بے بے، فیر آیا ای


اشارہ تو سالانہ بجٹ کی طرف ہے لیکن اس جملے کا حقیقی مفہوم جاننا ہو تو کسی بدیہ گو پنجابی دوست سے رابطہ کیجئے۔ آپ کے نیاز مند کو اردو نثر میں پنجابی نگینے جڑنے کا وہ ہنر ودیعت نہیں ہوا جو استاد مکرم عطا الحق قاسمی نے مبدا فیض سے بدرجہ اولیٰ پایا ہے۔ عابد علی عابد نے کہا تھا، اس بستی کے باغ اور بن کی یارو لیلا نیاری ہے۔ باوقار قوموں میں انتخابات مقررہ وقت پر ہوتے ہیں کہ عوام کے حق حکمرانی میں تعطل نہ آنے پائے۔ ہمارے ملک میں انتخابات ایک ناگہانی حادثے کی صورت نازل ہوتے ہیں۔ ہر دفعہ ایک نئی بساط بچھائی جاتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ سفینہ کنارے جا نہ لگے۔ سنجیدہ اقوام میں مردم شماری کا اہتمام بہت قاعدے سے مقررہ وقفوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو، صحیح اعداد و شمار جانے بغیر قابل عمل فیصلہ سازی کیسے ممکن ہے۔ ہمارے ہاں 1981ء کے بعد مردم شماری کا مردہ بھی خراب کر دیا گیا۔ ایک مرتبہ 17 برس بیت گئے۔ پھر 19 برس کا وقفہ آ گیا۔ اس غفلت کے ڈانڈے قوم کے خلاف درپردہ جرائم سے ملتے ہیں مگر اب اس تفصیل میں کیا جانا؟ معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لئے۔ دو امور البتہ ہمارے ہاں سوئس ٹرین جیسی پابندی سے انجام پاتے ہیں۔ ایک تو حج پالیسی کا اعلان ہے اور دوسرے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس۔ اس کی تفصیل میں بھی پانی مرتا ہے مگر محمد علی جوہر نے انتباہ کر رکھا ہے، اپنے پیچھے بلا لگا لینا۔ بہتر یہی ہے کہ قصہ زمین، برسر زمین، وفاقی بجٹ کی بات کی جائے۔

یہ طے تھا کہ وفاقی بجٹ سخت ہو گا، عوام کو ریلیف نہیں مل سکے گا۔ یوکرائن پر روس کے حملے نے عالمی معیشت کو گہرے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ 2021 میں عالمی معیشت کے 5.7 فیصد کی شرح سے بڑھنے کی توقع تھی لیکن 2022 میں صرف 2.9 فیصد شرح نمو کی توقع کی جا رہی ہے اور اندازہ ہے کہ آئندہ برس بھی عالمی معیشت کی شرح نمو کم و بیش یہی رہے گی۔ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک اپنے ہاں شرح نمو کا ہدف 6.6 % سے کم کر کے 3.4 فیصد پر لا رہے ہیں جب کہ ہم نے 5 فیصد شرح نمو کا ہدف رکھا ہے۔ ایک روز قبل اکنامک سروے میں شرح نمو 5.97 فیصد بتائی جا رہی تھی تو بجٹ میں یہ شرح 5 فیصد کیوں ہے۔ افراط زر کے ضمن میں 11.3 سے 11.5 فیصد کا ناقابل فہم ہدف رکھا گیا ہے، اگر اپریل 2022 میں افراط زر 13.37 تھا تو پیٹرول اور بجلی سے سبسڈی واپس لینے کے بعد ہوش ربا گرانی میں افراط زر کیسے کم ہو گا؟

پاکستان کو گندم کے بحران کا سامنا ہے اور کم از کم 30 لاکھ ٹن گندم برامد کرنا پڑے گی۔ روس سے دو ملین ٹن گندم برآمد کرنے کی بات ہو رہی ہے لیکن روس تو داخلی اسباب کی بنا پر نقد ادائیگی چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ملحقہ اداروں کی مالی اعانت کا محتاج پاکستان یہ ادائیگی کیسے کر پائے گا۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت بڑھانا ناگزیر ہو چکا تھا۔ حکومت نے مئی کے اواخر اور پھر بجٹ سے چند گھنٹے قبل تیس روپے فی لیٹر کے یکے بعد دیگرے دو اضافے کر کے بظاہر بجٹ کی کاٹ کو کسی قدر کند کر دیا مگر جولائی کے آغاز پر پیٹرول اور بجلی کی قیمت میں پھر اضافہ کرنا پڑے گا۔ عمران خان روس سے سستے داموں تیل خریدنے کے دعوے تو کر رہے ہیں لیکن ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں جہاں روس نے پاکستان کو سستا تیل فراہم کرنے کی پیشکش کی ہو۔

بھارت اور چین روس سے تیل خرید رہے ہیں لیکن دونوں ممالک اپنے معاشی حجم کے بل پر آزاد فیصلے کر سکتے ہیں۔ بھارت کے 640 ارب ڈالر زرمبادلہ کے مقابلے میں پاکستان کو 9 ارب ڈالر کے ذخائر کے ساتھ یہ سہولت میسر نہیں۔ دوسری طرف روس کے کروڈ تیل کو ریفائن کرنے کی پاکستانی صلاحیت محدود ہے۔ ایک اشارہ ہی کافی ہے۔ سخالین (روس) سے کراچی بندرگاہ کا فاصلہ ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر ہے۔ یہ تو رہا گندم اور تیل کا معاملہ، پاکستان کی معاشی تصویر ایسی سادہ نہیں کہ بجٹ پر آئی ایم ایف کے دیے ہوئے نقطے ملا کر اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی جا سکے۔ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں بنیادی معاشی کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے کسی معاشی ویژن کا کوئی نشان نہیں ملا۔

مالی برس 2022۔ 23 کے بجٹ کا کل حجم 9502 ارب روپے ہے۔ ٹیکس کی مد میں 7000 ارب کا ہدف رکھا گیا ہے جبکہ نان ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 2000 ارب رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ عوام سے بالواسطہ ٹیکس کی صورت میں 4431 ارب روپے نچوڑے جائیں گے جب کہ براہ راست ٹیکس کا تخمینہ 2573 ارب روپے ہے۔ اب ذرا گہرے پانیوں میں اترتے ہیں۔ مالی برس 2021۔ 22 میں پنشن اور دیگر اخراجات سمیت دفاعی بجٹ 2300 ارب روپے رہا۔ متعلقہ برس میں وفاقی حکومت کے اخراجات ( 479 ارب)، تعلیم پر وفاقی / صوبائی اخراجات (663 ارب) اور صحت پر وفاقی / صوبائی اخراجات (610 ارب) سب ملا کر 1750 ارب روپے خرچ ہوئے۔ آئندہ برس کل ٹیکس کا ہدف سات کھرب ہے۔ 3.95 کھرب روپے قرض واپس کرنا ہو گا۔ 2.46 کھرب روپے دفاع پر خرچ ہوں گے۔ گویا کل ٹیکس کا 92 فیصد قرض کی واپسی اور دفاع پر اٹھ جائے گا۔ یہ وجہ ہے پیٹرول، گیس اور بجلی پر اضافی ٹیکس لگانے کی۔

معیشت درویش کا شعبہ نہیں لیکن یہ بتا سکتا ہوں، افراط زر 11 فیصد رہنے کا کوئی امکان نہیں، شرح نمو 5 فیصد ممکن نہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں مندی کے باعث برآمدات 35 ارب ڈالر نہیں ہو سکیں گی۔ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کا رجحان غیر پیداواری ہے اور تجارتی خسارے کو بڑھاتا ہے۔ سرکار، آئی ایم ایف تو ساہوکار ہے۔ مہاجن کے سہارے ترقی نہیں ہو سکتی۔ اب بھی وقت ہے۔ معیشت کو قومی سلامتی کی بجائے پیداواری نمونے پر استوار کیجئے۔ سیاسی استحکام اور دستوری تسلسل کو موقع دیجئے۔ معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کے بغیر قومی سلامتی محض ایک سراب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments