سلطنت مغلیہ ، پانچ قیراط ہیرے کی انگوٹھی اور پانچ رکنی بینچ


سرکاری وکیل: جناب آج اس پانچ رکنی معزز بینچ کو بتانا چاہتا ہوں کہ لاڈلے نے معمار اعظم سے پانچ قیراط ہیرے کی انگوٹھی رشوت میں لی ہے۔ ہمیں فوری کارروائی کی اجازت دی جائے۔

قاضی القضا : آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ایسا ہوا ہے

وکیل: جناب معمار اعظم کی ایک آڈیو لیک ہوئی ہے۔ جس میں انہوں نے اپنی دختر ارجمند کو ایسی انگوٹھی خریدنے اور پھر ملکہ عالیہ کو ان کی خادمۂ خاص کے ذریعہ بطور رشوت دینے کی بات کی ہے۔ پوری دنیا میں شور مچا ہوا ہے۔

قاضیٔ القضا : اچھا ہمیں پتا نہیں چلا۔ حالانکہ ہم خود اس اشتیاق میں رہتے ہیں کہ کس کس شاہی اہلکار یا پرائیویٹ شہری کی آڈیو اور ویڈیو آ رہی ہے۔

وکیل: جناب اگر آپ نے نہیں سنی تو اجازت دیں کہ آڈیو یہیں چلا کر تصدیق کر لی جائے۔

قاضی القضا : نہیں اس طرح عدالت کا وقت ضائع ہو گا۔ اگر ہم نے ایک آڈیو سن لی تو کل کو کوئی پوری البم لے آئے گا۔ کوئی کہے گا میرا تھیم سونگ سنا جائے۔ کوئی کہے گا کہ میری قوالی سنی جائے۔ یہ عدالت ہے اس کو آڈیو سے نہیں دلیل سے قائل کریں۔

معاون قاضی نمبر 1 : آڈیو میں آپ کے بقول اعتراف معمار اعظم نے کیا مگر کیس آپ لاڈلے کے خلاف کرنا چاہتے ہیں؟

سرکاری وکیل: سر آپ اجازت دیں تو ہم دلائل اور دستیاب مواد سے ثابت کریں گے کہ لاڈلا ہی انگوٹھی کا وصول کنندہ ہے۔

معاون قاضی نمبر 2 : یہ کیسے ثابت ہوا کہ انگوٹھی واقعی خریدی گئی اور واقعی کوئی جرم ہوا ؟ یہ ایک تحفہ یا ہدیہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ ہدیہ اور تحفہ تو شریعت میں بہر حال جائز ہے۔ آپ کہیں تو ہم میر عدالت سے کہہ کر مفتی اعظم سے فتوی لے لیتے ہیں۔

وکیل ( منمناتے ہوئے ) سر پہلے آڈیو چل۔۔۔

معاون قاضی نمبر 3 : ( وکیل کی بات کاٹتے ہوئے ) یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ معمار اعظم کا صرف ارادہ ہو، اصل جرم کا ارتکاب ہی نہ ہوا ہو۔ صرف ایک گناہ کے ارادے پر کیوں کارروائی کریں؟

معاون قاضی نمبر 1 : فرض کریں کہ لاڈلے نے یہ انگوٹھی وصول کی۔ مگر کیا لاڈلے کو علم تھا کہ یہ رشوت ہے؟ اگر اسے علم ہی نہیں تھا تو پھر اس کے خلاف یہ کیس کیسے بنتا ہے؟

معاون قاضی نمبر 4 : لاڈلے نے اگر انگوٹھی لی تو آپ نے کیسے فرض کر لیا کہ وہ کسی ناجائز اور غیر قانونی کام کے لئے ہی لی؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ انگوٹھی کسی غریب بچی کو جہیز میں دینے کے لئے یا کینسر کے کسی مریض کا علاج کروانے کے لئے لی گئی ہو؟

وکیل : جناب والا! ہم سب سوالوں کے جواب دیں گے۔ آپ ہمیں سلسلہ وار جواب داخل کرنے کا موقع دیں۔ یہ عوامی اہمیت کا مقدمہ ہے۔ اس میں بڑی اہم شخصیات ملوث ہیں۔ اس لئے ہماری عدالت عظمیٰ سے بڑی امیدیں ہیں۔

معاون قاضی نمبر 1 : ( وکیل کو ٹوکتے ہوئے ) : آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ عرصہ ہوا عدالت نیوٹرل ہو چکی ہے۔

وکیل: جی معذرت چاہتا ہوں۔ آپ کو یقین دلاتا ہوں۔ آئندہ کبھی بھی ایسا نہیں ہو گا

وکیل : جناب پھر گزارش کروں گا کہ ہم آڈیو چلانے کے حوالے سے کچھ بنیادی دلائل دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس کی اجازت دی جائے۔

قاضی القضا : آپ نے یہ کھوج لگایا کہ یہ آڈیو کس نے لیک کی اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

وکیل: سر یہ بات بھی اب تحقیق سے ہی معلوم ہو گی۔ اگر آپ آرڈر دیں تو رئیس محمکہ جاسوسی یہ کام بخوبی سر انجام دے سکتے ہیں۔

قاضی القضا : عدالت کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس سارے قضیے میں میر جعفر یا اس کے گماشتوں کا کوئی کردار نہ ہو۔

معاون قاضی نمبر 4 : اگر ہم آڈیو لیک پر ہی کارروائی شروع کر دیں تو یہ بہت خلاف انصاف ہو گا۔ کل کو کسی میر جعفر نے ایک قیراط یا دو قیراط کی کوئی اور آڈیو پبلک کردی تو کیا آپ ہم ایسے معاملات میں ہی مصروف رہیں گے؟

وکیل: مائی لارڈز۔ معذرت چاہتا ہوں۔ میرا مقصد عدالت کا وقار مجروح کرنا نہیں۔ صرف اتنی گزارش ہے کہ لاڈلے کے خلاف ایک کیس بنتا ہے۔ کئی اور واقعاتی شہادتیں بھی ہیں۔ آپ معمار اعظم، متعلقہ جوہری اور خادمۂ خاص کو نوٹس جاری کر دیں۔ ہم داروغہ شہر، ایف آئی اے یا پھر کسی بھی ایجنسی سے تفتیش کروا لیتے ہیں۔

قاضی القضا : دیکھیں آپ کے پاس کوئی ٹھوس دلیل ہو تو بات کریں۔ معمار اعظم نے تو خود اس آڈیو کی تردید کی ہے۔ ان کو بلانے کا فائدہ؟ اور خادمۂ خاص تو ملک سے باہر دبئی میں ہیں۔ ان کو لانے کے لئے ملکی وسائل پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ ایف آئی اے کے پاس اور بہت ذمہ داریاں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں اس کو نہیں گھسیٹنا چاہیے۔

وکیل: سر تو عدالت نے آڈیو نہیں سنی مگر معمار صاحب کی تردید سن لی؟

معاون قاضی نمبر 2 : یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ جو چاہے سنے اور جو چاہے نہ سنے۔ آپ ہمارا اختیار سماعت چیلنج نہ کریں۔ آپ یہ احتیاط کریں کہ کہیں توہین عدالت کے مرتکب نہ ہو جائیں۔

وکیل : میں معذرت چاہتا ہوں۔ آپ کا احترام ہمارے دل میں ہے۔

معاون سرکاری وکیل : سر تو پھر لاڈلے کو بلا کر خود پوچھ لیں؟ یا لاڈلے کے وکیل کو بلا کر ان کا موقف لے لیں

قاضی القضا : لاڈلا اپنی جد و جہد میں مصروف ہے۔ اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے۔ اس کو وکیل کی ضرورت نہیں۔ اس کا کیس ہم خود دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے پاس کوئی اور دلیل ہے؟

وکیل: جناب کم ازکم جوہری سے ہی تفتیش کی اجازت دے دیں۔

قاضی القضا : نہیں نہیں۔ اس طرح ہم نے نوٹس لیا تو کاروباری اور جوہری حلقوں میں اعتماد کی کمی آئے گی۔ ملک کی معاشی صورت حال پہلے ہی نازک ہے۔ عدالت نہیں چاہتی کہ اس کے کسی اقدام سے کاروباری ایکٹیویٹی پر منفی اثر پڑے۔

وکیل : ( بے بسی سے اضطراب میں ) سر تو پھر آپ کوئی حل خود ہی تجویز کریں

قاضی القضا : ہاں یہ آپ نے اچھی بات کی۔ اس پر غور ہو سکتا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہم جانبدار نظر آئیں۔ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ ہم لاڈلے کے خلاف ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ اگلی پیشی پر مذکورہ انگوٹھی کو ڈھونڈ کر اس انگوٹھی کا بیان لے آئیں۔

وکیل: انگوٹھی کا بیان؟

قاضی القضا : جی بالکل انگوٹھی کا بیان۔ اگر انگوٹھی کہہ دے کہ وہ تحفہ یا ہدیہ فی سبیل اللہ ہے تو ہم کارروائی نہیں کریں گے اور اگر انگوٹھی نے کہہ دیا کہ وہ رشوت ہے تو پھر لاڈلے سے پوچھ لیں گے۔

وکیل: سر مگر بے زبان انگوٹھی کیسے بیان دے گی؟
معاون قاضی نمبر 3 : یہ آپ کا پرابلم ہے مسٹر! پیٹیشن آپ نے دائر کی ہے، ہم نے نہیں۔

معاون قاضی نمبر 1 : اگر انسان کی نیت ٹھیک ہو تو پتھر بھی بول پڑتے ہیں۔ یہاں تو ہیرے کی بات ہو رہی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ ”پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر“ ۔ اس مصرع میں آپ کے لئے اشارہ ہے۔ باقی آپ خود محنت کریں۔

قاضی القضا : ہم ایسا کرتے ہیں کہ ایک مانیٹرنگ قاضی مقرر کر دیتے ہیں جو آپ کی ان کوششوں کو مانیٹر کرے گا۔

معاون قاضی نمبر 1 اور 4 ( بیک آواز میں ) بہت خوب۔ ہم بھی یہی کہنے والے تھے کہ اس وکیل کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔

قاضی القضا : شارٹ آرڈر جاری کر دیا ہے۔ آپ اگلی سماعت پر یا تو انگوٹھی کا بیان لے کر آئیں یا پھر عدالت کا وقت ضائع کرنے پر اپنے خلاف کارروائی اور گرفتاری کے لئے تیار رہیں۔ بتائیے اگلی سماعت کب رکھی جائے۔

وکیل ( گھبراہٹ میں ) : سر میرا خیال ہے دو تین سال بعد رکھ لیں۔

قاضی القضا : آپ نے تو کہا تھا کہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔ اتنے اہم مسئلے پر اتنی تاخیر نہیں کی جا سکتی۔ ورنہ عدالتوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ ایسا کریں آپ ایک مہینے کے بعد دوبارہ پیش ہوں اور عدالت کو اپنی پراگریس سے مطمئن کریں۔

وکیل ( روہانسا ہو کے ) : جی سر جیسا آپ کا حکم۔
قاضی القضا : بہت خوب۔ اس کے ساتھ ہی آج کی سماعت ختم ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments