنٹے جبکہ شہری حلقوں میں 6 سے 10 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے، پہلی دفعہ سردیوں کے بجائے گرمیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ وزیراعظم نے پہلے یکم مئی سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا جس پر عمل نہ ہوا، بعد ازاں اعلان کیا گیا کہ اب صرف تین گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوگی لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔

چھپر پھاڑ تشہیری مہم:

موجودہ حکومت نے آتے ہی تشہیر پر بے پناہ زور رکھا، بڑی اخبارات اور چینل کو چھپر پھاڑ اشتہارات سے نوازا گیا، دورہ ترکی جانے سے ایک دن قبل دس بڑی اخبارات میں آدھے آدھے صفحات کے اشتہارات صرف اس بات کا اعلان کر رہے تھے کہ وزیراعظم ترکی جا رہے ہیں، تشہیری مہم میں قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا جس پر سوشل میڈیا پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا یا گیا۔

تحریک انصاف کی کامیابیوں کا اعتراف:

تحریک انصاف کی حکومت پر شدید تنقید کر کے حکومت میں آنے والوں نے تحریک انصاف کی کئی شعبوں میں کارناموں کا نادانستہ طور پر اعتراف کیا، مفتاح اسماعیل نے بیان دیا کہ گروتھ ریٹ مانتے ہیں لیکن اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، یعنی کہ انہوں نے تسلیم کیا کہ گروتھ ریٹ 6 فیصد تھی۔ مریم نواز صاحبہ اپنے جلسوں میں امریکی خط کو جعلی کہتی رہیں لیکن اسمبلی کے فلور پر شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ ”خط تھا اور اس میں دھمکی آمیز گفتگو بھی تھی لیکن سازش نہیں ہوئی“ ۔

وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اعتراف کیا کہ 2018 کے بعد ریلوے کے خسارے میں کمی آئی، پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کی حکومت پر الزامات عائد کیے کہ گورنر سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کا غلام لگایا گیا لیکن اسی گورنر کو رخصت کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس کی تعریف کے پل باندھ دیے اور اپنی ٹویٹ کے ذریعے انہیں ایک قابل گورنر کے طور پر تسلیم کیا، مفتاح اسماعیل نے ایف بی آر کی کارکردگی کو بھی سراہا اور تسلیم کیا کہ عمران خان کی لگائی ہوئی ایف بی آر کی ٹیم نے ریکارڈ ٹیکس کولیکشن کی ہے، تاہم اس تعریف کے باوجود ٹیم تبدیل کردی گئی، سٹیٹ بینک کے نئے گورنر ڈاکٹر مرتضی سید نے کورونا کے دوران تحریک انصاف کی حکومت کی تعریف کی، انہوں نے کہا کہ کرونا کے دوران پاکستان کی معیشت دنیا کی بہترین کارکردگی دکھانے والی معیشت رہی، کیبنٹ ڈویژن کی ایک رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ عمران خان نے احتساب کے نعرے کو کسی حد تک عملی اقدامات میں بدلنے کی کوشش کی اور نیب نے گزشتہ تین سالوں میں نیب اور اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے 400 ارب سے زائد کی ریکوریاں کی ہیں، اس سے قبل 2008 سے 2018 نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے دس سال میں محض 104 ارب تھیں۔ بلاول زرداری نے عالمی دوروں میں کرونا کے دوران پاکستان کی حکمت عملی کا ذکر کیا جبکہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے اقدامات کا بھی ذکر کرتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments