شہریار سے شیریں بن جانے والی کا رشتہ کیوں نہ ہو سکا


اپنے ناپ سے دو گنا چھوٹا زیر جامہ پہن کر شیریں نے اوپر بڑے گھیر کی شلوار ڈال کر سوچا اب تو کوئی نہ جانچ پائے گا۔ پھر بقیہ کپڑے پہن کر آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا اور کمرے سے باہر نکل آئی۔ ثانیہ اس کو کالج چھوڑنے کے لیے روز کی طرح انتظار کر رہی تھی۔ اسے معلوم تھا شیریں کو تھوڑا وقت لگتا ہے، سب کچھ ڈھانپنے اور چھپانے میں۔ حاجرہ بیگم کو کوئی پرواہ نہیں تھی اس کی، بہنوں نے ہی سنبھالا ہوا تھا اس کو۔ شیریں کا یہ راز دنیا میں بس ماں اور بیٹیاں جانتے تھے۔

حاجی برکت کی محلے میں بڑی عزت تھی۔ سرکار کی نوکری سے ریٹائر ہوئے تھے اور اب مسجد کمیٹی کے سربراہ تھے۔ ثقافتی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر چار بیٹیاں پیدا کر چکے تھے۔ عالیہ، شازیہ، نائلہ اور ثانیہ کے بعد شہریار پیدا ہوا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ حاجرہ بیگم نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ اب پیٹ کبھی خالی بھی رہے گا۔ مگر ان کی خوشی کو شہریار کے لڑکپن میں کوئی اور ٹھکانہ مل گیا۔ پہلے وہ سمجھے بہنوں میں رہ رہ کر ایسی حرکتیں کرتا ہے۔ لیکن معاملہ گمبھیر ہو رہا تھا کیوں کہ بڑھتا اور پھولتا ہوا جسم جھوٹ نہیں بولتا۔

قاری شاکر علی کے پاس مدرسے میں بھیجنا شروع کر دیا۔ وہ بھی اسی قوم کا پیروکار نکلا جن پر پتھر برسا کر ان کو مارا گیا تھا۔ ایک روز شہریار وہاں سے زیادتی جھیل کر آیا تو حاجی صاحب نے مدرسے سے اٹھوا لیا۔ وہ شہریار کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن تھا۔ اس نے سوچا میں لڑکی ہوتا تو شاید یہ سب میرے ساتھ نہ ہوتا۔ اور جب میں ہوں ہی لڑکی تو میرے ساتھ یہ مردوں کی نشانی لگا کر کیوں بھیجا ہے خدا نے مجھے۔ کیا خدا اتنا کمزور ہے کہ عین وقت پر فیصلہ نہ کر پایا کہ مجھے لڑکا بنانا ہے یا لڑکی۔

شکر ہے مدرسہ محلے سے کچھ کوس دور تھا ورنہ بڑی بدنامی ہوتی۔ حاجرہ بیگم نے تو دل کڑا کر کہ اسے کسی گرو کے حوالے کرنے کا سوچ لیا تھا مگر حاجی صاحب نہ مانے۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ گتھی کیسے سلجھائیں۔ فقہ میں ڈھونڈا لیکن کوئی صاف اور مکمل حل نہ ملا۔ پھر ایک دن حاجی صاحب عشاء پڑھ کر گھر آئے تو شہریار کو بڑی بہن کے کپڑوں میں دیکھا۔ وہ شازیہ کے کمرے میں تھا، باپ کو آتے نہ دیکھ سکا۔ حاجی برکت علی چپ چاپ اپنے کمرے میں چلے گئے اور اگلے روز قبر میں۔

اب ساری ذمہ داری حاجرہ بیگم پر تھی جو کہ پہلے ہی اس سے اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دے چکی تھیں۔ سوچتی تھیں چار لڑکیوں کو پالنا کم ہوتا ہے جو اس کرم جلی کو بھی پالوں اب۔ چاروں بیٹیوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ کوئی ماں اتنی سنگ دل بھی ہو سکتی ہے۔ پڑھ لکھ گئی تھیں تو زمانے کی سمجھ بوجھ تھی۔ مل کر فیصلہ کیا کہ اس کو ہم ہی پالیں گے۔

شیریں کی آواز گلے میں دبی اور زکام دار تھی۔ بہت غور بھی کر لو تو شک نہیں ہوتا تھا کہ اس لڑکی میں کوئی مسئلہ ہے۔ بہنیں تو باقاعدہ حسد کرتی تھیں کہ تجھے تو ماہواری کی مسلے بھی نہیں ہیں۔ لیکن اس کے اپنے مسلے مختلف تھے جن کی وہ مخصوص دوائیاں عالیہ کی ڈاکٹر دوست ماہ جبیں سے لیا کرتی تھی۔ شیریں کا حساب بہت اچھا تھا۔ باقی مضامین میں بھی ٹھیک تھی۔ ایک آدھ پوزیشن بھی آ جاتی تھی ہر سال۔ پھر اسے فیروز پسند آ گیا۔

فیروز اس کا ہم جماعت ہی تھا۔ پڑھائی میں ایک اوسط درجے کا لڑکا لیکن وجیہ اتنا کہ کوئی جھوٹ بولے۔ اور ظاہر ہے اس کے اردگرد لڑکیوں کا جمگھٹا رہتا تھا لیکن وہ بھی مغرور سا تھا۔ لڑکیوں کو زیادہ لفٹ نہیں کرواتا تھا۔ شیریں کی اکثر تنہائیاں اس کا نام لیتے گزر جاتیں۔ اس کو اپنے جسم کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ اس قدر بے حال ہو جاتی کہ اسے سمجھ نہ آتا وہ کیسے اور اپنی کس طرف سے سکون پائے۔ ڈاکٹر ماہ جبیں نے اس سلسلے میں اس کی کافی مدد کی لیکن وہ پھر بھی سکون پانے کی اس نہج کو حاصل نہ کر سکی۔

قسمت نے یاوری کی اور شیریں فیروز کے ساتھ ایک سٹڈی گروپ میں شامل کر لی گئی۔ ایک دن موقع پا کر شیریں نے فیروز سے بات چیت شروع کی۔ وہ بھی کم خوب صورت نہیں تھی۔ فیروز کا مزاج دوستانہ تھا یہ اسے اب معلوم ہوا۔ کچھ عرصے تک باتیں ہوتی رہیں لیکن لڑکا اور لڑکی کتنے دن تک اچھی اچھی باتیں کر سکتے ہے۔ پھر گندی باتیں شروع ہو گئیں۔ شیریں نے محسوس کیا کہ فیروز لڑکوں کے بارے میں زیادہ باتیں کرتا ہے۔ ان کے جسم کے بارے میں خاص طور پر۔ اور اس سے بھی پوچھتا ہے کہ فلاں تمھیں کیسا لگتا ہے اور اس کے بارے میں تمھارے جذبات کیسے ہیں۔ ان دونوں میں اتنی بے تکلفی ہو چکی تھی کہ آخر ایک دن شیریں پوچھ بیٹھی کہ تمھیں لڑکے بھی پسند ہیں؟

فیروز پہلے تو اس سوال پر خاموشی اختیار کیے رہا اور پھر ہلکی سی آواز میں ہاں کہہ کر نظریں جھکا لیں۔ شیریں کا یہ سنتے ہی ایک زوردار قہقہہ نکلا۔ فیروز نے مصنوعی خفگی کا اظہار کیا اور اٹھ کر کینٹین کی طرف چل پڑا۔ شیریں آوازیں دیتی رہ گئی اور آخر اس کے پیچھے پیچھے کینٹین پینچ گئی اور اسے منا لیا۔

فیروز نے اسے بتایا کہ اسے زیادہ تر لڑکے ہی پسند ہیں۔ گھر کا ماحول بہت مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سخت بھی تھا۔ لڑکیوں کی طرف تو دیکھنا بھی گناہ کبیرہ تھا۔ مدرسے میں لڑکے ہی ہوتے تھے اور بعد میں سکول میں بھی۔ میں شروع سے ہی ڈیل ڈول والا تھا تو مجھ پر ایک دو مرتبہ کے علاوہ کسی استاد نے ہاتھ صاف نہیں کیا لیکن مجھے پھر لڑکوں کی لت لگ گئی۔ مجھے لڑکیوں میں وہ کشش نہیں لگتی لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ اس چیز سے چھٹکارا پاؤں۔

شیریں نے اس معاملے کو غیبی امداد سمجھا اور اپنی بہنوں سے اس سلسلے میں بات کی کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں کہ یہ عجیب معاملہ ہے۔ کیسے آگے بڑھیں اور کس طرح بات کریں۔ سب نے مشترکہ فیصلہ یہ کیا کہ شیریں کو اپنی اصلیت بتا دینی چاہیے فیروز کو لیکن راز کو راز ہی رکھا جائے اور دونوں طرف رکھا جائے۔

پھر ایک روز شیریں نے فیروز کی کار کی پچھلی سیٹ پر اپنے راز سے سارے پردے اٹھائے تو فیروز بھونچکا رہ گیا۔ اسے کچھ دیر لگی لیکن سنبھل گیا اور دونوں نے حدیں پار کر لیں۔

فیروز شادی کرنے پر مصر تھا مگر شیریں کی بہنوں نے اسے سمجھایا کہ منگنی کرنا بہتر ہے اور پڑھائی پوری کرنے کے بعد تمھیں نوکری مل جائے تو شادی بھی کر لینا۔ بات سمجھ میں آتی تھی چناں چہ رشتے کے لیے فیروز نے اپنے ماں باپ کو منایا اور ایک دن شیریں کے گھر آن پہنچا۔ ادھر حاجرہ بیگم نے بڑی بہنوں کے کنواری ہوتے ہوئے اس منحوس کی شادی کرنے کی حامی بھرنے سے انکار کر دیا مگر عالیہ نے سمجھایا کہ ایک بوجھ تو اتر رہا ہے نا سر سے، اور یہی سب سے بھاری بھی ہے تو پھر کہیں جا کر حاجرہ بیگم راضی ہوئیں۔

لڑکے والے چھوٹے مگر صاف ستھرے گھر میں داخل ہوئے۔ لڑکی والوں نے استقبال کیا۔ لڑکے کے باپ نے سامنے دیوار پر لگی لڑکی کے مرحوم باپ کی تصویر دیکھ کر کہا کہ یہ تو حاجی برکت علی ہیں۔ حاجرہ بیگم نے کہا جی ہاں آپ جانتے ہیں انھیں؟ لڑکے کا باپ بولا ارے کیوں نہیں یہ اپنے لڑکے کو لائے تھے ایک بار مدرسے میں داخل کروانے پھر اٹھوا لیا۔ کہاں ہے آپ کا بیٹا؟ اب تو ماشاء اللہ جوان ہو گیا ہو گا۔ یہ کہتے وقت اس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی۔

چھوٹا سا گھر تھا۔ باورچی خانے میں چائے کے تیار لوازمات لیے کھڑی شیریں کو یہ بات چیت سنائی دی تو اسے پاس رکھے نعمت خانے کا سہارا لینا پڑا۔ حاجرہ بیگم کی شہادت کی انگلی لرزتے ہوئے اٹھی اور وہ بولیں آپ قاری شاکر علی ہیں؟ اس کے بعد ”جی بہن“ کے علاوہ کچھ دیر سوائے تھپڑوں اور کوسنوں کے اس گھر میں کوئی آواز نہ آئی۔ حاجرہ بیگم آپے سے باہر تھیں۔ ان کی بیٹیاں ان کو روک رہی تھیں اور فیروز اپنے باپ کو بچا رہا تھا۔ شیریں باورچی خانے سے باہر آ چکی تھی۔ وہ اور فیروز کی ماں ایک دوسرے کو بالکل سن کھڑے دیکھ رہے تھے اور حاجرہ کے بین سن رہے تھے جس میں وہ ساری کہانی تھی جس میں قاری شاکر علی کی دست درازی کے بعد شہریار نے باقاعدہ شیریں بننے کا فیصلہ کیا تھا۔

جنگ ختم ہو چکی تھی۔ لڑکے والے جا چکے تھے، کبھی واپس نہ آنے کے لیے ۔ اور آتے بھی کس منہ سے۔ چاروں بیٹیاں ماں کے پلنگ سے لگی بیٹھی تھیں۔ شیریں دوسرے کمرے میں بیٹھی آنکھوں میں پھیلا کاجل سمیٹ رہی تھی کہ اس کی نظر دروازے پر گئی۔ حاجرہ بیگم دوپٹے سے منہ ڈھانپے کھڑی نم آنکھوں سے اسے دیکھے جا رہی تھیں لیکن ان کی ہمت نہیں ہو رہی تھی آگے بڑھنے کی۔ شیریں نے بڑھ کر باہیں پھیلا دیں اور کہا میں تو شیریں ہوں ماں، پھر یہ تلخی کیسی۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھیں اور دونوں ماں بیٹی گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ سمٹتا ہوا کاجل پھر سے شیریں کی آنکھوں میں پھیل گیا۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments