اگر الیکشن 2023 میں ہی ہوں تو؟


چند ماہ پہلے جب پی ڈی ایم کی صورت میں متحد اپوزیشن جماعتوں نے مہنگائی کا نعرہ لگا کر سابق وزیر اعظم عمران خان کو حتمی طور پر ہٹانے کی بابت تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کی ٹھانی تو ملک ایک سیاسی ہیجان کی جانب بڑھنے لگا۔ عمران خان کی حکومت ایک طرف مہنگائی کو کنٹرول نہ کر پانے کی وجہ سے پریشان تھی تو دوسری طرف سے اپوزیشن جماعتوں نے ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ان کی جماعت کی مقبولیت کا گراف بھی دن بدن نیچے جا رہا تھا۔

ابھی یہ سب زوروں سے جاری ہی تھا کہ روس اور یوکرین کے مابین ہونے والا تنازعہ بھی شدت اختیار کر گیا۔ اس کے بعد کورونا سے لڑتی بھڑتی دنیا میں عالمی سطح پر خام تیل اور غذائی اجناس کی قیمتوں کا ایک نیا طوفان سر اٹھانے لگا اور اس وقت عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی حکومت اور مسائل میں گھر گئی۔ خان صاحب کو ان مسائل کے علاوہ ایک اور مسئلہ درپیش تھا جو کہ نسبتاً سب سے سنجیدہ تھا جب حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت مزید قائم رکھنے میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

ایسی صورت میں سابق حکومت نے وہ فیصلہ کیا جو آگے چل کے ان کی مقبولیت کا سامان کرنے والا تھا۔ خان صاحب نے فروری کے مہینے میں ملک میں تیل کی مصنوعات پر سبسڈی دے کر آئندہ بجٹ تک قیمتیں نہ بڑھانے کا اعلان کر دیا اور اسی دوران روس کا تاریخی دورہ بھی کیا۔ ان کا یہ فیصلہ نئی حکومت آنے کے بعد ان کی گری ہوئی مقبولیت کو نہ صرف واپس لے آیا ہے بلکہ اس کو دو گنا بڑھا دیا ہے۔ تاہم معاشی معاملات کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں نے اس فیصلے پر بھرپور تنقید کی اور اسے غلط قرار دیا۔

ویسے تو عمران خان اس بات کو لے کر ابھی تک بضد ہیں کہ مہنگائی کی آڑ میں اپوزیشن نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا حصہ بنتے ہوئے ان کی حکومت کو ختم کیا۔ ان کے مطابق مہنگائی کا نعرہ لگا کر اکٹھا ہونے والا بھان متی کا کنبہ پاکستان کے خلاف سازش کر کے ملک کو اقتصادی دیوالیہ پن کے قریب لے آیا ہے اور نئی قائم ہونے والی امپورٹڈ حکومت عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی اس لئے وہ نئے انتخابات کے لئے بھرپور زور لگا رہے جو گزشتہ دنوں حقیقی آزادی مارچ کی صورت میں دیکھا بھی گیا۔

تاحال پی ٹی آئی جلد الیکشن کے لئے واضح دباؤ قائم نہیں کر سکی لہذا ابھی کہا نہیں جا سکتا کہ الیکشن جلد ہوں گے یا موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔ دوسری طرف موجودہ حکومت کی چال اور ان کے حالیہ فیصلوں کے پیش نظر جو بات سامنے آتی ہے اس سے تو محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن 2023 میں ہی ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ پہلے سے سازشی بیانئے تلے دبی ہوئی نئی حکومت نے جونہی تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا، وہ بھی عمران خان کے آزادی مارچ کے فوری بعد ، عوامی غصے میں مزید اضافہ ہوا جسے خان صاحب اپنی حمایت میں بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔

ظاہر ہے کہ حکومت کو طاقتور حلقوں کی جانب سے بھرپور یقین دلایا گیا ہے کہ مشکل فیصلے لینے میں انہیں کوئی پریشانی نہیں دی جائے گی۔ یہ فیصلہ موجودہ حکومت، خاص طور پر نون لیگ کے لئے سیاسی خود کشی کہ مترادف تھا کہ مہنگائی کم کرنے کی دعوے دار جماعتوں نے اس میں کس قدر اضافہ کر دیا ہے، لیکن یہ اب واقع ہو چکا ہے۔ نئی صورت حال کے مطابق اب توجہ کا مرکز عوام ہیں جو عمران خان سے اپنی بھرپور حمایت کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور دوسری طرف حکومت کو مزید جھیلنے کے لئے تیار نہیں۔

تو کیا ہو گا اگر الیکشن واقعی 2023 میں ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ موجودہ حکومت نے اپنی مقبولیت کو جس لا شعوری میں گھٹا لیا ہے اب ان کے لئے صورتحال 2023 تک حکومت کر لینے کے باوجود بہت پریشان کن رہے گی۔ نسبتاً یہ صورتحال اس سے بھی سنگین ہو گی جو عمران خان کو آج سے دو تین ماہ پہلے درپیش تھی۔ عمران خان بظاہر الیکشن بھاری اکثریت سے جیتیں گے مگر آپ کے ذہن میں سوال ہو گا کہ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حکومت کو ”کیہڑے نفلاں دا ثواب ہویا ”جو انہوں نے اتنی محنت کر کے عمران خان کو حکومت سے ہٹانے کے بعد اپنی حکومت بنائی۔

صاف ظاہر ہے موجودہ حکومت کے پاس سیاسی آپشنز بہت محدود رہ جاتے ہیں اور بات ساری غیر سیاسی آپشنز پہ آ جاتی ہے۔ اب انہیں کوئی خصوصی ’تھاپڑہ‘ مل جائے تو ہی بات بن سکتی ہے۔ دوسری طرف الیکشن میں جگاڑ پروگرام کی باتیں بھی سننے اور دیکھنے میں آ رہی ہیں جس میں اہم اداروں اور ریاستی مشینری سے افسران کا بھرپور استعمال بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ ماضی کے انتخابات میں ہوتا رہا ہے۔ مگر بات یہاں پہ ختم ہوتی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اختیار مقتدر حلقوں کے پاس ہی رہے گا اور وہ جس سیاسی جماعت کو سونپیں گے وہی اقتدار میں آئیں گے، دوسری صورت میں اگر عوام کے ووٹ سے ہی نئی حکومت بنتی ہے تو آپ اس عوامی انقلاب یا معجزے کا انتظار کر سکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments