نوے دن کا وعدہ اور ایکس سروس مین کی پریس کانفرنس
آج کل، گزشتہ دنوں ریٹائرڈ فوجی افسروں کی غیر سرکاری تنظیم ایکس سروس مین کی پریس کانفرنس سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بڑے شد و مد سے زیر بحث ہے۔ ان کی پریس کانفرنس کا اصل اور بنیادی مطالبہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے تھا کہ انھوں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ملک میں انتخابات نوے دن کے اندر اندر کروائیں گے۔ اس پریس کانفرنس سے بہت ساری باتیں جڑی ہوئی ہیں لیکن میں ان سب کو بائی پاس کر کے صرف ایک دو نکات پر بات کروں گا۔
سب سے پہلے تو اس نکتے پر بات ہو جائے کہ کیا ایکس سروس مین نے جو آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے وہ اس مطالبے کے اخلاقی، سیاسی، قانونی اور اپنے پیشے کے لحاظ سے متحمل ہو سکتے تھے؟ جس کا جواب پہلی فرصت میں نفی میں ہی ہو گا۔ وہ اس لئے کہ اگر کل کلاں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے سبکدوش ججز اپنے سبکدوش ججز ساتھیوں پر مشتمل ایکس ججز کی غیر سرکاری تنظیم بنائے اور سٹنگ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پہلے کسی نجی محفل میں مدعو کریں پھر ان سے وہ وعدے وعید لیں جو ان کے دائرہ اختیار میں ہی نہ ہو اور پھر ان وعدوں وعید پر جب چیف جسٹس پورا نہ اتریں تو ان کے خلاف پریس کانفرنس کریں اور ان سے ان وعدوں وعید کو پورا کرنے کا مطالبہ کریں یا پھر انھی کے دیکھا دیکھی پولیس کے تمام ریٹائرڈ آئی جیز ایک غیر سرکاری تنظیم بنائیں اور پھر موجودہ صوبے کے کسی آئی جی کو اپنے نجی ضیافت میں مدعو کریں اور ان سے وہ وعدے وعید لیں جو ان کے فرائض منصبی ہی میں سرے سے نہ آتا ہو اور پھر وہ ان وعدوں وعیدوں سے منہ پھیر لیں یا وہ کسی سیاسی ایشو کا حصہ نہیں بننا چاہتے ہوں اور پھر ریٹائرڈ آئی جیز کی غیر سرکاری تنظیم پریس کانفرنس کریں اور موجودہ آئی جی کو سیاست میں ملوث کرنے کے مطالبات کریں۔
اس ضمن میں کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن ایکس سروس مین کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور پولیس کی مثالیں میں نے اس لئے دیں کہ یہ تینوں ادارے ملک کے حساس ادارے ہیں اور سبکدوشی کے بعد ملکی سیاست اور بیوروکریسی میں بھی ان سے خدمات لی جاتی ہیں اور خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ کوئی بھی آرمی سے ریٹائر افسر سیاست میں حصہ لے سکتا ہے لیکن حاضر سروس کوئی بھی آرمی افسر کسی بھی سیاسی مسئلے میں خود کو سیاست میں ملوث نہیں کر سکتا۔ اور اس بات کا اعادہ آئی۔ ایس۔ پی۔ آر گاہے بہ گاہے کرتی رہتی ہے اور خصوصاً موجودہ حالات کے پیش نظر بڑا کھل کر اپنا موقف میڈیا کے سامنے لا چکے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ نوے دن ہماری سیاسی تاریخ کی ایک متنازعہ اور تسلسل سے لاینحل ڈیڈ لائن رہی ہے یعنی جس پر کسی بھی فوجی افسر نے عمل نہیں کیا۔ ضیاءالحق کے نوے دن کے بعد الیکشن کا اعلان بالآخر گیارہ سال پر اختتام پذیر ہوا، پرویز مشرف کے الیکشن کے وعدے وعید آٹھ سال بعد انجام کو پہنچے۔ پہلے تو نوے دن کا یہ وعدہ نہ آئی۔ ایس پی آر نے انڈورس کیا ہے اور نہ کسی اور متعلقہ ذرائع نے، کہ اس کی اصلیت اور نہ اصلیت پر بات کریں لیکن اگر منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے اس پر بات کریں تو پھر تو ایکس سروس مین کو پہلے سے یہ پتہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ جو آرمی چیف ان کی منعقدہ ضیافت میں ان سے نوے دن کے الیکشن کا وعدہ کر رہے ہیں وہ کبھی پورا ہونے والا نہیں کیونکہ اس سے پہلے اس طرح کے وعدے کبھی پورے ہوئے ہی نہیں۔
اگر ہم یہاں مزید بات کو طول دیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ سابقہ وعدے وعید آرمی چیف کے عوام یا سویلین سے ہوا کرتے تھے اس لئے پورے نہیں ہو پاتے تھے لیکن کوئی بھی سرکاری ملازم جب اپنی وردی اتارتا ہے تو سول ڈریس زیب تن کرتا ہے اور وہ پھر عام لوگوں اور سرکاری اہلکاروں کو سویلین نظر آتا ہے پھر وہ ان کو سویلین کی طرح ڈیل کرتے ہیں اور شاید آرمی چیف نے ایکس سروس مین کو سویلین ہی ڈیل کیا ہے اور یہ لوگ بھی خود کو سویلین سمجھ کر پریس کانفرنس کر رہے تھے لیکن ان کے ذہن میں جو وردی کا تصور چھپا ہوا تھا وہ صحافیوں کے سوال و جواب میں کھل کے سامنے آ گیا۔
- وفور کا ایک تجزیاتی مطالعہ - 12/04/2024
- افسانوں، افسانچوں اور اختراعات پر مبنی کتاب ٹوٹم - 05/04/2024
- رفاقت حيات کا ناول رولاک - 25/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).