ہنگامی صورتحال پر قابو پانے کے لئے سیدنا عمر ؓ کے اقدامات ( 3 )


قحط سالی کے موقع پر شرعی حد کے نفاذ پر پابندی:

قحط سالی کے موقع پر عمر ؓ نے چوری کی شرعی حد کے نفاذ پر پابندی لگا دی۔ آپ نے یہ اقدام شرعی حد کو موقوف و معطل کرنے کی نیت سے نہیں کیا تھا جیسا کہ بعض لوگ لکھتے ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ چوری کے جرم میں شرعی حد کی تنفیذ کے لئے مطلوبہ شرائط موجود نہ تھیں، آپ کے پیش نظر بات یہ تھی کہ جو شخص قحط اور کھانا نہ ملنے کی حالت میں دوسرے کی ملکیت سے کچھ کھا پی لیتا ہے تو اس کی نیت چوری نہیں ہوتی اور وہ غیر ارادی طور پر یہ عمل انجام دیتا ہے اور اسی وجہ سے آپ نے ان غلاموں کا ہاتھ نہیں کاٹا جنہوں نے اونٹنی کو چوری کر کے ذبح کر لیا تھا۔ بلکہ آپ نے ان کے مالک حاطب کو حکم دیا کہ اونٹنی کی قیمت ادا کریں۔ آپ نے فرمایا : کھجور کے گوشے کی چوری اور قحط سالی کے موقع پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فقہی مذاہب بھی سیدنا عمر ؓ کی فقہ و اجتہاد سے کافی حد تک متاثر ہیں، اسی فاروقی اجتہاد کے پیش نظر امام احمد بن حنبل ؓ کا قول ہے کہ قحط سالی اور بھوک کے موقع پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ یعنی محتاج اگر ایک لقمہ کھانے کے لئے مر رہا ہو اور ایسی حالت میں اپنی خوراک کی مقدار میں کھانا چوری کر لے تو اس پر ہاتھ کاٹنے کی شرعی حد نہیں نافذ ہوگی۔ اس لیے کہ وہ اضطراری یعنی مجبوری ولا چاری کی حالت میں ہے۔

علامہ جوزجانی نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا قحط سالی کے ایام میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ میں نے اس مسئلے میں امام احمد سے پوچھا کہ کیا آپ بھی اس کے قائل ہیں؟ تو انہوں نے کہا : ہاں اللہ کی قسم اگر ایک لقمہ کھانے کی ضرورت نے اسے چوری پر مجبور کیا اس حالت میں کہ لوگ قحط و بھوک کی زندگی گزار رہے ہوں تو میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹوں گا۔

دفاعی صورتحال:

ان حالات و واقعات کے بیان کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ پورا حجاز اس قحط کی لپیٹ میں تھا۔ مکہ مدینہ سے لے کر شام، عراق اور یمن کی سرحدوں تک ہر شخص متاثر تھا۔ لیکن بہتر حکمت عملی کی وجہ سے دشمنان اسلام کو یہ موقع ہی نہ ملا کہ وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکیں۔

”جب حضرت عمر ؓ جزیرہ العرب کے قحط زدہ عوام کی امداد میں مصروف تھے۔ اسی دوران انہوں نے اپنے فوجی کمانڈروں کو سخت احکام جاری کر دیے تھے کہ جب تک وہ اپنی مدافعت پر مجبور نہ ہو جائیں دشمن سے جنگ نہ کریں“ ۔

اللہ تعالیٰ سے مدد طلبی و فریاد رسی اور نماز استسقاء :
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عام الرماوہ میں عمر بن خطاب ؓ نے یہ خطبہ دیا:

”اے لوگو! اپنے ظاہری اعمال میں، نیز تمہارے جو معاملات لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں سب میں اللہ سے ڈرو، میں تمہارے ذریعے سے اور تم میرے ذریعے سے آزمائے گئے ہو، میں نہیں جانتا کہ (الہیٰ) ناراضی تم کو چھوڑ کر مجھ پر نازل ہوئی ہے، یا مجھ کو چھوڑ کر تم پر نازل ہوئی ہے، یہ ناراضی ہم سب کو شامل ہے، آؤ ہم سب مل کر اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں کی اصلاح کر دے اور ہم پر رحم فرمائے اور ہم سب سے اس آفت (قحط سالی) کو دور کر دے“ ۔ آپ اس دن اس حالت میں دیکھے گئے کہ اپنے ہاتھ کو اٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے اور لوگوں نے بھی دعا کی، آپ خود گریہ کناں ہوئے، لوگ بھی گریہ کناں ہوئے، پھر آپ منبر سے نیچے اتر آئے۔

اسلم سے روایت ہے کہ میں نے عمر ؓ کو کہتے ہوئے سنا: ”اے لوگو! مجھے خوف و خطر لاحق ہے کہ اللہ کی ناراضی ہم سب کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے، لہٰذا اپنے رب کو راضی کر لو، غلط حرکتوں سے باز آ جاؤ اور اپنے رب سے توبہ کرو اور نیک اعمال کرو“ ۔ اور عبداللہ بن ساعدہ سے روایت ہے کہ میں نے عمر ؓ کو دیکھا کہ جب انہوں نے مغرب کی نماز پڑھی تو لوگوں کو آواز دیتے ہوئے کہا: اے لوگو! اپنے رب سے استغفار کرو، اور اسی سے توبہ کرو، اس سے اس کے فضل کرم کے طالب بنو، اس سے ایسی بارش کا سوال کرو جو باران رحمت ہو، باران عذاب نہ ہو، یہی عمل مسلسل کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو ہٹا دے۔

سیدنا عمر ؓ نے خود کو دوسروں کے لئے نمونہ بنا کر پیش کیا:

”عام الرمادہ“ میں قحط کے موقع پر سیدنا عمر ؓ کے پاس ان کے کھانے کے لئے گھی سے چپڑی ہوئی روٹی لائی گئی، آپ نے ایک بدوی آدمی کو بلایا تاکہ وہ بھی آپ کے کھانے میں شریک ہو جائے، بدوی نے کھانے میں کھانے میں شریک ہو کر کھانا شروع کیا اور گھی کو لقمے سے لپیٹ کے کنارے لا کر شوق سے کھانے لگا۔ سیدنا عمر نے اس سے کہا :ایسا لگتا ہے کہ تم کو گھی کبھی میسر نہیں آیا؟

بدوی نے کہا: جی ہاں، فلاں فلاں وقت سے آج تک نہ میں نے گھی اور روغن چکھا ہے اور نہ کسی کو یہ کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کی بات سن کر سید نا عمر ؓ نے قسم کھا لی کہ جب تک میری عوام کو فراخی کی زندگی نہ مل جائے اس وقت تک نہ وہ گوشت کھائیں گے اور نہ گھی کو ہاتھ لگائیں گے۔ تمام راوی اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عمر ؓ نے اس قسم کو پورا کرنے کا عزم مصمم کر لیا تھا اور اسی وجہ سے جب بازار میں گھی اور دودھ سے بھرے ہوئے ڈبے فروخت ہونے کے لئے آئے، تو عمر ؓ کے غلام نے آپ کے لیے 40 درہم میں ایک ڈبہ گھی اور ایک ڈبہ دودھ خریدا اور لے کر عمر ؓ کے پاس آیا، اور کہا:

امیرالمومنین! اللہ نے آپ کی قسم کو پورا کر دیا، اور آپ کو بہت اجر و ثواب ملا، اب بازار میں دودھ اور گھی کے ڈبے آ گئے ہیں اور میں نے انہیں چالیس درہم میں خرید لیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا : تم نے مہنگی قیمت میں خریدا، ان دونوں کو اللہ کے راستے میں صدقہ کردو، میں ناپسند کرتا ہوں کہ اسراف کا لقمہ کھاؤں، اور اس کے بعد ہی فرمایا : میں رعایا کے دکھ درد کو کیسے سمجھ سکوں گا جب تک کہ میں بھی ان کی حالت سے نہ گزروں۔

حضرت عمر فاروق کی زبان سے نکلا ہوا آخری جملہ ایک تابناک اور زریں قول ہے، جس میں پوری انسانیت کے لئے سیاست کا عظیم الشان اصولوں میں سے ایک اصول پنہاں ہے، قابل غور ہے یہ جملہ کہ : ”میں رعایا کے دکھ درد کو کیسے سمجھ سکوں گا جب تک کہ میں بھی ان کی حالت سے نہ گزروں“ ۔

خلاصہ کلام :

اس مقالے میں انتظامی حوالے سے سیدنا عمر ؓ کے اہم اقدامات یہ ہیں کہ اسلامی ریاست نے اقتصادی بحران و ہنگامی حالات

ہونے کے باوجود عوام کے بنیادی حقوق معطل نہیں کیے ، بلکہ ریاستی سزاؤں کو معطل کیا، اعلیٰ حکمرانی Governance Good کی ایسی مثالی دنیا میں نہیں ملتی۔ اصل بات یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، بنیادی ضروریات کی فراہمی، اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر ریاست شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم نہیں کر سکتی تو اسے شہریوں کو اضطراری حالت میں قانون شکنی پر سزا دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ غرض سیدنا عمر ؓ کی Crisis Management وہ روشن اور معجزانہ مثال ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔

ہمارے ملک میں اس وقت بے شمار و سائل ہونے کے باوجود ملک عزیز کو سنجیدہ بحران درپیش ہیں۔ مگر ہمارے حکومتی ادارے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے گیس، بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور دیکھتے ہی دیکھتے اشیا خورد نوش مہنگی ہو جاتی ہیں۔ در اصل عصر حاضر میں مہنگائی، بیروزگاری، تعلیم، صحت اور امن عامہ جیسے مسائل حکومتی توجہ اور ٹھوس اقدامات کے متقاضی ہیں۔ ریاست اور عام شہری کا باہمی تعلق آج کی انتظامیہ کے لیے اہم ہے۔ وطن عزیز میں سینکڑوں بد قسمت شہری ریاستی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں لیکن ان کی حق میں آواز بھی نہیں اٹھائی جا سکتی۔

اس مقالے میں سب سے اہم بات جو نمایاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ عام الرمادہ (قحط) میں حکمران و عوام کی تمیز ختم کر دی گئی تھی۔ اور حاکم ہر اعتبار سے عوام کا نمائندہ تھا۔ اتنی بڑی سلطنت کا حکمران ہر سطح پر عوام کے ساتھ تھا۔ نہ کسی Protocol کا خیال تھا اور نہ Security کا، خدشات و خطرات اس زمانے میں بھی تھے، لیکن سیدنا عمر ؓ نے اپنے اور عوام کے درمیان کسی چیز کو حائل نہ ہونے دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments