پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے دوسرے ون ڈے میچ پر سمیع چوہدری کا کالم: محمد نواز کی سوچ پُورن کو پچھاڑ گئی

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


محمد نواز
گئے دنوں کی عظیم ویسٹ انڈین ٹیم نے کچھ اس تسلسل سے انٹرنیشنل کرکٹ پر راج کیا کہ آج کی یہ ٹیم دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ اسی ’برانڈ‘ کی نمائندہ ٹیم ہے۔

سنہ 1970 اور اس کے بعد کی دو دہائیوں میں جو ویسٹ انڈین ٹیم شائقین کو محظوظ کیا کرتی تھی، وہ اپنی مہارت میں اس قدر طاق تھی کہ ان کی کرکٹ دیگر اقوام کے مقابلے میں ایک الگ برانڈ بن کر ابھری اور یہ وہ وقت تھا کہ ویسٹ انڈین ٹیم کو اس کے گھر میں مات دینا آسٹریلیا جیسی ٹیموں کے لیے بھی محض ایک خواب ہی ہوا کرتا تھا۔

نکولس پُورن کی قیادت میں فی الوقت ویسٹ انڈیز نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل نئی ٹیم بنانے کی تگ و دو کر رہا ہے مگر بدقسمتی سے اس سیٹ اپ کا بھی وہی المیہ ہے جو ڈیرن سیمی اور جیسن ہولڈر کے بعد کیرون پولارڈ کی ٹیم کا رہا ہے۔

اپنے سینئرز کی تقلید ہر نوجوان کرکٹر کا خواب ہوتا ہے۔ کائل مئیرز جیسے باصلاحیت نوجوان یقیناً اسی ویسٹ انڈین برانڈ کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جس کی پہچان ویو رچرڈز، کارل ہوپر اور برائن لارا ہوا کرتے تھے۔ مگر مئیرز کو یہ سمجھنا دشوار ہے کہ ان کے گرد کوئی ڈیزمنڈ ہینز جیسی سپورٹ موجود نہیں ہے۔

اگرچہ یہاں ٹاس ہارنا ویسٹ انڈیز کی بدقسمتی تھی کیونکہ ملتان کی گرمی میں ایک میچ پرانی پچ پر، دوسری اننگز میں محمد نواز اور شاداب خان کے خلاف بازو کھولنا کسی بھی بیٹنگ لائن کے لیے آسان نہ ہونا تھا، مگر ویسٹ انڈیز نے میچ کے پہلے 60 اوورز بہترین کرکٹ کھیلی۔

ویسٹ انڈین بولرز نے اننگز کے کسی بھی مرحلے پر پاکستانی بیٹنگ کو آپے سے باہر نہیں ہونے دیا۔ بابر اعظم اور امام الحق اگرچہ پاکستان کے ٹاپ آرڈر کی دیوار بنتے جا رہے ہیں اور یہاں بھی اُنھوں نے ایک مستحکم شراکت تشکیل دی مگر جونہی ذرا سی دراڑ پیدا ہوئی، ویسٹ انڈیز نے اسے انہدام میں بدلنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

محمد نواز

عقیل حسین کی سپن نے پاکستانی مڈل آرڈر کو بری طرح آشکار کر ڈالا اور اس کے بعد اگر شاہین آفریدی اور محمد وسیم کے بونس رنز شاملِ حال نہ ہوتے تو مطلوبہ ہدف شاید ویسٹ انڈیز کے لیے کوئی تر نوالہ ہی ثابت ہوتا۔

جس طرح سے پہلے اوور میں شاہین آفریدی کے ہاتھوں زک پہنچنے کے باوجود ویسٹ انڈیز نے پاور پلے میں بے خطر جارحانہ کرکٹ کھیلی، اس نے نوّے کی دہائی کی یاد تازہ کر دی۔ مئیرز اور بروکس کی ساجھے داری میں یہ بیٹنگ آزاد پنچھی کی طرح بلا خوف اڑے چلی جا رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

بابر اعظم ریکارڈز کی بلندیوں پر کیسے پہنچے

سمیع چوہدری کا کالم: خوشدل نے دل خوش کر دیا

سر ویوین رچرڈز: ’بے رحم بیٹسمین‘ جو حساب کتاب میں صرف اپنے رنز گننے میں ماہر تھے

سنچری بنانے والے بابر اعظم نے کہا ’مین آف دی میچ خوشدل شاہ کو دینا چاہتا ہوں‘

مگر پاور پلے کی آخری گیند پر محمد وسیم نے جونہی اس پارٹنرشپ کو توڑا، وہیں سے محمد نواز اور شاداب خان کے لیے رستہ کھل گیا۔ اور یہ تو کوئی راز نہیں تھا کہ جس پچ پر عقیل حسین بھی بابر اعظم اور محمد رضوان جیسوں کو تگنی کا ناچ نچا رہے تھے، وہاں محمد نواز کیسا جادو جگائیں گے۔

ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ لائن نے چونکہ پچھلے میچ میں ایک یکسر نئی پچ پر پہلی اننگز کی بیٹنگ کی تھی، سو اُنھیں ادراک ہی نہیں تھا کہ تین اننگز بعد یہ پچ کس قدر سست ہو چکی ہو گی اور محمد نواز اس کی سُستی کو کیسے برتیں گے۔

پُورن نے ابھی یہ ٹیم نئی نئی سنبھالی ہے اور نیدرلینڈز کے خلاف سیریز کی جیت سے اُن کا اپنی قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد بھی بڑھا ہو گا مگر یہ سیکھنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا کہ اس برانڈ کی بے خوف کرکٹ، جس میں بنیادیں مضبوط نہ ہوں، آج کل کے کھیل میں کارآمد نہیں ہو گی۔

ان کی سوچ مثبت تھی، ارادے نیک تھے اور جیت کے لیے پرعزم بھی تھے مگر یہ طے نہیں کر پائے کہ اس وکٹ پر مار دھاڑ کامیاب ہو گی یا تحمل اور صبر کی چال سے دھیرے دھیرے سفر طے کیا جائے۔

یہی بنیاد بنی اس انہدام کی جو محمد نواز نے برپا کیا اور میچ کو اپنے مقررہ وقت سے کہیں پہلے سمیٹ کر سیریز پاکستان کے نام کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments