شاہین صہبائی کا گمراہ کن ٹویٹ اور پاکستانی فوج


پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بار پھر فوج کی غیر جانبداری کے بارے میں پیدا کئے جانے والے شبہات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ’ صحافی شاہین صہبائی اور دیگر افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پر شوکت ترین کے حوالے سے کیا جانے والاپروپیگنڈا غلط اور بے بنیاد ہے۔ شوکت ترین نے خود بھی خود اس دعوے کی تردید کی ہے‘۔ اس سے پہلے امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی شاہین صہبائی نے الزام لگایا تھا کہ شوکت ترین سے عمران خان کو دھوکہ دینے اور موجودہ حکومت کی مدد کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

شاہین صہبائی نے آئی ایس پی آر اور شوکت ترین کی تردید کے بعد بھی اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ اپنی بات پر قائم ہیں کیوں کہ اس کا انکشاف تو خود شوکت ترین ہی کرچکے ہیں۔ شاہین صہبائی کے جس ٹوئٹ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر ایک بار پھر فوج کو سیاسی انجیئنرنگ کا ذمہ دار قرار دے کر سخت تنقید کی جا رہی ہے، اس میں واشنگٹن میں مقیم صحافی نے براہ راست آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر بدحواس اور خوفزدہ ہونے کا الزام لگایا تھا اور سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔ شاہین صہبائی کے ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ ’ نیوٹرل کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ میں جلد ہی یہ معلومات سامنے لاؤں گا کہ ’چیف نیوٹرل‘(جنہیں شوکت ترین نے ہی ’جانبدار‘ ثابت کر دیا ہے) نے شوکت ترین سے عمران خان کو دھوکا دینے اور شہباز کی مدد کے لئے کہا تھا۔ وہ اس عہدے کے باقی چار ماہ کے دوران اس قدر حساس اور خوفزدہ ہو چکے ہیں۔ یہ سب مشکوک، پراسرار، خطرناک اور حب الوطنی کے برعکس ہے‘۔

شاہین صہبائی کی اس ٹوئٹ کے جواب میں شوکت ترین نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’ انہیں اسٹبلشمنٹ میں سے کسی نے عمران خان کو چھوڑ کر شہباز شریف کی حکومت میں جانے کا نہیں کہا۔ میں خود سے منسوب کی گئی اس بات کی تردید کرتا ہوں‘۔ ان دونوں ٹوئٹس کے بعد ہی آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں آرمی چیف پر اس الزام تراشی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ ذاتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے ادارے اور اس کی قیادت کے خلاف بدنیتی پر مبنی الزامات اور صریحاً جھوٹ بولنا قابل مذمت ہے۔ ادارہ ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے‘۔ اس معاملہ کے مرکزی کردار شوکت ترین کی وضاحت ، آئی ایس پی آر کی پرزور تردید اور قانونی کارروائی کی دھمکی کے باوجود شاہین صہبائی کا اصرار ہے کہ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں جو بات کہی ہے، اس کا اعلان تو خود شوکت ترین ایک انٹرویو میں کرچکے ہیں۔ گویا وہ اس بات پر مصر ہیں کہ ان کی ’خبر‘ بالکل درست ہے اور وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

شاہین صہبائی کے دعوے اور اس پر سامنے آنے والی تردید پر غور سے پہلے یہ دیکھ لینا اہم ہے کہ شوکت ترین نے کیا کہا تھا جسے بنیاد بنا کر اب شاہین صہبائی سیاست میں فوجی مداخلت کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک ایسی نفرت انگیز مہم چلا رہے ہیں جس سے براہ راست قومی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ شوکت ترین عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے وقت وزیر خزانہ تھے اور انہوں نے ہی عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے مالی تعاون کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے میں دیگر باتوں کے علاوہ اسٹیٹ بنک کو خود مختار کرنے کا قانون منظور کرنا بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کرتے ہوئے انہیں عالمی منڈی کی قیمت کے برابر لانے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ شوکت ترین کے ذریعے عمران خان حکومت نے عالمی فنڈ کو یہ یقین بھی دلایا تھا کہ کورونا وبا کے دوران عالمی اداروں سے ملنے والی اربوں ڈالر کی امداد کا آڈٹ بھی پیش کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جنوری کے دوران اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود اسٹیٹ بنک کو حکومتی تسلط سے آزادی دینے کا بل منظور کروا لیا تھا۔ اگر ملک کے سیاسی حالات عمران خان کے خلاف ہموار نہ ہوتے تو تحریک انصاف کی حکومت اس معاہدہ کی باقی شقات پر بھی عمل کرتی۔

تاہم اس دوران اپوزیشن پارٹیاں تحریک عدم اعتماد کی تیاری کررہی تھیں اور عمران خان کے خلاف وسیع تر سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جارہا تھا۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید اپنے انٹرویوز میں اعتراف کرچکے ہیں کہ عمران خان کو اپنے خلاف عدام اعتماد کی تیاری اور قومی اسمبلی میں اکثریت کھو دینے کے بارے میں معلومات حاصل ہو رہی تھیں۔ اسی بدحواسی میں آئی ایم ایف کے ساتھ تیل کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کے معاہدے اور اوگرا کی طرف سے قیمتوں میں اضافہ کی سمری کے باوصف وزیر اعظم کے طور پر عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس حساس معاشی معاملہ کو اپنی سیاسی زندگی کے لئے لائف لائن بنانے کا فیصلہ کیا اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی بجائے 10 روپے کمی کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ قوم کو مزید مالی بوجھ سے بچانے کے لئے یہ فیصلہ بھی کر چکے ہیں کہ جون میں نیا بجٹ پیش ہونے تک پیٹرولیم کی قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رکھی جائیں گی اور ان میں اضافہ نہیں ہو گا۔

 ملکی معاشی صورت حال، عالمی منڈی میں روس یوکرائن جنگ کے باعث تیل کی قیمتوں میں اضافے اور بحران کے باوجود عمران خان نے یہ سیاسی داؤ کھیلنا ضروری سمجھا۔ اب اسی فیصلے کو موجودہ حکومت ملکی معیشت میں نصب کی گئی بارودی سرنگیں قرار دے رہی ہے جبکہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے اسٹبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کو شدید دباؤ میں لانے کے جوش میں عمران خان بھی کسی بھی کلاسیکل اپوزیشن کی مانند حالات و حقائق کے برعکس پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کو موجودہ حکومت کی نااہلی اور فوج کی جانبداری و مخاصمت سے تعبیر کررہے ہیں۔ شوکت ترین کا انٹرویو ہو یا شاہین صہبائی کا ٹوئٹ، ان پر غور سے پہلے اس معاشی سیاسی پس منظر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اب شاہین صہبائی شوکت ترین کے مئی میں دیے گئے ایک انٹرویو کے حوالے سے آرمی چیف کو عمران خان کی زبان میں ’چیف نیوٹرل‘ قرار دے کر دعویٰ کررہے ہیں کہ شوکت ترین پر دباؤ ڈالنے کا اقدام جنرل قمر جاوید باجوہ کے خوف و بدحواسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسے انہوں نے ’مشکوک، پراسرار، خطرناک اور حب الوطنی کے برعکس‘ بھی کہا ہے۔

اب یہ پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس ٹوئٹ سے کیا اخذ کرتا ہے لیکن بادی النظر میں یہ پیغام کوئی خبر نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کی لابی کی طرف سے فوج کو ڈس کریڈٹ کرنے اور آرمی چیف کو بدعہد اور سازشی قرار دینے کی کوشش ہے۔ کوئی بھی صحافی اگر کسی بھی بنیاد پر ملک کے ایک سیاسی گروہ کی حکمت عملی کا آلہ کار بنے گا تو اس پر سوال ضرور اٹھیں گے۔ یہی شاہین صہبائی کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ کیوں کہ انہوں نے ٹوئٹ میں ایک پرانے انٹرویو کو بنیاد بنا کر خبر ’بریک‘ کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ سرے سے کوئی خبر نہیں ہے لیکن اسے فوج کے خلاف پروپیگنڈا کا مؤثر ذریعہ ضرور بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس پی آر کو اس کی تردید کرنا پڑی ہے اور قانونی چارہ جوئی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

شوکت ترین ایک عالمی ادارے کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے وزیر خزانہ تھے۔ مئی کے دوران دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں قائم اتحادی حکومت نے ملک کی تباہ حال معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ان کی ماہرانہ خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم انہوں نے ایسی مدد فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک ملک میں عبوری حکومت قائم کرکے نئے انتخابات کا اعلان نہیں کیا جاتا، وہ تعاون نہیں کریں گے‘۔ یہ شوکت ترین کا سیاسی بیان تھا۔ بلاشبہ انہیں اس کا حق حاصل تھا لیکن اس پرانے بیان کی بنیاد پر شاہین صہبائی کا ٹوئٹ دروغ گوئی اور صحافت کو معلومات کی فراہمی کی بجائے بعض درپردہ عزائم کے لئے استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ ا گرچہ یہ بات فطری اور قابل فہم تھی کہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی پیچدگیوں کو سمجھنے کے لئے شوکت ترین سے تعاون کرنے کے لئے کہا ہو۔ لیکن حکومت کی طرف سے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ شوکت ترین اور تحریک انصاف کے بعد اب شاہین صہبائی کو اسے سیاسی پروپیگنڈا کے لئے استعمال کرنے کا موقع ملا ہے۔ ورنہ شوکت ترین کوئی ایسے معاشی ماہر نہیں ہیں کہ ان کی ’مدد اور تعاون‘ کے بغیر کوئی حکومت مالی معاملات طے نہیں کرسکتی۔

پاکستان کی مالی مشکلات اور ان کا حل نہایت سہل اور قابل فہم ہے: پاکستانی حکومت کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ حکومت کو آمدنی بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مشکل میں وہ جب آئی ایم ایف جیسے اداروں سے مالی مدد لے گی تو سخت بچت اسکیم کی شرائط عائد ہوں گی جو پاکستانی عوام کے لئے مشکلات کا سبب بنیں گی۔ یہ مسائل کسی ایک حکومت سے مخصوص نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں حل کرنا کسی ایک حکومت کے بس کی بات ہے۔ اسی لئے ملکی سیاسی قیادت سے کم از کم معاشی معاملات کی حساسیت کو سمجھ کر حکمت عملی بنانے اور گروہی سیاست کے لئے ملکی اقتصادی مفادات کو داؤ پر نہ لگانے کی استدعا کی جاتی ہے۔

ایک غیر ذمہ دارانہ ٹوئٹ پر اٹھنے والے طوفان اور آئی ایس پی آر کی وضاحت و مذمت سے البتہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ ملکی سیاسی معاملات میں فوج کی کسی بھی قسم مداخلت اس ادارے کے وسیع تر مفاد، ملکی سلامتی اور فوجی قیادت کی شہرت و وقار کے لئے شدید نقصان دہ ہے۔ غیر جانبداری کے اعلانات کے باوجود ملک میں سیاسی اقتدار اور حکومتی فیصلوں کے علاوہ موجودہ اپوزیشن یعنی عمران خان کی حکمت عملی کا محور فوج ہی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ چونکہ ملک میں حکومت سازی کے ناکام ہائیبرڈ تجربے کے سرخیل تھے اور وہ بدستور پاک فوج کی قیادت پر مصر ہیں، اس لئے الزامات کی شدت اور غلط فہمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ خاص طور سے اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے کہ عمران خان کی حکومت تبدیل کرنے کے لئے جو اہم ترین عذر بیان کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ’ نومبر میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے وقت عمران خان کے پاس اقتدار ہونا خطرناک تھا‘۔ کوئی اس دعوے کی تفصیل بیان کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا۔ لیکن کبھی بعض سابق فوجی افسر اسلام آباد کی ایک سڑک کے کنارے بیٹھ کر دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے نوّے دن میں انتخابات کا وعدہ کیا تھا اور کبھی امریکہ میں مقیم ایک صحافی آرمی چیف کو دھوکے باز کہنے کی کوشش کرتا ہے۔

ان حالات میں موجودہ سیاسی تنازعہ اور بحران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذات کے ساتھ منسلک ہوچکا ہے۔ ایسے میں تردیدی بیانات اور پروپیگنڈا کی جنگ میں آئی ایس پی آر کو فریق بنانے کی بجائے بہتر ہوگا کہ آرمی چیف اپنی پوزیشن کا جائزہ لیں۔ وہ نومبر میں تو عہدہ سے سبکدوش ہو ہی جائیں گے لیکن وہ ابھی یہ فیصلہ کر کے فوج اور ملک کو بڑے امتحان اور بحر ان سے بچا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments